ایک صحافتی دورہ کی مختصر روداد

زہرہ جبین
ریسرچ اسکالر،سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد
اس وقت جبکہ میں سفر نامہ لکھ رہی ہوں تو ایسا لگ رہا ہے ’’ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا۔‘‘ جب جرنلزم ٹور (صحافتی دورہ) کا خیال آیا تو ہم تمام ساتھی صدر شعبہ اردو پروفیسر قیوم صادق صاحب سے اجازت لے کر استاد محترم جناب حمید سہروردی کو ساتھ لے کر ایم اے سالِ اول کے ساتھیوں کو مدعو کئے تو انہوںنے کسی قدر پس و پیش کے بعد ہماری دعوت سفر کو قبول کرلیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تاریخ سفر بھی طئے ہوگئی۔ سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھی میرے من میں بھی کچھ خوشی تھی کچھ گھبراہٹ، اللہ کا نام لے کر سب نے سفر کی تیاریاں شروع کردیں۔
جب میں 4بجکر 30منٹ کو بذریعہ آٹو اسٹیشن پہنچی تو ہمارے امیر کارواں اساتذہ کے منظور نظر منظور جو دور سے دیکھنے میں ہی لیڈر نظر آتے ہیں ہمارے منتظر تھے۔ ہمیں وداع کرنے کے لئے اسٹیشن پر ہمارے افراد خانہ ساتھ آئے تھے۔ ہم سبھی ساتھیوں نے ہمارے اپنے اپنے گھر کے افراد سے اپنے ساتھیوں کا تعارف کروایا۔ تقریباً ایک گھنٹہ تاخیر کے بعد ٹرین آئی۔ جس میں ہم سب سوار ہوئے سب نے ہمیں دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔ اگلے ہی لمحہ ٹرین اپنی منزل مقصود کی جانب رواں دواں تھی۔ رائچور آگیا ۔ ٹرین اسٹیشن پر رکنے ہی والی تھی مجھے اچانک وسوسے نے گھیرا کہ امی اور بھائی آئیں گے یا نہیں میری بے چینی میرے ساتھیوں کے لئے مذاق کا موضوع بن گئی۔ واقعی ٹرین رکنے کے باوجود گھر سے کوئی نہیں آیا۔ ٹرین چھوٹنے ہی والی تھی کہ امی اور بھائی کی تشریف آوری ہوئی ۔

رائچورگزرجانے کے بعد رات کے کھانے کی محفل جمی کچھ وقت کھیل اور ہنسی ، مذاق میں گزرا ۔ہم ٹھیک صبح سات بجے بنگلور اسٹیشن پہنچے اس طرح بنگلور تا گلبرگہ کا سفر تمام ہوا۔ ہمیں پہلے سے ہی یہ اطلاع ہوگئی تھی کہ بنگلور اسٹیشن پر ہمیں لینے کے لئے ایک پروفیسر صاحب یا ان کے کوئی شاگر د موجود رہیں گے اور ہمارا قیام بنگلور یونیورسٹی گیسٹ ہاوس میں رہے گا۔
حالات اور حادثات کب رونما ہوتے ہیں کون جانے! ہم کافی دیر تک ریلوے اسٹیشن پر سعید صاحب کا انتظار کرتے رہے ۔ انتظار خدشات اور شکوک پیدا کررہا تھا اور یہیں سے ہماری خوش نصیبی اور بدنصیبی کی داستان شروع ہوجاتی ہے۔
پروفیسر صاحب کے انتظار کا طویل اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ ہم لوگ تقریباً دو گھنٹے پلاٹ فارم پر پروفیسر صاحب کا انتظار کرتے رہے۔ پھر اسٹیشن پر ہی کھڑے کھڑے بہت وقت گذر گیا تو استاد محترم حمید سر جاکر کیلے (موز) لے کر آئے اور ہم سب وہیں کھڑے کھڑے کھارا   بسکٹ کیلوں سے انصاف کرنے لگے۔ انتظار کرتے کرتے تھک گئے تو ہمارے ساتھیوں میں سے کسی نے پروفیسر صاحب کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ محترم جناب والا ایک بار اسٹیشن آکر واپس چلے گئے ہیں پھر دوبارہ لال ماروتی کار میں تشریف لارہے ہیں۔
آخر خدا خدا کرکے وہ مبارک گھڑی بھی آپہنچی جب پروفیسر صاحب طرح اپنی لال ماروتی کار سے باہر تشریف لائے۔ انہیں دیکھ کر ہمارے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ہم سبھی نے باادب سلام کیا۔ انہوں نے ایک اداسے جواب دے کر حمید سر کے قریب آکر دھیرے سے کہا ’’حمید صاحب ذرا ادھر تشریف لائیے‘‘پھر حمید صاحب کو لے کر جو پرستانی اور دیومالائی کردار کی طرح غائب ہوئے واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔ہم اتنی دیر سے صرف پروفیسر صاحب کا انتظار کررہے تھے اب سب مل کر ان کے ساتھ ساتھ حمید صاحب کا بھی انتظار کرنے لگے۔ سڑک پر ہر آنے جانے والوں کو حسرت سے تکنے لگے کہ شائد ان میں کوئی تو حمید صاحب اور پروفیسر صاحب ہوں گے۔ جب دو پہر کے ساڑھے بارہ بج گئے تو بھوک انتہاء کو پہنچ گئی ہمارے لیڈر صاحب نے کہا میں اور شمس سامان کے پاس کھڑے ہوتے ہیں آپ لوگ جاکر سامنے پارک میں ناشتہ کر آئیں۔ تمام ساتھی پارک میں بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے تقریباً ایک بجے ہم سب ناشتہ کرچکے تو حمید صاحب تشریف لے آئے۔
میں جلد ہی چائے سے فارغ ہوکر واپس آگئی پارک میں حمید سر کے ساتھ ساتھ پروفیسر صاحب کو دیکھ کر امید بندھی کہ چلو دیر آید درست آید پھر ہمیں یہ خبر ملی کہ کسی وجہ سے گیسٹ ہاوس میں ہمارے لئے کمروں کا انتظام نہیں ہوسکا اس لئے اب ہمیں خود اپنے رہنے کا انتظام کرنا پڑے گا۔ اگلے ہی لمحہ تمام ساتھیوں کے ساتھ ساتھ استاد محترم اور بیچارے منظور (لیڈر صاحب) کی پریشانی قابل دید تھی۔ اسی پارک میں حمید صاحب اور پروفیسر صاحب کے کھانے کا انتظام کیا گیا سب سے آخر میں لیڈر صاحب اور شمس نے بھی کھانا کھالیا۔

تمام لڑکیاں اسٹیشن کے ویٹنگ روم میں فریش ہوکر آگئیں اور میکسی کیپ میں سوار ہوکر گھومنے کیلئے نکل پڑیں۔ پہلے وشویشور یہ میوزیم پہنچے گھوم پھر کر تقریباً میوزیم دیکھ لیا جہاں پر کئی عجیب و غریب چیزوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ہم لوگ فزکس سیکشن گئے چونکہ ہمیں دور تک فرکس سے واسطہ نہیں ہے اسی لئے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا لیکن ہمارے لیڈر صاحب ہمیں بہت حدتک سمجھانے کی کوشش کررہے تھے۔ Fun Section دیکھ کر کبن پارک آگئے اسے بھی تقریباً گھوم پھر کر دیکھ لیا پھر ودھان سودھا پہنچے۔
پھر وہاں سے Tipu Summer Palace (ٹیپو محل) گئے وہاں پر ایک عجیب طرح کا سکون تھا۔ یہ عمارت کچھ مختصر ہے مگر اس کی صناعی کو دیکھ کر عقل دنگ رہ گئی کبن پارک سے لال باغ پہنچے اسے دیکھنے کے بعد ناشتہ کرکے سرکل کے پاس بیٹھے تو کچھ عجیب سا احساس ہورہا تھا تصوریں وغیرہ کھنچوانے کے بعد ہم چونکہ بنیادی طور پر ہماری صحافتی دورہ تھا اسی لئے میکسی کیپ میں بیٹھ کر روزنامہ پاسبان کے دفتر پہنچے۔ وہاں چیف ایڈیٹر جناب عبیداللہ شریف سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہم نے ان سے انٹرویو لیا ۔
پاسبان کے دفتر میں موجودہ سیاست اور صحافت کے تعلق سے گفتگو کی گئی عبید صاحب اردو زبان اور اردو صحافت کے مستقبل سے بہت مطمئن تھے ان کا کہنا ہے کہ اردو زبان کا مستقبل بہت روشن اور تابناک ہے۔ ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ دورانِ گفتگو عبید صاحب نے ہمارے لئے چائے وغیرہ کا انتظام کیا اور ہم تمام طلبہ وطالبات معہ استاد محترم کے سب کو قیمتی کتابیں تحفتاً عنایت فرمائیں۔ اپنا آفس دکھایا کمپیوٹر کے ذریعہ کس طرح چھپائی اور سیٹنگ کی جاتی ہے دکھایا گیا ۔ تقریباً رات گیارہ بجے ہم بڑے اچھے تاثرات کے ساتھ وہاں سے نکلے ۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے اوٹی کے سفر کے لئے روانہ ہوئے۔جیسے جیسے ہماری ٹمپو اوٹی کے گھنے جنگلوں سے گذر رہی تھی ہماری نیند بھی گہری ہوتی جارہی تھی ۔
اوٹی جاتے وقت ہم سے کہا گیا تھا کہ راستہ میں جنگل ہے جس میں جانور چلتے پھرتے نظر آئیں گے دیکھنے کے لئے تیار رہیں۔ مجھے اس خیال سے ہی ہنسی آرہی تھی کہ اگر ایک ہاتھی ہماری میکسی کیب میں آجائے تو کیسا لگے گا اور واقعی لب سڑک کچھ ہاتھی مور، ہرن، خرگوش وغیرہ نظر آنے لگے۔میں رات میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگی پھر صبح ہی صبح گھاٹیوں اور درختوں کے درمیان لال دہکتا ہوا سورج کو طلوع ہوتا ہوا دیکھ کر لگ رہا تھا کہ واقعی خدا کہاں نہیں ہے۔
ہم سب صبح سات بجے اوٹی پہنچے سبھی لوگ سواری سے نیچے اتر گئے مگر انجم اور میمونہ کمزوری کی وجہ سے نیچے نہیں اتر سکے۔ کلیم اور شمس نے جاکر ان کے لئے ٹکسی کا انتظام کیا ۔ میں اور منظور ان دونوں کو ٹکسی میں بیٹھاکر ہسپتال لے گئے تو مجھے ایسا لگا صرف کلینک جاکر ڈاکٹر کو دیکھتے ہی دونوں ٹھیک ہونے لگے ہیں۔ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے بھی صرف بسلری کا پانی اور الکٹرال پاوڈر دیا۔
8بجکر 15 منٹ کو ہوٹل درشن پیالس میسور پہنچے جو دیکھنے میں ہی عالی شان ہوٹل تھا۔ اس میں ہم نے تین کمرے بک کئے جس کا کرایہ 800 روپے تھا۔ ایک کمرہ میں شمس سر، منظور، کلیم اور شکیل تھے۔ دوسرے کمرہ میں میمونہ ثمینہ اور نفیس تھے۔ اور تیسرے میں انجم عشرت ہاجرہ اور میں تھی۔

ہم سے اوٹی میں یہ کہا گیا تھا کہ میسور پہنچنے کے بعد ایک اور ٹمپو تیار رہے گی اور ہمیں گھمانے لے جائے گی جب ہم میسور پہنچے تو ٹمپو غائب تھی۔ جس کی وجہ سے رات میں برانداون گارڈن دیکھنے کا پروگرام ٹھپ ہوگیا۔ یہ محض اتفاق تھا یا قسمت کی بات، وقت اور سورایاں ہمارا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا ہم جس چیز کو دیکھنے جاتے ہیں وہ سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہوجاتی۔  رات میں میرے ساتھیوںنے ٹکسی آفس فون کیا تو معلوم ہوا کہ ٹمپو صبح8بجے تک آجائے گی ہم سب صبح7بجے اٹھ کر نہادھوکر فریش ہوئے لیکن ٹمپو تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
اب نئی ٹمپو میں ایک نئے جوش و خروش ایک نئے حوصلے کے ساتھ سوار ہوگئے۔ سیدھا وہاں سے میسور چڑیا گھر پہنچے۔ اندر بیٹھتے ہی ہمارے لیڈر صاحب کا پسندیدہ جانور زیبرہ ہمارے استقبال کیلئے کھڑا تھا۔ جانوروں کو دیکھتے ہوئے سبھی اپنے خیالات کا اچھا اظہار کررہے تھے۔ پتہ نہیں انہیں کس کی یاد آرہی تھی۔ سب گینڈے کو کچھ زیادہ ہی غور سے دیکھ رہے تھے۔ میرے چند ساتھی ہاتھی کو دیکھ کر تبصرے کررہے تھے تو مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مجھ سے ہاتھی کو تشبیہ دے رہے ہیں یا ہاتھی کو مجھ سے۔ ویسے چڑیا گھر میں دم کٹے لومڑیوں اور بندروں کی کمی نہیں تھی۔ ہم لوگ چڑیا گھر سے میسور پیالس پہنچے۔ اس کی عظمت و شان کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اندر جاتے ہی چپل اتارنے کے لئے کہا گیا تو کچھ عجیب احساس ہوا ۔ گھوم پھر کر ہم نے میسور پیالس دیکھا ۔
میسور پیالس سے باہر ہم نے کچھ خریداری کی وہاں پر میں نے ببو کو (کھلونا) خریدا جس کو دیکھتے ہی میں نے پسند کرلیا۔ اس سے مل کر مجھے لگا بچپن کی حسین اور بے فکر وادیوں میں، میں کچھ وقت کے لئے واپس چلی گئی ہوں۔ اچانک ایسا لگا ہم تمام ساتھیوں میں ایک فرد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک بجے کسی بڑی ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا گیا۔
وہاں سے دو بچے برنداون گارڈن دیکھنے کے لئے نکل پڑے۔ وہاں پہنچ کر میں اس کی سبزہ زار خوبصورتی کو دیکھ کر حیران رہ گئی کہ بنانے والے نے اس کو کس خوبصورتی سے بنایا ہے لگ رہا تھا سارے جہاں کا سبزہ یہیں سمٹ کر رہ گیا ہو۔ برنداون سے دریادولت باغ دیکھتے ہوئے سری رنگا پٹنم پہنچے۔ راستے میں ہم نے اس مقام کو بھی دیکھا جہاں ٹیپو سلطان ؒ کو شہید کیا گیا۔ بارودخانہ دیکھا۔ دور سے ایک مندر کو بھی دیکھا تین بجکر چالیس منٹ کو ٹیپو شاہی گنبد (ٹیپو کا مقبرہ) دیکھا۔ کالے پتھر کی اس عمارت میں واقعی کافی سکون تھا۔ مجھے وہ عمارت ٹیپو کی شجاعت کی منہ بولتی ہوئی تصویر لگی۔ اس عمارت میں ہم نے وہ جگہ بھی دیکھی جہاں ٹیپو سلطان ؒ کو شہادت کے بعد غسل دیا گیا تھا۔ چار بجے وہاں سے نکل کر ہم واپس بنگلور کے لئے روانہ ہوئے۔ سری رنگاپٹنم سے بنگلور کے درمیان کا سفر واقعی دلچسپ اور یاد گار رہا۔ راستہ میں ادبی اور فلمی گفتگو ہوتی رہی سب کو ایک دوسرے کے فیملی اور ادبی ذوق کا پتہ چلا۔ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ جب وقت دیکھا تو رات کے سات بجکر تیس منٹ ہورہے تھے۔ اور ساڑھے آٹھ بجے ٹرین بنگلور اسٹیشن سے نکلنی تھی۔ جب اسٹیشن پہنچے تو قلی کے ذریعہ سامان کو ٹرین میں رکھوادیا گیا۔ پھر ٹھیک آٹھ بجکر تیس منٹ پر ٹرین بنگلور اسٹیشن سے نکلی۔
ہم کچھ دیر اور بیٹھ کر باتیں کرنا چاہتے تھے مگر رات زیادہ ہورہی تھی اور سبھی تھکے ہوئے تھے۔ سب جلد ہی سوگئے۔ مجھے رائچور پر ہی اترنا تھا ٹھیک پانچ بجے ہمیں وداع کرنے کے لئے میرے کچھ ساتھی مجھ سے پہلے ہی جاگ گئے۔ شاید مجھے جلد سے جلد ٹرین سے اتارکر سکون کی سانس لینا چاہتے تھے۔ کیونکہ دورانِ سفر میں نے انہیں بہت تنگ کیا۔ رائچور قریب آرہا تھا اور ہم لوگ اترنے کے لئے تیار تھے۔ انجم اور عشرت بھی پیدا ہوگئیں ۔ میں نے حمید صاحب کو جگاکر اسٹیشن پر اترنے کی اجازت لی ۔ مجھے اور ہاجرہ کو چھوڑنے کے لئے سب اسٹیشن پر اتر ے۔ اتنے طویل اور خوشگوار سفر کے بعد ساتھیوں سے بچھڑتے ہوئے کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ جب ٹرین چھوٹنے لگی تو سبھی ہمیں خدا حافظ کہہ کر ٹرین میں سوار ہوگئے۔
ٹرین چھوٹنے کے بعد میرے بھائی مجھے لینے آگئے۔ یہ سفر کسی کی زندگی میں اہمیت رکھتا ہو یا نہ ہو میری زندگی کا یادگار اور اہم سفر ہے۔ سفر کے دوران ہم نے بہت کچھ سیکھا بہت کچھ دیکھا۔ جگہ ، جگہ ، قدم ، قدم پر کئی نئے نئے تجربات حاصل کرتے رہے۔ مجھے لگتا ہے ہم جس مقصد کے لئے نکلے تھے شاید وہ گیسٹ ہاوس کے نہ ملنے اور ٹمپو کی خرابی کی وجہ سے کچھ حدتک مکمل نہ ہوسکا۔
اس یاد گار سفر کے ناقابل فراموش لمحات میں استاد محترم کی شفقت ساتھیوں کا خلوص ان کی دوستی شان بے نیازی کو بھلا نہیں سکتی۔ میرے جونیئر ساتھی جو ہمارے سفر کے مہمان تھے ان کے بغیر سفرتو ہوجاتا لیکن اتنا دلچسپ اور پر لطف نہیں ہوتا۔ اس سفر کی چند ایسی یادیں ہیں جنہیں میں ہمیشہ یاد رکھنا چاہونگی۔ اللہ تعالیٰ میرے دوستوں اور ساتھیوں کے خلوص و دوستی کو ہمیشہ قائم رکھے۔
zjabeen76@gmail.com