اگلی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لئے

7 منموہن سنگھ ریٹائرڈ …راہول کا راستہ ہموار
7 ہندوتوا کا چہرہ نریندر مودی پر وزیراعظم کا حملہ

ڈاکٹر منموہن سنگھ نے آخرکار 2014 ء کے انتخابات میں وزارت عظمی کی دوڑ سے علحدگی اختیار کرتے ہوئے عملاً ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم کا یہ اعلان توقع کے عین مطابق اور پارٹی کی حکمت عملی کا حصہ ہے، جس کے تحت 2014 ء کے تحت کانگریس کے یوراج راہول گاندھی کی تاج پوشی کی تیاریاں جاری ہیں۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے مجوزہ سیشن میں رسمی اعلان سے قبل ڈاکٹر منموہن سنگھ نے وزارت عظمی کی دوڑ سے علحدگی کا اعلان کرتے ہوئے پارٹی کا کام آسان کردیا۔ اب 2014 ء انتخابات میں راہول گاندھی بمقابلہ نریندر مودی منظر صاف دکھائی دے رہا ہے۔ عام انتخابات سے چار ماہ قبل منموہن سنگھ نے وزیراعظم کی حیثیت سے یو پی اے حکومت کی دو میعادوں کے کارنامے پیش کرتے ہوئے دوسرے انداز میں انتخابی مہم کا آغاز کردیا ۔ انہوں نے گجرات فسادات کے حوالہ سے وزارت عظمی کیلئے نریندر مودی کی امیدواری کو ملک کیلئے تباہ کن قرار دیتے ہوئے سیکولر اور فرقہ پرستوں کے درمیان خط فاصل کھینچ دی ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا یہ بیان انتہائی جرات مندانہ ہے اور وزیراعظم کے عہدہ پر دیئے گئے سیاسی بیانات میں یہ اب تک کا سب سے بے باک بیان تصور کیا جارہا ہے۔

انہوں نے ایک جہاندیدہ اور تجربہ کار سیاستداں کی حیثیت سے ملک کے موجودہ حالات میں سیکولر اقدار کی پاسداری کیلئے سیکولر جماعتوں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ۔ منموہن سنگھ نے نریندر مودی کے ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کے نعرہ کو محض ایک خواب سے تعبیر کیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ جب بھی بات کریں تو قومی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ ویسے بھی وزارت عظمی کی کرسی پر فائز کوئی بھی شخصیت زبان کھولے تو یقیناً میڈیا کیلئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر منموہن سنگھ کا معاملہ سب سے الگ ہے۔ چونکہ منموہن سنگھ بہت کم ہی میڈیا سے روبرو ہوتے ہیں لہذا جب بھی وہ بات کریں ان کی ہر بات اہمیت کے ساتھ پیش کی جاتی ہے ۔ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ میڈیا کو انتظار ہوتا ہے کہ منموہن سنگھ کب کس مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے سب سے کم بات کرنے کا ریکارڈ منموہن سنگھ نے قائم کیا۔ اگرچہ وہ اس جلیل القدر عہدہ پر 10 برس تک فائز رہے لیکن زیادہ تر انہوں نے لکھی ہوئی تقاریر کو پڑھا یا پھر پارٹی فورم اور کابینہ کے اجلاس میں اپنا موقف پیش کیا۔ اپنی کم گوئی کے باعث وہ اکثر اپوزیشن پارٹیوں کے نشانہ پر رہے لیکن اپنی خاموشی کا ریکارڈ ٹوٹنے نہیں دیا۔ منموہن سنگھ کانگریس پارٹی میں نہرو گاندھی خاندان سے تعلق نہ ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ پر دو میعاد مکمل کرنے والے پہلے قائد ہیں۔ منموہن سنگھ نے مختلف مواقع پر میڈیا سے بات چیت کی لیکن صرف اپنی بات پہنچانے کی حد تک۔ انہوں نے باقاعدہ پریس کانفرنس طلب کرتے ہوئے میڈیا کے سوالات کا بہت کم سامنا کیا ہے۔ ان کی کم گوئی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دس برسوں میں انہوں نے صرف تین بار پریس کانفرنس کی۔ پہلی میعاد میں 2006 ء جبکہ دوسری میعاد میں 2010 ء اور پھر 3 جنوری 2014 ء کو تیسری پریس کانفرنس کی۔ اب جبکہ انتخابی عمل کے آغاز کو صرف تین ماہ باقی رہ گئے ہیں

، منموہن سنگھ نے میڈیا سے روبرو ہوتے ہوئے یو پی اے حکومت کے کارنامے بیان کئے اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کی بعض ناکامیوں کا بھی اعتراف کیا۔ اس طرح اپنے کلین امیج اور دیانتدارانہ سیاست کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے آئندہ عام انتخابات میں کانگریس کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے مہنگائی ، افراطِ زر اور دیگر مسائل پر حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اقرار کیا کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں عوامی ناراضگی کا سبب یہی مسائل رہے۔ کانگریس پارٹی نے راہول گاندھی کو وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے کیلئے ڈاکٹر منموہن سنگھ کا سہارا لیا ہے۔ انہوں نے وزارت عظمی کیلئے راہول گاندھی کو موزوں امیدوار قرار دیا۔ ہندوتوا طاقتوں کی جانب سے بھارت کو ہندو راشٹر بنانے کا خواب دیکھا جارہا ہے اور نریندر مودی کو ہندوتوا کے چہرہ کے طور پر عوام میں پیش کیا گیا۔ ملک کے موجودہ حالات میں ہندو راشٹر کا خواب ملک کی سالمیت اور یکجہتی کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے مودی اور ان کے منصوبوں کے بارے میں جس جرات مندی کے ساتھ تبصرہ کیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہی باتیں وہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھی عوام کے سامنے رکھتے۔ ہندوستانی قوم سیکولرازم پر متحد ہے اور انہیں چاہئے کہ وہ بھارت کو دوسرا گجرات بننے سے روکیں۔

یہ صرف کانگریس ، منموہن سنگھ یا راہول گاندھی کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کی بقاء کا مسئلہ ہے۔ اگر فرقہ پرست طاقتوں کو اس مسئلہ پر روکا نہیں گیا تو وہ ملک میں عوام کے درمیان نفرت کے اس زہر کو پھیلاکر سماج کو دو حصوں میں تقسیم کردیں گے۔ اس خطرناک رجحان سے مقابلہ کیلئے کانگریس پارٹی نے راہول گاندھی کو میدان میں اتارنے کی تیاری تو کرلی ہے لیکن راہول کی شناخت ایک ناتجربہ کار قائد کی حیثیت سے ہے۔ وہ انتخابات میں ایک انتہائی تجربہ کار نریندر مودی جیسے سیاستداں کا کس طرح مقابلہ کرپائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پارٹی نے تیسری میعاد کیلئے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی امیدواری کے حق میں فیصلہ کیوں نہیں کیا۔ منموہن سنگھ میں ایسی کیا کمی یا کمزوری تھی کہ وہ نریندر مودی کے مقابلہ کھڑا نہیں ہوسکتے تھے۔ دراصل کانگریس پارٹی میں موجود نہرو گاندھی خاندان کی چاپلوسی کرنے والی ٹولی نے یو پی اے کی دوسری میعاد سے ہی راہول گاندھی کو وزارت عظمیٰ کے موزوں امیدوار کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا تھا۔ یقینی طور پر یو پی اے کے دوسرے دور میں حکومت مہنگائی اور دیگر عوامی مسائل کی یکسوئی میں ناکام ثابت ہوئی لیکن اس کیلئے سسٹم ذمہ دار ہے نہ کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ۔ منموہن سنگھ نے ماہر معاشیات ہونے کے باوجود دو میعادوں کے دوران ایک کامیاب سیاستداں ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اگر منموہن سنگھ کی جگہ نہرو گاندھی خاندان کا کوئی فرد ہوتا تو کیا انہیں بھی دوسری میعاد کے بعد سبکدوش کردیا جاتا؟ کانگریس پارٹی خاندانی وراثت کو آگے بڑھانے کیلئے صاف و شفاف امیج اور تجربہ کار شخصیت کو سبکدوش کیا جارہا ہے۔

10 سالہ دور میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کئی نشیب و فراز دیکھے۔ کئی حلیف جماعتوں نے درمیان ہی سے راستہ چھوڑدیا تو بعض نئے حلیف شریک سفر ہوگئے ۔ کرپشن اور اسکامس کے معاملہ میں کئی وزراء کو مستعفی ہونا پڑا۔ خود کوئلہ اسکام میں منموہن سنگھ پر شبہ کی انگلی اٹھائی گئی ۔ ان تمام ہنگاموں کے باوجود منموہن سنگھ حکومت کو غیر مستحکم ہونے نہیں دیا جو ان کا غیر معمولی کارنامہ ہے۔ سخت گیر نظریاتی کے اختلافات کے باوجود بعض جماعتیں باہر سے حکومت کی تائید کرنے پر مجبور رہیں۔ جس طرح پی وی نرسمہا راؤ نے اقلیتی حکومت کی قیادت کرتے ہوئے میعاد کی تکمیل کی تھی، اسی طرح مخالف جماعتوں کی باہری تائید سے منموہن سنگھ نے دو میعاد مکمل کرلی ۔ بعض مواقع پر تو ایسا محسوس ہوا کہ حکومت زوال کا شکار ہوجائے گی لیکن خود اپوزیشن جماعتیں بھی وسط مدتی انتخابات کا سامنا کرنے تیار نہیں تھیں۔ منموہن سنگھ کو ایک طرف داخلی تو دوسری طرف پارٹی اور حکومت کے باہر چیلنجس کا سامنا تھا۔ پارٹی میں کئی قائدین کی نظریں وزارت عظمیٰ کی کرسی پر تھی۔

الغرض منموہن سنگھ نے دس برسوں کے دوران انتہائی بردباری اور حکمت کے ساتھ صورتحال کا مقابلہ کیا اور ان کے ناقدین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’مقابلہ دل ناتواں نے خوب کیا‘‘۔ ملک کی خارجہ پالیسی اور دنیا بھر میں ہندوستان کی اہمیت منوانے اور پڑوسیوں سے رشتوں کو استوار کرنے میں منموہن سنگھ کامیاب رہے۔ خاص طور پر پاکستان کی بارہا اشتعال انگیز کارروائیوں کا جواب حکومت نے صبر و تحمل کے ساتھ دیا۔ یو پی اے حکومت کے دس سال اقلیتوں کے لئے محض اعلانات تک محدود رہے اور خود وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری کے فوائد عام مسلمانوں تک نہیں پہنچ سکے جس کا انہیں افسوس ہے۔ اقلیتوں کی ترقی اور بھلائی کے بارے میں سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیٹی نے سفارشات پیش کی جو کہ محض فائلوں میں بند ہوکر رہ گئیں۔ چونکہ منموہن سنگھ کا تعلق بھی سکھ اقلیت سے ہے لیکن اقلیتوں کو ان سے کافی امیدیں تھیں۔ اقلیتوں کو فسادات سے محفوظ رکھنے، خاطیوں کو سزا اور متاثرین کو معاوضہ کی ادائیگی سے متعلق انسداد ، فرقہ وارانہ تشدد بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ اترپردیش میں فسادات کا سلسلہ جاری رہا لیکن مرکز نے مداخلت نہیں کی۔ فسادات کے ہزاروں متاثرین ریلیف کیمپس میں امداد کے منتظر رہے۔ سردی سے ٹھٹھر کر کئی بچوں کی موت واقع ہوئی لیکن مرکز خاموش رہا۔

ریلیف کیمپس پر اکھلیش یادو حکومت نے بلڈوزر چلادیا لیکن مرکز کو متاثرین کی تکلیف کا احساس نہیں ہوا۔ کسی اور ملک میں آفات سماوی سے تباہی ہو تو ہندوستان امداد روانہ کرتا ہے لیکن اپنے ہی ملک کی ایک ریاست اور وہ علاقہ جو دارالحکومت دہلی سے قریب ہے، وہاں کے متاثرین کی مدد کا مرکز کو خیال نہیں آیا۔ شاید اس لئے کہ وہاں اس پارٹی کی حکومت ہے جو مرکز میں حکومت کی تائید کر رہی ہے۔ اقلیتوں کی بھلائی کے سلسلہ میں رحمن خاں کی جانب سے ہزاروں کروڑ کے اعلانات اخبارات کی زینت بنتے رہے اور یہ محض سبز باغ ثابت ہوئے۔ راہول گاندھی کو وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے سے قبل ان کے امیج کو بہتر بنانے کیلئے کانگریس نے سرکاری فیصلوں میں ان کی مداخلت میں اضافہ کردیا۔ تاکہ عوام میں یہ تاثر پیدا ہو کہ راہول گاندھی کرپشن اور مہنگائی کے خاتمہ میں سنجیدہ ہے۔ انہوں نے سزا یافتہ افراد کے انتخاب لڑنے پر سپریم کورٹ کی جانب سے پابندی کے خلاف مرکزی کابینہ میں منظورہ آرڈیننس کو واپس لینے پر مجبور کردیا۔ مہاراشٹرا کے آدرش سوسائٹی اسکام کی تحقیقاتی رپورٹ کو مہاراشٹرا کی کابینہ نے مسترد کردیا تھا لیکن راہول گاندھی نے اس رپورٹ پر کارروائی کی ہدایت دی۔

انہوں نے ہماچل پردیش کے چیف منسٹر ویر بھدرا سنگھ کے خلاف الزامات کا بھی مسئلہ اٹھایا۔ دراصل راہول گاندھی دہلی میں کرپشن کے خلاف جدوجہد کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے والی عام آدمی پارٹی سے سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان تمام کوششوں کے باوجود راہول گاندھی اپنی سیاسی ناتجربہ کاری کے سبب نریندر مودی کا توڑ اور منموہن سنگھ کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔ سبکدوشی سے قبل ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک میں سیکولر اقدار کی بحالی کا جو پیام دیا ہے، جیسے وہ معراج فیض آبادی کا یہ شعر کہنا چاہتے ہیں۔
اگلی نسلوں کو تباہی سے بچانے کے لئے
جو بھی کرنا ہے اسی نسل کو کرنا ہوگا