ایس پی -بی ایس پی اتحاد ’’ لڑائی کے بعد گھونسہ یاد آیا ‘‘

محمد جسیم الدین نظامی
بی جے پی نے جب 1993 میں ’’ رام رتھ‘‘ پر سوار ہوکر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی تو اس وقت سیاسی بصیرت کا مظاہر کرتے ہوئے ملائم سنگھ یادو اور کانشی رام نے اتحاد قائم کرتے ہوئے بی جے پی کاراستہ روک دیا تھا ، اس وقت اک نعرہ بہت مقبول ہواتھا… ’’ملے ملائم کانشی رام- ہوا میں اُڑ گئے جئے شری رام‘‘… گورکھپور اورپھولپور میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے موقع پر مایاوتی اور اکھلیش کے درمیان اتحاد کے بعددونوںجماعتوںکے پرجوش حامیوںنے ایک بار پھر کچھ ایسے ہی نعروںسے اس اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ..اس بار انہوںنے نعرہ دیا ہے ’’ بہن جی اور اکھلیش جُڑے – مو دی یوگی کے ہوش اُڑے ‘‘ لیکن سوال یہ ہے کہ 1993 کی طرح کیا اب یہ نعرہ عملی طور پر اپنی اہمیت کے ساتھ حقیقی شکل اختیار کرپائیگا؟ چونکہ ملک کے حالات اب 90 کی دہائی سے مکمل طورپر مختلف ہے ، اور اب مرکز کے ساتھ ساتھ یوپی میں بھی بی جے پی ہی برسر اقتدارہے ،جو بقول شخصے، ’ ’دھن دھونس اور دھاندلی ‘‘کی سیاست پر عمل پیرا ہے…سال 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں مودی لہر میں جب اپوزیشن کو اپنی اوقات کا اندازہ ہوا تو بہار میں برسوںکے حریف لالو یاد و اور نتیش کمار ’’مہا گٹھ بندھن‘‘ قائم کرنے پرمجبور ہوئے اوربی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار کیا۔ جس سے حوصلہ پاکر 2017 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں کانگریس ایس پی نے بھی یہی فارمولہ اختیار کیا مگر مایا وتی کی تنک مزاجی اور ضدی پن کے رویہ نے اس اتحاد کو’’ مہاگٹھ بندھن‘‘ بننے سے روک دیا …اور سیاسی بصیرت سے عاری بہن جی کے تنہا انتخابات لڑنے کے فیصلے نے سیکولرووٹوںکو بری طرح سے تقسیم کردیا…اورنتیجتاً صرف 39.7فیصد ووٹ حاصل کرنے والی زعفرانی پارٹی نے، 60.3فیصد سیکولر ووٹوں کو حاصل کرنے والی کانگریس ،ایس پی ،بی ایس پی اوردیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیوکو ٹھینگا بتاکر اقتدار حا صل کرلیا۔اس الیکشن میں جہاں کانگریس ایس پی اتحادکو منقسم ووٹوںسے ہار کا منہ دیکھنا پڑا وہیں مایاوتی کی بی ایس پی کو تنہا انتخابی مقابلے کا جنون نے ذلت آمیز شکست سے دوچار کردیا تھا۔ یہ کس قدر حیرت انگیز پہلوہے کہ، 2017پوپی اسمبلی انتخابات میں 403 نشستوںمیں سے 312نشستوں پر کامیابی درج کرانے والی بی جے پی کو محض 39.7 فیصد ہی ووٹ حاصل ہوئے تھے،جبکہ اکھلیش یادو کو صرف 47 نشستیں ہی ملی تھی اورما یا وتی کے حصے میں 19 نشستیں آسکیں…لیکن دنوں پارٹیوںکے ووٹ شئیر کو ملادیا جائے تویہ بی جے پی پر بھاری پڑ جاتاہے ۔ مایاوتی کو اگرچہ 19 نشستوں پرہی کامیابی ملی لیکن مجموعی طور پر بی ایس پی 22.2 فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے ،جبکہ اکھلیش کی ایس پی نے جملہ 21.8 فیصد ووٹ حاصل کی تھی …

اس طرح اگر بی ایس پی اورایس پی کے ووٹ فیصد کو ملاکردیکھیں تو یہ جملہ 44 فیصد ہوتا جو بی جے پی کے محصلہ ووٹوں سے 4.3 فیصدی زیاد ہ ہوتاہے اور اگراس میں کانگریس کے محصلہ ووٹ 6.3 فیصد ملا لیا جائے تو یہ50.3سے زائد ہوجاتاہے ۔ابھی حال ہی میںدسمبر2017یوپی بلدی انتخابات کے نتائج سے ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا کہ سیکولر ووٹ بری طرح منقسم ہوا ، اور اس تقسیم کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ اتر پردیش کے16 میونسپل کارپوریشن میں سے 14 پر بی جے پی نے جیت درج کی ..حالانکہ اتر پردیش میں یوگی حکومت کے کام کاج پر سوال کھڑے ہوتے رہے ہیں،اسکے باوجود مذکورہ نتائج نے یہ واضح کر دی ہے کہ پارلیمنٹ سے لے کر پنچایت تک بی جے پی کا قبضہ ہے….لیکن یہاں پراگر آپ غور کریں تو معلو ہوگا کہ نگر پالیکا کے 198 سیٹوں میں سے 77 پربی جے پی کو کامیابی ملی ہے جبکہ ایس پی 47 اور بی ایس پی کو 38 پرکامیابی ملی ، اور ان دونوں کی سیٹوں کو جوڑ لیا جائے تو وہ بی جے کی سیٹوں سے زیادہ (یعنی 85) ہوتی ہیں…تصویر صاف ہے کہ… باالفرض ای وی ایم میں گڑبڑی کے اندیشوںکو خارج بھی کردیا جائے تو بھی واضح ہے کہ سنگھ پریوار کی شب وروزمحنت اورکوششوںکے باوجود ابھی بھی یہاں سیکولرووٹوںکا تناسب زیادہ ہے… یعنی اگر ایس پی کانگریس اوربی ایس پی متحدہ طورپر انتخابات کا سامنا کرتی تو آج یہ جماعتیں اپنی بقاء کی جنگ نہ لڑرہی ہوتیں …

اوربی جے پی کو یوپی جیسی بڑی ریاست سے لوک سبھا اورراجیہ سبھا سے اتنی بڑی تعداد میں ارکان کا کھیپ نہیں مل پاتا..مگرکیا کیجئے ..نام نہاد سیکولر پارٹیوںکو اکثر ’’لڑائی کے بعد ہی گھونسہ یادآتاہے ‘‘…تیزرفتاری سے بدلتے ہوئے سیاسی ماحول اوراک منظم ومستحکم تنظیم کی حمایت یافتہ سیاسی جماعت کے سامنے جب کوئی سیاسی دور اندیشی سے محروم جماعت خودغرضی اورانانیت کے ٹیلے پربیٹھ کراقتدار کا خواب دیکھنے لگے تو اسے اس و قت تک ہوش نہیں آتا جب تک کوئی اسے پیچھے سے لات مارکر منہ کے بل گرانہ دے…سیاسی تجزیہ کار و ں کا کہناہے کہ 90 کے عشرے میں بی جے پی برہمنوںاور بنیا کی پارٹی تھی اورکلیان سنگھ کے سبب لودھا اور اوبی سی کے کچھ ووٹرس بی جے پی کے ساتھ تھے ،تاہم اب اس جماعت نے اوبی سی اوردلت رائے دہندوںمیںبھی کسی حدتک جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے ،ایسے میں اگر سماجوادی پارٹی اوربہوجن سماج پارٹی کو پھر سے اپنا وقار اور اقتدار حاصل کرناہے توانکے پاس اتحاد کرنے کے علاوہ کوئی آپشن ہے ہی نہیں۔ دونوں کے اتحاد سے سب سے بڑا جو فائدہ ہوگا وہ یہ کہ یوپی کا مسلم ووٹ جو 18% سے زائد سمجھا جاتاہے ،پوری طرح سے اتحاد کے حق میںجائگا۔چونکہ2017 کے اسمبلی انتخابات کے دوران مسلمانوںکی اکثریت ایس پی ،کانگریس اتحاد اور بی ایس پی کے درمیان تذبذب کا شکارہوگئی تھی…اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت بلاشبہ بی جے پی کے خلاف تھی مگر سیکولر کہلانے والی پارٹیاںمسلم اکثریتی علاقوںمیںکسی ایک پارٹی کے حق میں ہرگز متفق نہیں تھیں… نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک حلقہ میںمسلم ووٹ بکھرنے کے سبب بی جے پی زیادہ تر مسلم اکثریتی سیٹوںپر با آسانی کامیاب ہوگئی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، کم از کم 82 مسلم اکثریتی سیٹیں تو بی جے پی کی گود میں محض سیکولر کہلانے والی پارٹیوںکے مسلم ا میدواروں میںتقسیم ہوجانے کی وجہ سے چلی گئی ۔تاہم اب جبکہ1995 میں گیسٹ ہاوز حادثہ کے سبب دونوں جماعتوں کے درمیان پیداہونے والی خلاء کے بعد پہلی بار ریاست کی دوبڑی جماعتوں نے باہمی اتحاد کا اشارہ کیا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ اسمبلی اور بلدی دونوں انتخابات میںپڑنے والے ’’گھونسے کی ٹیس‘‘اب دونوںجماعتوںکو محسوس ہونے لگی ہے….اورانہیں اب احساس ہوچکا ہے انتخابی جنگ میں جب تک وہ متحد ہوکر پنجہ آزمائی نہیں کرینگے ،فریق مخالف کو چِت نہیں کرسکتے…تاہم ایسا نہ ہوکہ یہ اتحاد راجیہ سبھا انتخابات کے تحت ہونے والی سودے بازی تک محدود ہوکر نہ رہ جائے…. جیسا کہ ضمنی انتخابات کیلئے ایس پی اوربی ایس پی میں اتحاد کی خبروںکے بعد چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’ طوفان دیکھ کر سانپ چھچھوندر جیسے جانی دشمنوں کا ایک کشتی میں سوار ہونا تعجب کی بات نہیں ہے، بی جے پی کے بڑھتے ہوئے طوفان سے ڈر کر سانپ اور چھچھوند ر ایک ساتھ ہو گئے ہیں‘‘…پتہ نہیں یوگی جی کی یہ مثال کس پر کتنا صادق آتاہے ….تاہم اتنا ضرور ہے کہ23سالہ اختلافات کے بعد ضمنی انتخابات میںایس پی ،بی ایس پی نے اتحاد کا اعلان کرکے ’’سانپ کے منہ میں چھچھو ندر ‘‘ جیسی صورتحال ضرور پیدا کردی ہے….