ایودھیا میں سنی وقف بورڈ کا کوئی حق نہیں

شیعہ وقف بور ڈ کا بیان، سیکولرزم کے دفاع کیلئے تحریک ضروری : سی پی آئی ایم
لکھنؤ ۔ 30 نومبر ( سیاست ڈاٹ کام) بابری مسجد مسئلہ پر شیعہ وقف بورڈ نے اپنے موقف پر اٹل رہتے ہوئے سنی وقف بورڈ سے خواہش کی کہ وہ شیعہ جائیداد پر جو ایودھیا میں ہے، اپنا دعویٰ واپس لے لے اور یقین ظاہر کیا کہ اس مسئلہ کی سیاسی مداخلت کے بغیر خوشگوار یکسوئی ممکن ہے۔ شیعہ وقف بورڈ نے سنی وقف بورڈ کو مشورہ دیا کہ وہ متھرا اور کاشی کی متنازعہ اراضی کے سلسلہ میں بھی خوشگوار یکسوئی کیلئے راہ ہموار کریں۔ صدرنشین بورڈ وسیم رضوی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ شیعہ وقف بورڈ کے پاس کافی دستاویزات موجود ہیں جن سے ثابت کیا جاسکتا ہیکہ بابری مسجد شیعہ ملکیت تھی۔ انہوں نے یہ دستاویزات سپریم کورٹ میں بھی داخل کردیئے ہیں لیکن اس اقدام پر بعض مولوی اور ملا ان سے خفا ہوگئے ہیں۔ وسیم رضوی نے ان سخت گیروں سے خواہش کی کہ قومی مفاد میں اقدام کیا جائے یہی درست ہوگا۔ دریں اثناء سی پی آئی ایم نے آج کہا کہ بابری مسجد کی 25 سال قبل شہادت ایک سنگ میل تھی جہاں سے ہندوتوا طاقتوں کا شیعہ سنی اقتدار کی سمت جلوس پیش کرنے لگا۔ انہوں نے سیکولرزم کی دفاع کیلئے اٹل موقف اختیار کرنے کی اپیل کی۔ سابق جنرل سکریٹری پارٹی پرکاش کرت نے بابری مسجد کی 6 ڈسمبر 1992ء کو شہادت پر اظہار رنج کرتے ہوئے کہاکہ یہیں سے ہندوتوا طاقتوں کا اقتدار کی سمت جلوس پیشرفت کرنے لگا۔ انہوں نے کہا کہ سیکولرزم کے دفاع کیلئے اٹل موقف اختیار کرنے کے علاوہ کوئی متبادل دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک عوامی تحریک ان کالی طاقتوں کے خلاف جنگ کیلئے شروع ہونی چاہئے۔ پرکاش کرت نے آر ایس ایس زیرقیادت ہندوتوا طاقتوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان طاقتوں کو یوپی حکومت کی تائید حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ اس ریاست میں سپریم کورٹ کی خلاف ورزی کررہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اڈوانی کی زیرقیادت رسوائے زمانہ ’’رتھ یاترا‘‘ نے اپنے پیچھے تشدد اور فرقہ وارانہ تباہی ایک داستان چھوڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نرسمہاراؤ زیرقیادت کانگریس حکومت جو ان دنوں مرکز میں برسراقتدار تھی، وہ بھی اس شہادت کی ذمہ دار ہے حالانکہ محکمہ سراغ رسانی نے رپورٹ کی تھی کہ مسجد پر حملہ کیا جائے گا لیکن آر ایس ایس قیادت کے تیقن پر اس وقت کے وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کو یقین تھا۔ بابری مسجد کی شہادت آج بھی ہندوستانی سیکولر جمہوریہ کیلئے ایک آزمائش برقرار ہے۔