اک حکومت ہے جو انعام بھی دے سکتی ہے

7  عدم رواداری … بہار کی کامیابی اصل نشانہ
7  ایوارڈس کی واپسی …کاش بہت پہلے بیدار ہوتے

رشیدالدین
عدم رواداری، نفرت، تعصب اور مذہبی اقلیتوں کو برداشت کرنے کے جذبہ میں کمی نے ملک کے دستور کی اصل روح کو پامال کردیا ہے۔ جس دستور میں مذہبی اظہار خیال اور دوسروں کے مساوی حقوق فراہم کئے گئے ہیں، اسے صرف حلف برداری تک محدود کردیا گیا۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا ہو تو دستور کی پاسداری کے حلف کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور یہ سیاستدانوںکی مجبوری کے سواء کچھ نہیں ہے۔ کاش سیاستداں دستور کے مطالعہ کی زحمت کرتے تاکہ یہ اندازہ ہوسکتا کہ جس کی پاسداری کا حلف لیا گیا، آخر وہ کیا ہے۔ کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے کہا تھا کہ حکومت کا مذہب ہندوستانیت اور حکومت کی مذہبی کتاب دستور ہے۔ بیان بازی اور عوام کی واہ واہی لوٹنے کیلئے تو یہ ڈائیلاگ اچھے ہیں لیکن ان پر قائم نہ رہنا پاسداری اور احترام نہیں بلکہ توہین کے مترادف ہے۔ آخر کیا بات ہوگئی کہ گزشتہ 18 ماہ میں نفرت اور تعصب کے سوداگر اور پرچارک بے لگام ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ جب حکومت کو ہی دستور کا پاس و لحاظ عزیز نہ ہو تو پھر اس طرح کا ماحول پیدا ہونا لازمی ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں عدم رواداری کے بڑھتے واقعات نے ملک کے سیکولر تانے بانے کو بکھیر دیا ہے۔ یہ واقعات بھلے ہی سیاسی مقصد براری کیلئے ہوں یا پھر مذہبی اقلیتوں کو خوف زدہ کرنے کے مقصد سے دونوں صورتوں میں نقصان تو ملک کا ہے۔ جس طرح ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے ، ملک کے دردمند دل رکھنے والے قلمکار ، ادیب ، مصنفین ، فلمساز ، مورخین حتیٰ کہ سائنسداں بھی تڑپ اٹھے اور حکومت کے ایوارڈس اور اعزازات کو واپس کرنے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔

جس طرح سنگھ پر یوار نے گھر واپسی کی تحریک چلائی تھی ، اسی انداز میں ایوارڈ اور اعزاز واپسی کی لہر چل پڑی ہے۔ بیف کے نام پر دادری سے شروع ہوئی نفرت کی مہم اب دارالحکومت دہلی بلکہ مرکزی حکومت کی ناک کے نیچے پہنچ چکی ہے۔ دادری میں بیف کی افواہ پر اخلاق احمد کو گھر والوں کے سامنے قتل کردیا گیا جس کے بعد دادری صرف ایک مقام کا نام نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہندوستان کے ماتھے پر بدنما داغ اور عدم رواداری کی علامت بن چکا ہے ۔ معاملہ وہیں تک نہیں تھما بلکہ کشمیر ، مہاراشٹرا ، مدھیہ پردیش اور ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی بیف کی سیاست کی گئی۔ چونکہ بہار میں انتخابات کی مہم عروج پر ہے لہذا سنگھ پریوار اور بی جے پی قائدین بے لگام ہوچکے ہیں۔ گائے کو کاٹنے والوں کو کاٹ دینے دادری واقعہ کی تائید میں بیانات آنے لگے ۔ آر ایس ایس کے ترجمان پنچ جنیہ نے ویدوں کے حوالے سے گائے کاٹنے والوں کو قتل کرنے کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ پھر کیا تھا نفرت کے پرچارکوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور دہلی کے کیرالا بھون کو نشانہ بنایا گیا۔ کیرالا بھون کی کینٹن کے مینو میں لفظ بیف کو دیکھ کر دہلی پولیس نے بھی اپنے حدود اور اختیارات کو پھلانگ کر کیرالا بھون پر دھاوا کردیا لیکن پتہ چلا کہ وہ دراصل بھینس کا گوشت تھا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ نفرت کی مہم کے اثرات سے پولیس بھی متاثر ہوچکی ہے اور اختیارات نہ ہونے کے باوجود ریڈ کیا گیا۔ دراصل پولیس میں جارحانہ فرقہ پرستی کی ذہنیت کے حامل عناصر داخل ہوچکے ہیں۔ دہلی میں خواتین کی جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوچکا ہے اور پولیس خواتین کے تحفظ کے بجائے بیف معاملات سے نمٹنے میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔ ایک ٹی وی شو میں سوال کیا گیا کہ دہلی میں کس جرم سے نمٹنے کیلئے پولیس کی اولین ترجیح ہے۔ اس سوال پر امیدوار نے 4 موجود آپشن میں قتل کا انتخاب کیا لیکن یہ جواب کمپیوٹر نے غلط قرار دیا ہے اور صحیح جواب بیف کھانا بتایا گیا۔ کیرالا حکومت کے احتجاج اور قانونی کارروائی کی دھمکی کے بعد وزیراعظم کے دفتر کو حرکت میں آنا پڑا اور ہندو سینا کے سربراہ کو گرفتار کیا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی نے مرکز میں بدنامی کے خوف سے دہلی پولیس کی غلطی کو تسلیم کرلیا۔ کیرالا بھون کے واقعات کے ساتھ ہی بی جے پی اور مرکز دفاعی موقف میں نظر آئے کیونکہ ملک کو بیرونی زر مبادلہ کا زیادہ تر حصہ کیرالا عوام کا رہین منت ہے جو خلیج اور دیگر ممالک میں مقیم ہیں۔ کیرالا کی اس اہمیت کے پیش نظر وشوا ہندو پریشد کو بھی بیان دیناپڑا کہ اسے کیرالا بھون میں بیف کی سربراہی پر کوئی اعتراض نہیں۔ ملک کے عوام کیا کھائیں، کیا لباس پہنیں ، کیا کہیں حتیٰ کہ کیا سوچیں اس کا فیصلہ کیا سنگھ پریوار کرے گا ؟ اظہار خیال غور و فکر کی آزادی اور اپنی پسند کی غذا کے حق سے محروم کرنے والے یہ کون ہیں؟ بیف پر پابندی کی بات کرنے والے غریبوں کو نشانہ بنانے کے بجائے فائیو اسٹار ہوٹلس کے مینو سے بیف کو ہٹاکر دکھائیں۔ بیف کے استعمال میں مسلمان سے زیادہ غیر مسلم ہیں جس کا ثبوت کیرالا بھون میں 45 منٹ میں بیف کی تمام ڈشس کا فروخت ہونا ہے۔ اسٹار ہوٹلس کے مالک اور بیف اکسپورٹ کرنے والے بھی مسلمانوں سے زیادہ  غیر مسلم بلکہ بعض بی جے پی قائدین ہیں۔

ملک کے حالات اور بڑھتی عدم رواداری کے خلاف قلم کاروں کے بعد فلم ساز، مورخین حتیٰ کہ سائنسداں بھی میدان میں آگئے اور اعزازات واپس کرنے کا اعلان کیا۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے نامور سائنسداں پی ایم بھارگوا نے سیویلین اعزاز پدما بھوشن لوٹانے کا اعلان کیا۔ قلم کار و سائنسداں چونکہ حساس جذبہ کے حامل ہوتے ہیں، لہذا موجودہ حالات پر ان کا احتجاج فطری ہے۔ یقیناً ان تمام کے جذبہ کی قدر کی جانی چاہئے لیکن جس انداز میں احتجاج اور ایوارڈس واپس کرنے کا سلسلہ چل پڑا ہے، اس پر سوالات کا اٹھنا بھی اپنی جگہ درست ہے۔ ایوارڈ واپس کرنے سے زیادہ اس کی ٹائمنگ کے بارے میں سوال اٹھ رہے ہیں۔ حالانکہ ان میں بعض ایسی شخصیتیں بھی شامل ہیں جن کے جذبہ اور سنجیدگی پر شبہ کی گنجائش نہیں۔ ایوارڈ واپسی کی اس قطار کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کو یہ کہنے کا موقع مل گیاکہ تمام لوگ مخالف بی جے پی ہیں اور ان کی ناراضگی مصنوعی اور بناوٹی ہے۔ احتجاج کرنے والوں کو مخالف بی جے پی قرار دینا تو آسان ہے لیکن بی جے پی اس قدر تعداد میں اپنی حامی ایوارڈ یافتگان کو جمع کر کے دکھائے۔ دادری واقعہ سے قبل بعض جہد کاروں کے قتل کے واقعات پیش آئے لیکن دادری کے بعد اور بہار انتخابات کے موقع پر ایوارڈ واپسی کا سلسلہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ملک کی تاریخ کے بدترین سانحات میں بابری مسجد کی شہادت ، ممبئی اور گجرات کے  فسادات تھے۔ اخلاق کے قتل پر احتجاج کرنے والے اس وقت کیوں خاموش تھے؟ اس وقت ایوارڈس واپس کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟ آخر کون ان ایوارڈ واپسی کے ذریعہ فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟ بابری مسجد شہادت ممبئی اور گجرات فسادات کے متاثرین سے اظہار ہمدردی اور انہیں انصاف دلانے کیلئے کتنے مصنفین میدان میں آئے تھے؟ دادری واقعہ سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوگا جبکہ ایوارڈس کی واپسی سے حکومت عدم استحکام کا شکار ہوگی۔ موجودہ صورتحال میں بی جے پی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی بھی کوشش اسے مزید مضبوط بناسکتی ہے ۔ لہذا یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ دادری کے بعد ایوارڈس کی واپسی کی لہر سے مسلمانوں کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے کیونکہ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی نظر میں مسلمان قصوروار سمجھے جائیں گے اور وہ ہمیشہ ان کے نشانہ پر رہیں گے۔ مسلمانوں سے نفرت میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایوارڈس کی واپسی عدم رواداری  مسئلہ کا حل نہیں۔ فرقہ پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے والے کئی جہد کاروں نے ابھی تک ایوارڈس واپس نہیں کئے ۔ ان میں شام بینگل بھی شامل ہیںجن کا کہنا ہے کہ اعزازات حکومت کا کوئی احسان نہیں بلکہ ساری قوم کی جانب سے اعتراف خدمات ہیں ۔ لہذا اسے واپس کرنا قوم کے اعزاز کو ٹھکرانا ہے۔

حکومت چاہے کوئی ہو ، وہ قوم کی جانب سے اعزاز عطا کرتی ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ قلمکار ، مورخین ، فلم ساز اور سائنسداں 6 ڈسمبر 1992 ء کے دن ہی جاگ جاتے تو شائد عدم رواداری آج عروج پر نہ ہوتی۔ گجرات میں احسان جعفری کا خاندان ہمدردی کا مستحق ہے جو آج بھی انصاف کیلئے لڑائی لڑ رہا ہے۔ کاش گجرات اور حیدرآباد کے فرضی انکاؤنٹرس کے خلاف بھی ایوارڈس واپس کئے جاتے۔ اتنا ہی نہیں گجرات فسادات کے حقیقی خاطیوں کو بے نقاب کرنے والے آئی پی ایس  عہدیدار سنجیو بھٹ اور نامور صحافی راج دیپ سردیسائی کی تائید میں کسی نے آواز نہیں اٹھائی ۔ گجرات کے مظلوموں کیلئے انصاف کی لڑائی لڑنے والی جہد کار تیستا ستیلواد کو فرضی مقدمات کے ذریعہ ہراساں کیا جارہا ہے ۔ کتنے ایسے قلمکار اور جہد کار ہیں جنہوں نے فرضی مقدمات کے خلاف ایوارڈ واپس کیا ہو۔ ان تلخ حقائق کے باوجود اعزازات کی واپسی اور اس کے پس پردہ جذبہ کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کے خلاف ڈٹ جانے کی موجودہ مثال اعظم خاں ہیں جن کی مقبولیت اور مضبوط  موقف کا اندازہ اس وقت ہوا جب اکھلیش یادو نے 8 وزراء کو برطرف کیا اور 9 وزرا کے قلمدان واپس لئے لیکن اعظم خاں کا موقف برقرار ہے۔ سیکولر جماعتوں میں موجود مسلم قائدین کو اعظم خاں سے سبق لینا چاہئے ۔ دوسری طرف بی جے پی صدر امیت شاہ نے بہار میں کامیابی کیلئے آخری داؤ کے طور پر پاکستان کی ’’مدد‘‘ لی ہے۔ ان کا کہنا کہ ’’بی جے پی کی شکست کا جشن پاکستان میں منایا جائے گا ‘‘۔ دراصل مذہبی بنیاد پر ووٹ تقسیم کرنے  کی کوشش ہے۔ گجرات  اسمبلی انتخابات میں نریندر مودی نے یہی حربہ استعمال کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف بھی سرحد پار سے بی جے پی کی مہم چلارہے ہیں ۔ پاکستان کے نام پر کامیابی کی کوشش کرنے والے امیت شاہ شائد بھول گئے کہ واجپائی اور نریندر مودی حکومتوں میں ہی پاکستان کی زیادہ خوشامد کی گئی۔ مودی کی حلف برداری میں نواز شریف کو کس نے مدعو کیا تھا؟ اقوام متحدہ میں ملاقات نہ کرنے کا ڈرامہ کرتے ہوئے نواز شریف کو دیکھ کر کس نے ہوا میں ہاتھ لہرا کر خیر سگالی کا اظہار کیا ؟ بار بار کسی نہ کسی بہانہ نواز شریف کو نریندر مودی کا فون کیوں جاتا ہے ۔ چند دن قبل گیتا نامی ہندوستانی لڑ کی کی واپسی پر کس نے نواز شریف کی تعریف کی؟ بظاہر دشمنی پھر بہار میں پاکستان کے نام پر جیت حاصل کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے ؟ ڈاکٹر راحت اندوری کا یہ شعر موجودہ حالات پر صادق آتا ہے   ؎
اک حکومت ہے جو انعام بھی دے سکتی ہے
اک قلندر ہے جو انکار بھی کرسکتا ہے
rasheeduddin@hotmail.com