ایسا ’کمزور‘ الیکشن کمیشن کبھی نہ دیکھا!

رویش کمار
بے قابو ووٹنگ آج بھی پُرامن پولنگ میں موجود ہے۔ چار مرحلے کی رائے دہی اسی طرح گزر گئی۔ تین مرحلے ہنوز باقی ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک طرف گری راج سنگھ سے منیکا گاندھی کے بیانات پر وارننگ جاری کررہا ہے، لیکن وزیراعظم کے 9 اپریل کے بیان پر کارروائی معلوم نہیں۔ تادم تحریر 20 یوم گزر چکے ہیں۔ اپوزیشن پوچھنے لگی ہے کہ کیوں اس بیان پر کارروائی میں تاخیر کی جارہی ہے جس میں نئے ووٹروں سے پلوامہ اور آپریشن بالاکوٹ کے نام پر ووٹ ڈالنے کی اپیل کی گئی ہے؛ حالانکہ اسی کمیشن نے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کو مودی کی آرمی کہنے پر سزا دی اور متنبہ کیا کہ آرمی کو انتخابی مہم میں استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ الیکشن کمیشن نے کئی قائدین کے خلاف کارروائی کی ہے، لیکن وزیراعظم کے خلاف شکایات پر کارروائی کیوں نہیں ہورہی ہے؟ مایاوتی کے خلاف کارروائی 4 دن میں کی گئی۔ یوگی ادتیہ ناتھ، منیکا گاندھی اور نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف شکایت کے اندرون 6 یوم کارروائی کی گئی۔ کانگریس پارٹی وزیراعظم کے معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی ہے۔
ہمارے رفقاء اروند گناشیکھر اور سرینواسن جین نے 25 اپریل 2019ء کو رپورٹ دی تھی کہ وزیراعظم کی تقریر کے خلاف شکایت الیکشن کمیشن ویب سائٹ سے غائب ہے۔ کولکاتا کے مہیندر سنگھ نے 9 اپریل کو شکایت کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے مہاراشٹرا چیف الیکشن آفیسر سے تقریر کی نقل طلب کی تھی، لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ بعدازاں، کمیشن نے وضاحت کی کہ تکنیکی خرابی کے سبب ویب سائٹ پر غیردرست معلومات تحریر ہوگئی تھی۔
سوال یہ نہیں کہ آیا یہ مقبول عام لیڈر سے متعلق مسئلہ ہے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ 9 اپریل کو اُن کی تقریر کے بعد ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ جب وزیراعظم پر ہی انگلی اٹھنے لگے تو پھر باقی کیا رہ گیا ہے؟ شعیب دانیال نے ’اسکرال‘ ویب سائٹ پر پیش کردہ رپورٹ میں سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ اگر وہ ثابت ہوتے ہیں تو وزیراعظم مودی کی امیدواری خطرے میں پڑسکتی ہے۔ شعیب کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ پالیسی کمیشن دفتر وزیراعظم (پی ایم او) کو معلومات مہیا کرا رہا ہے تاکہ وہ اُن کے انتخابی جلسوں میں استعمال کئے جاسکیں۔ شعیب نے ٹھوس ثبوت پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ہم نے پالیسی کمیشن کی طرف سے ارسال کردہ ای میل دیکھا ہے جس میں ان مقامات کے تعلق سے معلومات طلب کی گئی ہیں جہاں وزیراعظم ریلی منعقد کرنے والے ہیں۔ یہ ای میل مرکزی علاقے کے ایک چیف سکریٹری کو بھیجا گیا اور 9 اپریل کو دوپہر 2 بجے معلومات طلب کی گئیں۔ اسی 8 اپریل کے ایک ای میل میں کہا گیا کہ مکمل تحریری مواد بھیجا جائے، جس میں مقام، مقامی ہیرو، کلچر اور مذہب کے تعلق سے معلومات شامل ہوں۔ ٹورازم، اگریکلچر، ایمپلائمنٹ اور گزربسر کے بارے میں بھی مواد پیش کیا جائے۔ یہ ای میل چنڈی گڑھ، کے مشیر برائے اڈمنسٹریٹر، دہلی اور پڈوچیری کے چیف سکریٹری کو بھیجا گیا۔
انتخابی ضابطہ اخلاق لاگو ہوجانے کے بعد بھی وزیراعظم اپنے انتخابی جلسوں کیلئے سرکاری عہدیداروں سے معلومات مانگ رہے ہیں۔ یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ پالیسی کمیشن کے اکنامک شعبہ کے پنچو کپور کا ای میل ہی نہیں، شعیب دانیال نے مزید معلومات بھی اکٹھا کئے ہیں۔ پی ایم او کی طرف سے بی جے پی زیراقتدار مہاراشٹرا کے کلکٹرز سے بھی مودی کی ریلی والے مقامات کے تعلق سے مواد طلب کیا گیا ہے۔ کپور نے تردید کی ہے۔ اسکرال نے اس طرح کی دستاویزات وصول ہوئی ہیں جو مہاراشٹرا کے کلکٹرز کو بھیجی گئیں۔ 31 مارچ کو گونڈیا کلکٹر کاندی بیری بلکاواڈے نے بھی پالیسی کمیشن کو نوٹ بھیجا۔ پی ایم او کیلئے ضلع گونڈیا کے بارے میں تحریر ؍ معلومات بھیجی گئیں۔ وزیراعظم نے یکم اپریل کو وردھا، 3 اپریل کو گونڈیا اور 9 اپریل کو لاتور میں ریلی منعقد کی تھی۔ شعیب نے مہاراشٹرا کے اڈیشنل چیف الیکشن آفیسر سے اس موضوع پر جواب مانگا ہے۔ انھوں نے معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا۔
اخلاقی اعتبار سے دیکھیں تو ضابطہ اخلاق لاگو ہونے کے باوجود وزیراعظم گورنمنٹ سسٹم کا استعمال کررہے ہیں اور اسی نوعیت کے معاملے میں جون 1975ء کو اندرا گاندھی کے الیکشن پر امتناع عائد کیا گیا تھا۔ اگر سرکاری عہدہ دار جن کی ذمہ داری منصفانہ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری ہوتی ہے، اگر وہی انتخابی مہم میں وزیراعظم کی تقریر کیلئے مواد فراہم کرتے ہیں تو بس یہی مطلب اخذ ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام چھوڑ کر اُن کی مدد کررہے ہیں۔ اگر ای میل میں بھیجی گئی معلومات ان کی تقریر کی انفارمیشن سے میل کھاتی ہے تو یہ زیادہ سنگین معاملہ بن جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 9 اپریل کی لاتور تقریر پر ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ اسکرال نے ای میل کے امیج کو شائع بھی کیا ہے۔ الیکشن کمیشن شاید انتخابات ختم ہونے کا منتظر ہے۔ الیکشن کمیشن سے سخت سوالات پوچھے جانے چاہئیں۔
بنگال سے ممتا بنرجی نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم ریلیوں پر مصارف کہاں سے آرہے ہیں؟ ممتا نے کہا ہے کہ اگر ای سی دیگر انتخابی مصارف کے حساب کا تقاضہ کرسکتا ہے تو وزیراعظم کے معاملے میں کیوں نہیں؟ عام آدمی پارٹی لیڈر سنجے سنگھ نے بھی تحریری شکایت الیکشن کمیشن کو پیش کی ہے۔ وارانسی میں روڈ شو کے دوران مصارف کے تعلق سے کئی سوالات اٹھائے گئے۔ وزیراعظم Star Campaigner ہیں۔ لہٰذا، ان کے اخراجات پارٹی کے کھاتہ میں محسوب کئے جاتے ہیں۔ قانون عوامی نمائندگی 1951ء کے سیکشن 77(1) کے تحت اگر کوئی لیڈر ’اسٹار کمپینر‘ ہو اور اپنے علاقے کے باہر ریلی کا حصہ ہے تو اسے اخراجات کے حساب سے استثنا ہے۔ اگر قائدین کوئی علاقہ سے چناؤ لڑرہے ہیں تو انھیں استثنا کا فائدہ حاصل نہیں رہے گا۔
کیا آپ جانتے ہو کہ ای وی ایم اور وی وی پیاٹ کے تعلق سے شکایت کس طرح کرتے ہیں اور اگر شکایت غیردرست پائی گئی تو آپ کو 6 ماہ کی جیل ہوسکتی ہے۔ 2013ء میں الیکشن کمیشن نے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کے دفعہ 177 کو انتخابی قواعد کے ضابطہ کے سیکشن 49 میں شامل کردیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سابق آسام پولیس سربراہ ہری کرشنا ڈیکا نے الزام عائد کیا کہ انھوں نے جو ووٹ ڈالا وہ وی وی پیاٹ مشین کی سلپ پر دکھائی نہیں دیا۔ ڈیکا نے فیس بک پر لکھا کہ اس کی شکایت نہیں کی گئی کیونکہ اگر دعویٰ درست نہ ہو تو جیل ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے جواب طلب کیا ہے۔
نیشنل اِسکل ڈیولپمنٹ کارپویشن کے ایک سینئر آفیسر نے بلاگ تحریر کرتے ہوئے کہا کہ اسے مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان نے تمام سینئر افسران کے روبرو بُرا بھلا کہا۔ یہ واقعہ گزشتہ سال کانسٹی ٹیوشن کلب میں اسکل انڈیا کے پروگرام کے دوران پیش آیا۔ اس آفیسر کا نام اجئے کمار ہے اور آرمی میں 23 سالہ سرویس کے بعد نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں شامل ہوا تاکہ کم خرچ میں ملک کی زیادہ خدمت کی جاسکے۔ کرنل اجئے کمار نے ’LinkedIn‘ پر طویل پوسٹ لکھا ہے۔ وہ اسمارٹ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ رہے جس نے نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں فلائنگ پلان اور اسکل سنٹرز کو تسلیم کیا۔ اجئے کمار نے بعد میں یہ بھی لکھا کہ انھیں دھمکی دی گئی کہ مستعفی ہوجائیں اور آخرکار انھیں استعفا دینا پڑا۔ 9 ماہ بعد ہم اس واقعہ کا حوالہ دے رہے ہیں کہ جب کبھی کوئی ادارہ ایسے شخص کا انٹرویو کرتے ہوئے گزشتہ جاب چھوڑ دینے کی وجہ دریافت کرتا ہے تو وہ ادارہ اور وہ انٹرویو غیرمحسوس طریقے سے خاموش کردیئے جاتے ہیں!
ravish@ndtv.com