ایسی بھی کیا سادگی

حبیب ضیاء
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ہم جس سادگی کا ذکر کرنا چاہتے ہیں وہ تو کسی اور قسم کی سادگی ہے ۔ اس شعر والی سادگی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ گزشتہ سال کی بات ہے ، ہماری پڑوسن نے اپنے لختِ جگر کی تقریب نکاح میں ہمیں بھی مدعو کیا۔ آج کل دعوتوں میں جو طوفان بدتمیزی ، دھکم پیل اور میوزیکل چیر کھیلا جانے لگا ہے، اپنی ضعیفی پر رحم کھاکر ہم شرکت سے گریز کر رہے ہیں لیکن پڑوس کا معاملہ ہی کچھ ایسا تھا کہ نہ کہتے نہ بنی۔ روشنی کی بچت کیلئے تقریب دوپہر میں منعقد کی گئی تھی ۔ خاصی تعداد میں موٹریں آچکی تھیں ۔کہیںکہیں آٹو نظر آرہے تھے ۔ شادی خانہ بہت چھوٹا تھا ۔ ہم نے قدم رکھتے ہی دلی زبان سے کہہ دیا کہ مہمانوں کی تعداد کے لحاظ سے گنجائش کم ہے لیکن انہوں نے سنی ان سنی کردی ۔ کہیں بھی کسی قسم کی سجاوٹ نہیں تھی ۔ عام گھروں والا صوفہ وہاں بھی تھا ۔ بھاری کپڑوں میں ملبوس ، زیورات میں لدی دلہن ہاتھ پکڑ کر لائی گئی اورایک صوفے پر بٹھادی گئی ۔ دلہن کی طرح رشتہ دار اور دیگر خواتین بھی اچھے سے اچھا اور قیمتی سے قیمتی لباس پہن کر اپنے متمول ہونے کا اعلان کر رہی تھیں۔ یہ کوئی معیوب باتنہ یں کیونکہ خواتین کیلئے یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جہاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں وہ بن سنور کر آتی ہیں۔
کچھ دیر بعد ایک ہال کی جانب چہل پہل ذرا برھ گئی ۔ یقیناً وہاں کھانے کا انتظام تھا ۔ میزبان خواتین اپنے اپنے لوگوں کو اشارے کرنے لگیں۔ اب ہم اتنے منجھ گئے ہیں کہ اشاراتی زبان چٹکیوں میں سمجھ میں آجاتی ہے۔ چنانچہ اپنی ساتھیوں کو ہم نے بھی ویسا ہی اشارہ کیا اور کرسی ملنے کی دعا کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے ۔ ہال میں قدم رکھتے ہوئے ایک بیرے نے ہم سے مخاطب ہوکر کہا میڈم ! ادھر بیٹھئے ۔ دیکھا تو وہاں فرش بچھا ہوا تھا۔ دوسری جانب یہ مشکل تین چار میزیں تھیں اور اس طرف جانے والے فرش کو پھلانگ کر آگے بڑھ رہے تھے ۔ ہم نے سنجیدگی سے بیرے سے کہا تم ہمیں فرش پر بٹھانا چاہتے ہو، ہم جیسے کئی چراغ سحری اور ہیں، تم دیکھ لینا ان کے ساتھ ان کی بیٹیاں ، نواسیاں اور کام والیاں بھی میزوں پر کھائیں گی۔ ایسا ہی ہوا ، میوزیکل چیر والا سماں تھا ۔ سبھوں نے آگے بڑھ کر کرسیاں سنبھال لیں ۔ فرش کے قریب سے جانے والوں کی چپلوں اور سینڈلوں کی مٹی پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ یہ جگہ گندی ہوچکی ہے ، بیٹھنے کے لائق نہیں۔ ہم نے دیکھا کہ گنتی کی چند میزوں پر خواتین ٹوٹ پڑ رہی تھیں۔ بہت کم ایسی تھیں جو یہ حالت مجبوری اپنے بھوکے بچوں کو لیکر فرش جھاڑ کر نیچے بیٹھ رہی تھیں۔ ہماری میز پر آٹھ خواتین تھیں، یہ کوئی نئی بات نہیں اکثر آٹھ آٹھ کا ہی انتظام ہوتا ہے ۔ بٹلر نے مرغ کا قورمہ اور چپاتی لاکر میز پر رکھا ۔ سامنے بیٹھی ایک خاتون بھوک کی تاب نہ لاکر بڑی بے چینی سے بٹلر کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھیں۔ شاید ان کا شمار بھی ہم جیسی خواتین میں ہوتا ہے جو مرغ ، مچھلی ، جھینگے ، بڑے کے کباب، چھوٹے کے دل گردے اور منجلے کا بھیجہ نہیں کھاتیں۔ ہمارا اندازہ غلط نکلا، وہ مرغ کھاتی تھیں لیکن خلافِ توقع میز پر گوشت کی صرف ایک ڈش دیکھ کر ان کا موڈ خراب ہوگیا ۔ دسترخوان لوٹنے کا جو منصوبہ بناکر آئی تھیں وہ ناکام ہوگیا ۔ جلے بھنے منہ سے انہوں نے مرغ کے گوشت کا یک ٹکڑا اور قورمہ اپنی پلیٹ میں ڈالا اور چپاتی کے ساتھ شروع ہوگئیں۔ ہماری تو مجبوری تھی ۔ حسبِ حال ہر دعوت کی طرح بریانی کی ڈش آنے تک کھیرا ، گاجر چباتے رہے ۔ وہ صاحبہ منتظر تھیں کہ کب بریانی کی ڈش آئے اور ہلہ بول دیں تمام خواتین کے ایک ایک چپاتی کھالینے کے بعد بٹلر نے کھانے کی بڑی سی ڈش میز پر لاکر رکھ دی ۔ دوسرے نے اس کے ساتھ کھایا جانے والا سالن بھی رکھا۔ محترمہ کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا ۔ بے صبری سے بریانی کا گوشت لوٹ کر اسے بگھارا کھانا بنانا چاہتی تھیں لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ یہ نوبت نہیں آئی کیونکہ اس میں بگھارا کھانا ہی تھا ۔ ہم نے خوشی خوشی کچھ کھانا اپنی پلیٹ میں ڈال لیا ، اس وقت تک دوسری خواتین مرغ روٹی ہضم کر کے میٹھے پر ٹوٹ پڑنے کا پروگرام بنارہی تھیں۔ محترمہ نے کھانا تو زہر مار کرلیا لیکن ان سے رہا نہ گیا ۔ انتہائی غصے اور طنز آمیز لہجے میں کہنا شروع کیا، ایسی بھی کیا سادگی ، بگھارا کھانا ، دالچہ کھلانا تھا تو پہلے ہی کہہ دیتے۔ میں آٹوکے دو تین سو روپئے خرچ کر کے تو نہ آتی ۔ وہ مسلسل کہے جارہی تھیں۔ ’’دسترخوان کے لوازمات کی سادگی کے ساتھ دلہن کے کپڑے بھی سادے ہی ہونے چاہئے تھے‘‘۔ اب انہیں کون سمجھاتا کہ دلہن کے کپڑوں سے کھانے کی سادگی کا کوئی تعلق نہیں۔ ادھر سب مہمان میزبان کو مبارکباد دے رہے تھے ، ادھر وہ منہ جلائے بگھارے کھانے کا نوالہ ختم کر کے میٹھے کی ڈش کو ویران کرنا چاہتی تھیں۔ ان کے بھیجے میں یہ کون ڈالتا کہ دعوت میں شرکت کا مطلب دسترخوان کی شیرنی بن کر گوشت ٹٹولنا نہیں بلکہ لفافہ دے کر کسی کی خوشیوں کو دوبالا کرنا ہوتا ہے ۔
کھانے کے دور ختم ہورہے تھے ، مہمان گھر لوٹ رہے تھے ۔ ہر ایک کی زبان پر تھا سادگی ہو تو ایسی ۔ اب جناب زاہد علی خاں کی تحریک سے متاثر ہوکر کئی گھرانوں میں ایک کھانا ایک میٹھا والی بات کو عملی جامہ پہنایا جارہا ہے ۔ اس کے لئے وہ قابل مبارکباد ہیں۔ ساتھ ہی کئی لوگوں کے دل سے نکلی دعائیں بھی ان کیلئے ہیں ۔
جو لوگ دکھاوے اور جھوٹی شان و شوکت کی وجہ سے مقروض ہوتے تھے ، وہ دیر سے سہی مگر راستے پر آرہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب دعوتوں کے دسترخوانوں سے رنگ بہ رنگی مرغیاں اڑا دی جائیں گی ۔ حلیم اور مرگ میں پھوٹ پڑ جائے گا ۔ آن کی آن میں لقمی اور کباب کی دوستی ختم ہوجائے گی ۔ کم سے کم لوازمات دسترخوان کی زینت بنیں گے۔ یقیناً اس بات کو اللہ تعالیٰ بھی پسند کرے گا۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہزاروں کنواریاں انشاء اللہ تعالیٰ سہاگن بنیں گی ۔ جہاں وہ ماں باپ کے بوجھ کو کم کریں گی وہیں اپنے کفیل بھائی اور بھاوج کے طعنوں سے بھی بچ جائیں گی ۔ اس دن کا ہمیں شدت سے انتظار ہے۔