این آر آئیز کی جانب سے کچھ تجاویز

کے این واصف
خارجی باشندوں کیلئے سارے خلیجی ممالک میں حالات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں اور سعودی عرب میں خارجی باشندوں پرایک خوف سا طاری ہے۔ وہ جن کی ملازمت چل رہی ہے ، وہ اور جن کی ملازمت ختم ہوگئی یا ختم ہونے والی ہے ، ہر شخص پر ایک خوف طاری ہے۔ جن کی ملازمت چل رہی ہے ان کو اس بات کا خوف ہے کہ پتہ نہیں کس لمحہ ان کے ہاتھ ملازمت سے فارغ کردیئے جانے کا نوٹس تھما دیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ ملازمت تو چل رہی ہے لیکن تنخواہ کے ملنے کی کوئی امید نہیں ۔ کئی کئی ماہ تنخواہ کا نہ ملنا یہاں ایک عام بات ہوگئی ہے ۔ جب بندے کو مہینوں تنخواہ نہیں ملے گی تو آپ اندازہ کرسکتے ہیںکہ اس کی اور اس کے فیملی کی زندگی کیسے بسر ہورہی ہوگی ۔ لوگ ضروریات زندگی اسٹورس سے ادھار لے لے کر جی رہے ہیں۔ ایسی صورت میں بچوں کے اسکول کی فیس بھلا بندہ کہاں سے ادا کرے گا ۔ یہاں خارجیوں کے بچے جن ملکوں کے ایمبسی اسکولس ہیں وہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جہاں اسکول فیس خانگی اسکولس کے مقابلے کم ہوتی ہے۔ ابتر معاشی حالات سے پریشان ہوکر خارجی باشندے اپنے اہل و عیال کو وطن منتقل کر رہے ہیں لیکن بچوں کو وطن منتقل کرنا بھی خارجی باشندوں کیلئے اب آسان نہیں رہا کیونکہ جن کی ملازمت چل رہی ہے ، وہاں تنخواہ پابندی سے نہیں مل رہی ہے اور جن کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا ۔ وہ مہینوں سے اپنے حقوق اختتام ملازمت (گریجوٹی) کی رقم کے وصول ہونے کے انتظار میں ہیں۔ انہیں اہل و عیال کو وطن منتقل کرنے کیلئے پہلے تو ٹکٹس کا انتظام کرنے کیلئے ایک بڑی رقم چاہئے ۔ دوسرے یہ کہ بچوں کو وطن میں اسکولس میں داخل کرانے کیلئے یہاں سے رپو رٹ کارڈز اور دیگر تعلیمی دستاویزات حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ جس کے بغیر وہ وطن میں بچوں کو ایڈمیشن نہیں دلواسکتے اور یہ دستاویزات حاصل کرنے کیلئے اسکول کی پو ری فیس ادا کرنی پڑتی ہے جو ایک بھاری رقم ہے ۔ بچوں کی فیس کا یہ مسئلہ حکومت ہند کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں ہم صرف ہندوستانی طلباء کی بات کریں گے ۔ یہاں ہر بڑے شہر میں جہاں ہندوستانیوں کی ایک قابل لحاظ تعداد بستی ہے ، وہاں انٹرنیشنل انڈین اسکول انڈین اسکول قائم ہیں ۔ ان اسکولس میں کم از کم 80 ہزار سے زائد بچے پڑھتے ہوں گے ۔ اب ان میں سارے کے سارے بچے تو وطن منتقل نہیں ہورہے ہوں گے لیکن پھر بھی یہاں سے منتقل ہونے والوں کی تعداد کافی بڑی ضرور ہوگی اور ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کے پاس اسکول کی فیس ادا کر کے بچوں کے تعلیمی صداقت نامے حاصل کرنے کی سکت نہیں۔ اس صورتحال میں حکومت ان کی مدد کرسکتی ہے۔ یعنی ہندوستانی سفارت خانے کے زیر سرپرستی چلنے والے اسکولس میں اگر حکومت ہند یہاں ملازمت سے فارغ کردیئے جانے والے افراد کی یوں مدد کرسکتی جن کی اچانک ملازمت ختم ہوگئی ہے ۔ ان کے دستاویز کی جانچ کر کے ان کے بچوں کی فیس معاف کرتے ہوئے ان کے بچوں کے رپورٹ کارڈز اور دیگر تعلیمی صداقت نامے انہیں بغیر فیس ادائیگی کے دلواسکتی ہے تاکہ لوگ اپنے بچوں کو فوری وطن منتقل کر کے اسکولس میں داخلہ دلاسکیں۔ حکومت ہند کیلئے اتنی مدد کوئی بڑی بات بھی نہیں۔
سعودی عرب میں این آر آئیز کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے یہاں کی مختلف سماجی تنظیمیں ان کے مسائل حل کرنے کے لئے اقدام کر رہی ہیں، مقامی طور پر ان کی مدد کرنے اور حکومت ہند اور ریاستی حکومتوں سے مسلسل نمائندگیاں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز آل انڈیا یونائٹیڈ سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر اشرف علی نے ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے تمام سماجی کارکنان اور سماجی تنظیموں کے ذمہ داران پر مشتمل ایک اجلاس کا اہتمام کیا جس میں صدر تنظیم ’’ہم ہندوستانی‘‘ محمد قیصر ، ’’صدر عثمانیہ یونیورسٹی المتائی اسوسی ایشن‘‘ محمد مبین ، ’’صدر دکن کلچرل اسوسی ایشن‘‘ محمد ضیاالرحمن ، صدر ’’حیدرآباد اسوسی ایشن‘‘ عبدالرحمن ، نمائندہ گولڈن تلنگانہ اسوسی ایشن اور محمد عبدالمتین اور معروف سماجی کارکن محمد رفیق ، محمد سیف الدین وغیرہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے تلنگانہ این آر آئیز کی فلاح و بہبود اور بازآبادکاری کے سلسلے میں ریاستی اور مرکزی حکومت کو مختلف تجاویز پیش کیں۔
ابتداء میں صدر آل انڈیا یونائٹیڈ سوسائی ڈاکٹر اشرف علی نے خیرمقدم کیا اور اجلاس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہاں محتلف سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کو یکجا کرنے کا مقصد سماجی کارکنان سے تجاویز حاصل کرنا ہے تاکہ سعودی عرب سے وطن لوٹنے والے تلنگانہ این آر آئیز کی فلاح و بہبود اور بازآبادکاری کے سلسلے میں ح کومت تلنگانہ کو تجاویز روانہ کی جاسکے۔ ڈاکٹر اشرف نے روزنامہ سیاست میں مسلسل این آر آئیز کے مسائل کی نمائندگی کی بہترین الفاظ میں ستائش کی ۔ صدر تنظیم ’’ہندوستانی‘‘ محمد قیصر نے کہا کہ ہمیں این آر آئیز کی وطن میں نمائندگی کیلئے کسی موزوں شخص کا انتخاب کرنا چاہئے اور ریاست کی کسی مؤثر شخصیت کے ذ ریعہ ریاستی حکومت تک اپنی نمائندگیاں یا میمورنڈمس پہنچانے چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں حکومت کی جانب سے کئی ایک اسکیمیں موجود ہے، جن سے وطن واپس ہونے والے این آر آئیز فائدہ اٹھاسکتے ہیں لیکن این آر آئیز کی اکثریت ان اسکیموں سے واقف نہیں ہوتے۔ لہذا سماجی کارکنان اور رضاکار تنظیموں کو اس کا بیڑا اٹھانا چاہئے کہ وہ نیٹ پر ان اسکیموں کے بارے میں پوری معلومات حاصل کریں اور پھر ایسے اجتماعات کے ذریعہ انہیں ان اسکیموں سے این آر آئیز کو واقف کرائیں۔ اس کے علاوہ دیگر سماجی کارکنان نے بھی چند تجاویز پیش کیں جو اس طرح تھیں۔

تلنگانہ این آر آئیز امور کی نگران وزارت میں ماہرین پر مشتمل ایک خصوصی گروپ تشکیل دیاجائے جس میں عوامی نمائندے ، اعلیٰ سرکاری عہدیدار شامل ہوں۔ یہ گروپ تفصیل اور گہرائی سے خلیجی این آر آئیز کے مسائل کا جائزہ لیا اور عاجلانہ رپورٹ تیار کرے جس میں مسائل کا ٹھوس حل پیش کیا گیا ہو۔ یہ گروپ این آر آئیز اور خلیجی ممالک کے مقامی باشندوں کی جانب سے ریاست تلنگانہ میں سرمایہ کاری کے امکانات کاجائزہ بھی لیا۔
خلیجی ممالک سے اپنی ملازمتیں کھوکر وطن لوٹنے والے تلنگانہ این آر آئیز کی فوری بازآبادکاری کو ممکن بنایا جائے ۔
ریاست تلنگانہ میں ایک ’’گلف این آر آئیز ویلفیر اینڈ انوسمنٹ فنڈ قائم کیا جائے جو این آر آئیز کی بہبود اور ترقی میں معاون و مددگار ثابت ہو۔
تلنگانہ این آر آئیز کیلئے ہاؤزنگ اسکیم کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ ریاست کے تمام اضلاع میں یہ اسکیم قائم رہے اور این آر آئیز کے پاسپورٹ میں درج پتہ کے مطابق ان کو ہاؤزنگ اسکیم میں رجسٹر کیا جائے اور انہیں کم از کم 200 گز زمین کم قیمت پر دی جائے۔

خلیجی ممالک میں قانونی مسائل میں الجھے ہوئے این آر آ ئیز کیلئے مرکزی حکومت سے سفارش کی جائے کہ وہ انہیں قانونی امداد فراہم کرے جس کا اہتمام ان ممالک میں قائم ہندوستانی سفارت خانے کے ذریعہ کیا جائے تاکہ وہ جلد از جلد اپنے کیس نمٹا کر وطن واپس ہوسکیں۔
خلیجی ممالک میں بیروزگاری کا شکار اور دیگر معاشی پریشانیوں سے دوچار این آر آئیز کو ہندوستانی سفارت خانوں میں موجود ’’کمیونٹی ویلفیر فنڈ‘’ سے مالی امداد فراہم کی جائے تاکہ وہ انہیں کم از کم وطن واپسی کیلئے ہوائی ٹکٹ ہی خریدنے کی مدد حاصل ہوجائے۔ تعلیمی سال کے درمیان وطن لوٹنے والے طالب علموں کو اسکولس میں فوری داخلہ کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ ان کا وقت ضائع نہ اور تعلیمی سال بھی خراب نہ ہو۔ خلیجی ممالک سے لوٹنے والے طلباء کو این آر آئیز اسٹوڈنٹ کے زمرے میں نہ تصور کیا جائے کیونکہ یہاں برسرکار ان کے والد ہندوستانی باشندے در حقیقت contract workers ہیں۔ انہیں NRI’s کے زمرے میں شمار کرنا درست نہیں۔ ریاست تلنگانہ کے تعلیمی اداروں میں خلیجی ممالک میں برسرکار رہ کر وطن واپس آنے والے باشندوں کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دیاجائے۔

تلنگانہ Infrastructure Corporation میں خلیجی این آر آئیز کیلئے ایک خصوصی Cell قائم کیا جائے اور انہیں کے عام شہریوں کے مقابلے کچھ زیادہ مراعات اور سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ آسانی سے اپنا کوئی بزنس یا صنعت قائم کرسکیں۔
ایک تجویز یہ بھی تھی کہ یہاں موجود ایسے متمومل حضرات آپس میں ایک ایسا فنڈ قائم کریں جس سے ایسے بچوں کی مدد کی جائے جن کے والدین اپنے خراب معاشی حالات کی وجہ سے اپنے بچوں کے اسکول کی فیس ادا کر کے اپنے بچوں کی تعلیمی صداقت نامے حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔
ایک اور تجویز یہ پیش کی گئی کہ خلیجی ممالک سے وطن لوٹنے والے ایسے این آر آئیز جو ایک عرصہ خلیجی ممالک میں رہنے کے باوجود نہ قابل لحاظ دولت کماسکے، نہ کچھ بچت ہی کی اور نہ ہی ا پنے لئے وطن میں کوئی مکان ہی بنوایا ۔ایسے افرادکو تلنگانہ حکومت White Ration Card جاری کرے جس سے انہیں فری میڈیکل کی سہولت حاصل ہوسکے۔
سعودی حکومتی ادارے بیشتر نئے لیبر قوانین پر یکم ذی الحجہ سے عمل آوری شروع کریں گے۔ اس طرح اب خارجی باشندوں کے پاس چار ، پانچ مہینے کا وقت رہ گیا ہے ۔ اس دوران حکومت ہند اور ریاستی حکومتوں کو وطن واپس لوٹنے والے خلیجی این آر آئیز کیلئے کچھ نہ کچھ پیاکیج کا اعلان کرنا چاہئے ورنہ بر سوں خلیجی ممالک میں اچھے دن دیکھے ہوئے افراد بہت ہی برے دن کا سامنا کریں گے ۔
تلنگانہ این آر آئیز حکومت کے آگے اپنی گزارشات رکھ دیتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ’’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات‘‘