ایوان کے اندر بھی فرقہ پرست باہر بھی فرقہ پرست؟

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
الیکشن ختم اورنتائج باہر، ایوان کے اندر بھی فرقہ پرست، ایوان کے باہر بھی فرقہ پرست۔ اگزٹ پولس کو بھی چھلانگ کر مرکز میں اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی بی جے پی نے تلنگانہ میں خاص مظاہرہ نہیں کیا۔ ٹی آر ایس کو یکطرفہ قطعی کامیابی حاصل ہونا کوئی حیران کن بات نہیں، لیکن فرقہ پرستوں کو اس علاقہ میں قدم جمانے کا موقع ملا ہے یہ تشویش کی بات ہے۔ سارا ملک اس وقت فرقہ پرستی کی لپیٹ میں ہے، مساجد میں مسلمانوں کو دعائیں کرکے عافیت اور سلامتی کے لئے اللہ سے رجوع ہونے کا موقع ملا ہے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے، مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلیں تو پھر ان کا حشر ماضی کی قوموں کی طرح تباہ کن ہوجائے گا۔ آزمائش میں ڈالے گئے مسلمانوں کے نزدیک واحد راستہ اللہ کی رسی ہے اس کو کون اور کس حد تک تھامتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال یہ واضح ہوچکا ہے کہ فرقہ پرستوں نے سارے ہندوستان کے ذہنوں میں فرقہ پرستی کا زہر گھول دیا۔

تلنگانہ کے رائے دہندوں کو فرقہ پرستی سے زیادہ علاقائی جذبات عزیز تھے، اس لئے یہاں کا ووٹر راست اپنے علاقہ کی پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ سیما آندھرا میں چونکہ رائے دہندوں کو اپنی ریاست کی تقسیم کا شدید غم و غصہ تھا اس لئے انہوں نے تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد کو ترجیح دی ، ان کے سامنے وائی ایس آر کانگریس بھی تھی مگر اس کے لئے کوئی خاص ووٹ نہیں ڈالے گئے کانگریس کا صفایا کردیا گیا۔ پہلے الیکشن ہونے کی دھوم تھی اور اب نتائج نے ہر ایک کو حیران کردیا ہے۔ خود بی جے پی کے حلقوں میں کھلبلی مچی ہے کہ ان کی پارٹی واحد سب سے بڑی طاقت بن کر کس طرح اُبھری ہے۔ یہ سب فرقہ پرستوں کا ڈھونڈرہ پیٹنے کا نتیجہ ہے۔ اگزٹ پولس میں جتنا بتایا گیا تھا اس سے زیادہ ہی بی جے پی کو ملا ہے۔ رائے دہندوں نے سیاسی نجومیوں کی پیش گوئیوں کو بھی مات دے دی ہے۔ اب تلنگانہ میں حکومت بنے گی تو وہ مرکز سے کس حد تک معاملہ رکھے گی۔ سیما آندھرا میں تلگودیشم کو مضبوط موقع ملا ہے تو وہ تلنگانہ میں بھی اپنا کھاتہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔

آیا مرکز کی این ڈی اے حکومت تلنگانہ بنانے کیلئے 2جون کو اعلامیہ جاری کرے گی یا نہیں، یا پھر تلگودیشم پورے آندھرا پردیش کیلئے حکومت سازی کا دعویٰ پیش کرے گی چند دنوں تک اس طرح کی نئی قیاس آرائیاں اور تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ ٹی آر ایس جیت کر بھی ہار جائے تو وہ اپوزیشن میں بیٹھے گی یا متحدہ آندھرا کے طور پر کروائے گئے انتخابات کو ہی تسلیم کرکے متحدہ آندھرا پردیش ہی برقرار رکھا جائے۔ اس طرح کے خیالات کے درمیان اگر انٹلی جنس رپورٹ کے مطابق حیدرآباد میں فرقہ پرستوں نے فسادات کی آگ بھڑکاکر یہاں کے مسلمانوں اور ان کی معیشت کو تباہ کرنے کے منظم منصوبہ پر عمل کرنا شروع کیا ہے تو حالات کیا ہوں گے۔ کیا مسلمان بھی تنگ آمد بہ جنگ آمد ہوں گے یا ڈر کر گھروں میں دب کر رہ جائیں گے، یہ سب آنے والے دنوں میں معلوم ہوگا۔ اتنا تو یقین ہوگیا ہے کہ ملک اور ریاستوں پر فرقہ پرستوں کا راج ہے۔ ہندوستان خاص کر تلنگانہ اور آندھرا کے تمام شہری جو ووٹ ڈالنے کیلئے اپنے گھروں سے نکلے تھے وہ بھی الیکشن کے نتائج پر حیران ہوں گے۔

تلنگانہ پر ٹی آر ایس کو 63 کانگریس کو20 تلگودیشم بی جے پی اتحاد کو 21 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ جبکہ آندھرا پردیش میں تلگودیشم سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری ہے۔ وائی ایس آر کانگریس دوسرے مقام پر، بی جے پی تیسرے اور قومی پارٹی کانگریس صفر ہے۔ کانگریس کو ہر دو جگہ بلکہ جنوبی ہند میں بُری طرح شکست ہوئی ہے اور قومی پارٹی کو 10سالہ غلط حکمرانی کے بعد عوام کے شدید غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مشکل تو بہت ہے اب یہ مان لیا جائے کہ انتخابات فرقہ پرستوں کی نگرانی میں ہوئے ہیں تو کچھ باتیں سیکولر ملک کے لئے حیران کن ہیں۔ کہیں کہیں ووٹ ڈالنے والوں نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے ایسے ایسے امیدواروں کو خوار کردیا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ تلنگانہ ہو یا سیما آندھرا خاص کر دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے رائے دہندوں نے بھی اپنے ووٹ کا فیصلہ بدلنے کی کوشش کی ہے اور اب مسلمانوں کو غیر معمولی استقامت کا ثبوت دینا ہوگا۔ انتخابات کے نتائج سامنے آتے ہی تلنگانہ کی سرزمین اور اس پر رہنے والوں کے مستقبل کیلئے فکر بڑھ گئی ہے۔ ٹی آر ایس کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو وہ ایک نئی ریاست پر حکومت کرنے اور حکمرانی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہل ثابت ہوگی یا نہیں۔ چندر شیکھر راؤ کو ایک فطری کامیابی ملی ہے۔

انہوں نے تلنگانہ کے عوام کے اندر نئی ریاست کے حصول اور اپنی حکومت بنانے کی تحریک پیدا کی تھی۔ لیکن ان کی انتخابی اسٹراٹیجک غلطیوں سے تلنگانہ عوام کو کئی ایک نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ بزرگ سیاستدانوں نے کہا تھا کہ قیادت کے انتخاب میں احتیاط لازم ہے کیونکہ نصف جنگ تو قیادت کے صحیح انتخاب سے ہی جیت لی جاتی ہے۔ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے لئے ہوئے انتخابات میں حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے جن امیدواروں کو عوام نے اپنی نمائندگی کے لئے چنا ہے، اس سے اب یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ رائے دہندوں نے اپنے حق میں مسائل پیدا کرلئے ہیں۔تلنگانہ میں ٹی آر ایس اس نئی ریاست کی معیشت کو کس طرح سدھارے گی؟ یہ ایک اہم سوال ہے، کوئی مانیں یا نہ مانیں۔ آندھرائی لابی کے غلبہ والی معیشت کو اب تلنگانہ کے لئے کتنا فائدہ مند بنایا جاسکے گا اس کا نوٹ لینا ضروری ہوگا۔ تلنگانہ کو آئندہ دو ماہ میں ایک نئی ریاست اور کی نئی حکومت کے طور پر اُبھر کر سامنے آنا ہے۔ یہاں رونما ہونے والی صورتحال سیاسی طور پر حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگی۔

خاص کر فرقہ پرستی کے ماحول میں مسلمانوں کے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو پر حکمراں جماعت کا کیا رول ہوگا، یہ بھی غور طلب ہوگا۔ انتخابی نتائج کے آنے سے قبل ہی فرقہ پرستوں نے پرانے شہر کے علاقہ کشن باغ میں اپنا رنگ دکھادیا ہے اور پولیس کا استعمال بھی واضح ہوگیا ہے کہ مسلمانوں پر مظالم کے لئے کن کن زاویوں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ مرکز میں نریندر مودی زیر قیادت بی جے پی حکومت کو پورے ملک میں گجرات فرقہ پرستی کی لیباریٹری کے تجربات پر عمل کرنے کا شوق پورا کرے یا ضد پر اُتر آئے تو سب سے پہلے حیدرآباد کو تجربہ گاہ بنایا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی کو حیدرآباد کے مسلمانوں سے شروع سے ہی بغض معلوم ہوتا ہے کیونکہ گجرات فسادات کے متاثرین کی امداد کیلئے حیدرآباد کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور یہاں کے مسلمانوں کی معاشی ترقی اور استحکام فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے، اس لئے اگرحیدرآباد کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکنے کا ناپاک منصوبہ بنایا جاکر اس پر عمل کیا جاتا ہے تو تلنگانہ کی نو منتخب حکومت اس منصوبہ کو کس حد تک ناکام بناسکے گی،

یہ مسلمانوں کیلئے بہت بڑی آزمائش طلب بات ہوگی۔ کھلے دشمن کو سامنے دیکھ کر بھی اگر مسلمانوں نے اپنی مورچہ بندی نہیں کی اور سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ نہیں کیا تو حالات دگرگوں بنائے جاسکتے ہیں۔ لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کشن باغ کے واقعہ کے بعد بھی مسلمانوں کی بے حِسی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ ایک گوشے کے مسلمان مرتے ہیں تو مریں ہمیں کیا، کے مصداق روز مرہ کے معمولات میں مشغول ہونے والے مسلمانوں کو کل ان پر بھی وقت آئے تو کیا ہوگا۔ ان کی قیادت نے بھی کشن باغ واقعہ کے حوالے سے اپنی غیر موجودگی اور مجرمانہ غفلت کا ثبوت دے دیا ہے۔ اس امر میں اب بظاہر کوئی شبہ نہیں رہتا کہ پرانے شہر کے موجودہ حالات میں سیاسی فرقہ پرستی کو ہوا دی گئی ہے۔ پوری فضاء فرقہ پرستوں کی ہوگئی ہے تو ایسے میں سیکولر کردارکے حامل قائدین اور عوام کو اپنا اہم رول ادا کرنے کی ہر زاویئے سے کوشش کرنی چاہیئے۔
kbaig92@gmail.com