این آر آئیز بچوں کی تعلیم کے مسائل

کے این واصف
سعودی عرب میں کام کرنے والے خارجی باشندے خصوصاً اور این آر آئیز عموماً ایک عرصہ سے معاشی ، سماجی اور دیگر مسائل کا شکار ہیں۔ نیز سعودی عرب کے حالات یہاں بسے خارجی باشندوں کے بعد اب ان کے بچوں کے مستقبل پر بھی تاریک بادل چھائے نظر آرہے ہیں جس کی وجہ یہاں کے اسکولس کا بند ہوتا جانا ہے ۔ این آر آئیز جو سعودی عرب میں اپنے بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کے خواب دیکھتے تھے، آج ان کے بچوں کیلئے اسکول کی تعلیم بھی مسئلہ بن گئی ہے ۔ یہاں اسکولس کے بند ہونے کی مختلف وجوہات ہیں۔ یاد رہے کہ آج سے چار سال قبل وزارت تعلیم مملکت سعودی عرب نے ایک آرڈر جاری کیا تھا کہ ایسے تمام خانگی اسکولس بند کردیئے جائیں گے جو اسکول وزارت تعلیم کے ضوابط کی پابندی نہیں کر رہے ہیں۔ وزارت کی پہلی شرط یہ ہے کہ ایسی عمارت میں اسکول قائم ہو جو اسکول قائم کرنے مقصد سے تعمیر کی گئی ہو۔ یعنی اسکول ایسی عمارت میں نہ چلائے جائیں جو پہلے رہائشی عمارت رہی ہو اور اس کے ساتھ دیگر شرائط یہ تھیں کہ اسکول بلڈنگ میں بچوں کیلئے کھیل کا میدان ہو، سائنس اور کمپیوٹر لیاب اور لائبریری ہو اور بچوں کی تعداد کے اعتبار سے دیگر تمام ضروریات موجود ہوں جس کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ وزارت تعلیم نے خانگی اسکولس کو اصلاح حال اور وزارت کے ضوابط کے پابند ہوجانے کیلئے پچھلے تین سالوں سے مہلت دے رہی تھی اور اس کی میعاد ختم کردی گئی ۔ اب اگلے تعلیمی سال (ستمبر 2018 ئ) سے ایسا کوئی اسکول کام نہیں کرپائے گا جو وزارت تعلیم کے ضوابط کے مطابق نہ ہو۔

یہاں خانگی اسکولس کے قیام کی وزارت تعلیم کی جانب سے لائسنس جاری کیا جاتا ہے ۔ خانگی انٹرنیشنل اسکولس کا لائسنس ممالک کے باشندوں کو دیا جاتا ہے جن کا تعلق عرب ممالک سے نہیں ہے ۔ لہذا یہاں اول تو وہ انٹرنیشنل اسکولس ہیں جو متعلقہ ممالک کے سفارت خانوں کی سرپرستی میں چلتے ہیں۔ یہاں ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور کچھ غیر عرب افریقی ممالک کے اسکولس قائم ہیں جو اپنے اپنے سفارت خانوں کی سرپرستی میں چلتے ہیں۔ اس کے انتظامات اولیائے مدرسہ کے منتخب اراکین دیکھتے ہیں جبکہ ان پر ایمبسی کی جانب سے ایک نگران نمائندہ مقرر ہوتا ہے ۔ ان اسکولس کی فیس نسبتاً کم ہوتی ہے کیونکہ یہاں فیس کوئی مالی فائدہ اٹھانے کیلئے نہیں لی جاتی۔ صرف اخراجات پورے کرنے کیلئے فیس لی جاتی ہے جبکہ خانگی اسکولس کاروباری بنیاد پر چلتے ہیں ۔ اس لئے یہاں فیس بھی زیادہ لی جاتی ہے ۔ انڈین ایمبسی کے زیر سرپرستی یہاں کے ہر وہ شہر میں اسکول قائم ہیں جہاں ہندوستانی باشندوں کی قابل لحاظ تعداد بستی ہے ۔ ان انڈین اسکولس میں انڈین کمیونٹی کے سارے بچے داخلہ حاصل نہیں کرپاتے کیونکہ یہاں انڈین کمیونٹی بہت بڑی تعداد ہے، لہذا انڈین کمیونٹی کے افراد وزارت تعلیم (سعودی عرب) سے انٹرنیشنل اسکول کا لائسنس حاصل کر کے خانگی طور پر اسکولس قائم کئے ہوئے ہیں ۔ ان کی اکثریت CBSE کورس پڑھاتی ہے۔ یہاں ان خانگی اسکولس کی تعداد بھی بہت بڑی ہے لیکن ان میں سارے اسکولس وزارت تعلیم کے مقرر کردہ ضوابط کے مطابق سہولتیں فراہم نہیں کرتے۔ لہذا ایسے تمام اسکولس اگلے تعلیمی سال میں اپنی تعلیمی سرگرمی جاری نہیں رکھ سکیں گے ۔ منطقہ شرقیہ (الخبر) میں واقع ایک اسکول جو انڈین مینجمنٹ کے تحت قائم تھا۔ وزارت تعلیم نے اسے بند کرنے کا حکم جاری کردیا کیونکہ اسکول کا انتظامیہ وزارت کے ضوابط کی تکمیل نہیں کر رہا تھا ۔ اس اسکول کا بند ہوجانا تقریباً ایک ہزار طلباء اور کوئی سو سے زائد ٹیچرس کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے ۔ طلباء اور اساتذہ پر یہ مصیبت اسکول انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے آئی ۔ بتایا گیا کہ الخبر کے اس اسکول میں جملہ 1800 طلباء تھے مگر موجودہ حالات کے پیش نظر طلباء کی ایک بڑی تعداد اس تعلیمی سال کے ابتداء میں اسکول سے TC حاصل کر کے وطن لوٹ گئے ۔ وزارت تعلیم مملکلت سعودی عرب کے ذرائع کے مطابق مملکت بھر میں ایسے بہت سے اسکولس ہیں جو نئے سال میں بند کردیئے جائیں گے کیونکہ وہ وزارت کے ضوابط کی عمل آوری میں ناکام رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بہت سارے خانگی مدارس ایسی عمارتوں میں قائم ہیں جو عمارت اسکول کے مقصد سے تعمیر نہیں کی گئی تھی ۔ وزارت تعلیم نے تمام لائسنس یافتہ خانگی اسکولس کو ایک رہنمایانہ خطوط پر مبنی سرکولر جاری کیا ہے اور اسکولس سے کہا گیا تھا کہ وہ ان ہدایات پر سختی سے عمل کریں ورنہ وہ اگلے تعلیمی سال میں اپنی سرگرمی جاری نہیں رکھ سکیں گے ۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ الخبر میں بند کردیئے گئے۔ اسکول کے طلباء کی مدد کیلئے انٹرنیشنل انڈین اسکول دمام نے فوری قدم آگے بڑھایا اور تقریباً چھ سو طلباء کو اپنے اسکول داخلہ دینے کا وعدہ کیا لیکن باقی 300 سے زائد ایسے طلباء جن کا تعلق مصر ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہے ، انہیں انڈین اسکول داخلہ نہیں دیا جاسکا کیونکہ یہ اسکول انڈین ایمبسی کے زیر نگرانی کام کرتا ہے ۔ یہاں صرف ہندوستانی بچے ہی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ مملکت میں ایسے بیسیوں لائسنس یافتہ اسکولس ہیں جونئے تعلیمی سال میں بند ہوجائیں گے ۔ ان اسکولس میں زیر تعلیم بچوں کے والدین کیلئے یہ ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ بچوں کی تعلیم ایک بنیادی ضرورت ہے ۔ کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کو گھر نہیں بٹھاسکتے لیکن اگر یہ اسکولس اسطرح بند ہونے لگے تو والدین کیلئے یہ ایک ناقابل حل مسئلہ ہوجائے گا۔ یہاں ہم وزارت تعلیم (سعودی) پر بھی کوئی اعتراض یا الزام نہیں رکھ سکتے کیونکہ حکومت کی جانب سے پابندیوں کے عائد کرنے مقصد طلباء کا تحفظ ، صاف ستھرا ماحول اور معیاری تعلیم فراہم کروانا ہے ۔ حکومت نے خانگی اسکولس انتظامیہ کو اپنے اصلاحِ حال کیلئے کافی وقت بھی دیا لیکن اسکول انتظامیہ کی لاپرواہی اور حکمت کے موقف کے بیچ طلباء اور ان کے والدین پس رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں ٹیچرس بھی بیروزگاری کا شکار ہوئے ہیں۔ ویسے ہی یہاں اس عام روزگاری کے پھیلنے کی وجہ سے خارجی باشندوں کا جینا دوبھر ہے ۔ لوگ اپنے روز مرہ کے گزر بسر کیلئے اسٹورس سے ادھار مانگ جی رہے ہیں۔ ایسی صورت میں لوگ بچوں کے اسکول کی فیس بھلا کہاں سے ادا کرپائیں گے ۔ یہاں خارجیوں کے بچے جن ملکوں کے ایمبسی اسکولس ہیں وہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ جہاں اسکول فیس خانگی اسکولس کے مقابلے کم ہوتی ہے۔ ابتر معاشی حالات سے پریشان خارجی باشندے بحالت مجبوری اپنے اہل و عیال کو وطن منتقل کر رہے ہیں لیکن بچوں کو وطن منتقل کرنا بھی خارجی باشندوں کیلئے اب آسان نہیں رہا کیونکہ جن کی ملازمت چل رہی ہے وہاں تنخواہ پابندی سے نہیں مل رہی ہے اور جن کو ملازمت سے فارغ کردیا گیا ۔ وہ مہینوں سے اپنے حقوق (گریجوٹی) کی رقم حاصل ہونے کے انتظار میں ہیں۔ انہیں اہل و عیال کو وطن منتقل کرنے کیلئے پہلے تو ایر ٹکٹس کا انتظام کرنے کیلئے ایک بڑی رقم چاہئے ۔ دوسرے یہ کہ بچوں کو وطن میں اسکولس میں داخل کرانے کیلئے یہاں سے رپورٹ کارڈز وغیرہ حاصل کرنا ضروری ہے ۔ جس کے بغیر وہ وطن میں بچوں کو اسکول میں داخلہ نہیں دلواسکتے اور یہ تعلیمی صداقت نامے حاصل کرنے کیلئے اسکول کی پوری فیس ادا کرنی پڑتی ہے جوا یک بھاری رقم ہے ۔ ہم نے اس سے قبل بھی یہ تجویز پیش کی تھی کہ بچوں کی فیس کا یہ مسئلہ حکومت ہند کی مدد سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ یہاں پر بڑے شہر میں جہاں ہندوستانیوں کی ایک قابل لحاظ تعداد بستی ہے وہاں انٹرنیشنل انڈین اسکول قائم ہیں۔ ان اسکولس میں کم از کم 80 ہزار سے زائد بچے پڑھتے ہوں گے ۔ ظاہر ہے ان میں سے سارے کے سارے بچے تو وطن منتقل تو نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی یہاں سے جانے والوں کی ایک بڑی تعداد ضرور ہے اور ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے جن کے پاس اسکول کی فیس ادا کر کے بچوں کے تعلیمی صداقت نامے حاصل کرنے کی سکت نہیں۔ اس صورتحال میں حکومت ان کی مدد کرسکتی ہے۔ یعنی ہندوستانی سفارت خانے کے زیر سرپرستی چلنے والے اسکولس میں اگر حکومت ہند یہاں ملازمت سے فارغ کردیئے جانے والے افراد کی یوں مدد کرسکتی ہے کہ جن کی اچانک ملازمت ختم ہوگئی ہے ان کے دستاویز کی جانچ کر کے ان کے بچوں کی فیس معاف کرتے ہوئے ان کے بچوں کے رپورٹ کارڈز وغیرہ انہیں بغیر فیس ادائیگی کے دلواسکتی ہے تاکہ لوگ اپنے بچوں کو فوری وطن منتقل کر کے وطن اسکولس میں داخل کراسکیں۔ ہندوستان جیسی بڑی معیشت کیلئے یہ مدد کوئی بڑی بات بھی نہیں ہے۔

بہرحال خلیجی ممالک کی سماجی تنظیمیں سماجی کارکنان حکومت ہند اور ملک کی ریاستی حکومت سے این آر آئیز کی بازآبادکاری کے سلسلے میں مسلسل نمائندگیاں کر رہی ہیں اور روزنامہ سیاست پچھلے دو سال سے زائد عرصہ سے اس کالم کے ذریعہ گلف این آر آئیم کے مسائل کوپیش کر رہا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ہندوستان سوا سو کروڑ کی آبادی کے ایک بڑا ملک ہے جس کے بے شمار مسائل ہیں لیکن یہ گلف این آر آئیز کوئی 4 دہائیوں تک ملک کے لئے ایک کثیر رقم بشکل زر مبادلہ فراہم کرنے کے بعد پہلی بار ملک سے کچھ مانگ رہے ہیں۔ ہمارے یہ مطالبات ترجیحی بنیاد پر پورے ہونے چاہئیں۔
knwasif@yahoo.com