اکیسویں صدی کے چیالنجس اور مسلم خواتین

ڈاکٹر آمنہ تحسین
شعبئہ تعلیمِ نسواں، مولانا آزاد نیشنل اردو یو نی ورسٹی
اکیسویں صدی کو’’ نالج پاور‘‘ اور’’ ٹکنالو جی کے عروج کی صدی‘‘ قراردیا جا ئے تو ممکن ہوقبل از وقت محسوس ہو گا، لیکن غلط نہیں ہو گا۔ اس صدی کو شروع ہو ئے اگر چہ کہ ایک دہا ہی گذرا ہے لیکن پچھلے تقریباً تیرہ بر سوںمیں ٹکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے نت نئے و حیرت انگیز ایجادات سے دنیا کو ایسی چیزوں سے روشناس کر وایا ہے جو ذہنی سطح پر ناقابلِ یقین ضرور لگتے ہیں۔لیکن حقیقت بن کر ہمارے سامنے مو جود ہیں اور جن سے ہم روز مرہ زندگی میں کہیں نہ کہیں مر بو ط ہو رہے ہیں۔ترقی کی یہ رفتار کسی ایک خطہ زمین تک محدود نہیں ہے بلکہ ’’ گلوبا لائزیشن ‘‘ نے دنیا کی تقریباً تمام سرحدوں تک اس کو وسعت بخشی ہے۔اکیسویں صدی کی اس تیز رفتار ترقی نے انسانی زندگی سے جڑے تمام شعبوں پر کہیں مثبت تو کہیں منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔جس کے نتیجے میں بین الاقوامی و قومی سطح پر زند گی کے میعارات ،ضروریات اور تقاضے تبدیل ہو گئے ہیں۔لہذاسیاسی ،سماجی، تعلیمی ،معاشی ، تہذیبی اور دیگر شعبوں میں بے شمار نئے چیا لنجس بھی ابھر کر آئے ہیں۔ جن کا سامنا کرنا تمام افراد خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے لیے نا گزیر بن گیا ہے۔

اکیسویں صدی کے چیا لنجس میں، اعلیٰ تعلیم کا حصول ،پیشہ وارانہ ہنر مندی، انفارمیشن ٹکنالوجی میں مہارت،نالج کے ذرائعوں کی بھر پور معلومات اور مسابقتی دور کے تمام شعبوںمیں مقابلہ کر نے کی صلاحیت کافروغ لازم و نا گزیر ہو گئے ہیں تاکہ سماج میں ایک بہتر زندگی گذاری جا سکے ۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک کے سیاسی و سماجی ا ور تہذیبی تناظرمیں ان چیالنجس کی اہمیت سے انکار نہیںکیا جا سکتا۔اس حوالے سے ہندوستانی مسلم خواتین کے موقف کا جائزہ نہایت اہمیت کا حامل لگتاہے ۔

ہندوستان ایک ہمہ مذہبی و کثیر آبادی والا ملک ہے۔ ملک کی کل آبادی کا تقریباً تیرہ فیصد حصہ مسلمان قوم پر مشتمل ہے ۔دستورِ ہند کے مطابق مسلم قوم کو بھی ترقی کے اتنے ہی مساویانہ مواقع اور حقوق حا صل ہیں جتنے کہ اس ملک کے دوسرے شہریوں کو حا صل ہیں۔ با وجود اس کے مسلمانو ں کی حیثیت کے متعلق شائع شد ہ مختلف رپورٹس کے نتا یج ظا ہر کر تے ہیں کہ مسلمان فر قہ مکمل ترقی کے نشانے سے کافی دور ہے اور تقریباً تمام شعبہ ہا ئے حیات میں پچھڑے ہو ئے ہیں نیز وہ اکیسویں صدی کے بدلتے معیارات اور تقاضوں کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ صورتحال بالخصوص خواتین کے معاملے میں نہا یت ابتر اور فکر انگیز ہے۔گذرے برسوں میں قومی و ریاستی سطح پرتحقیقاتی ایجنسیوں اور جا معات و مختلف اداروں کے تحت مسلمانوں کے موقف و مسائل جاننے کی بڑی سنجیدہ کو ششیں ہو ئی ہیںاور نہایت اہم رپورٹس منظرِ عام پر آئی ہیں۔ان ہی میں ایک سچر کمیٹی رپورٹ(۲۰۰۶) بھی ہے۔ جس کے چونکا دینے والے نتائج ہمیں دعوتِ غور و فکر دے رہے ہیں۔اس رپورٹ کے مطابق، ’’ہندوستان کی مختلف ریا ستوں کے مسلمانوںکی حا لت میں خا صا فرق پا یا جا تا ہے…مسلم فر قہ ترقی کے عمل کے تمام شعبوں میں نقصانات اور محرومیوں سے دوچار ہے۔زیرِ غور تمام اشار یوں کے لحاظ سے مسلمانوں کی حا لت کم و بیش ،ایس سی ،ایس ٹی سے کچھ بہتر مگر ہندو اوبی سی ،دیگر اقلیتوں اور عام ہندئوں سے بد تر ہے۔‘‘ (ص۔۲۳۱)

’’سچر کمیٹی رپورٹ‘‘ میں جہاں مجموعی طور پر مسلمانوں کی تعلیمی ،سماجی اور معاشی حیثیت کی افسوسناک تصویر نظر آتی ہے وہیں اس رپورٹ میںمسلم خواتین کے مو قف کے نقوش کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر چیکہ کمیٹی نے خواتین کے مکمل موقف کو جاننے کی با قاعدہ اور منظم کو شش نہیں کی لیکن اس رپورٹ میں جس طرح کے نتائج اخذ کیے گئے ہیں ان سے ہندوستان میں خواتین کے پست ترین مو قف کا اندازہ ضرور لگا یا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مختلف انکشافات سے چند ایک اقتباسات ملا حظہ کیجیے۔

۱۔مسلم خواتین خواندگی اور تعلیم میں ہندوستان کی ایس سی ، ایس ٹی کے علاوہ دیگر پسماندہ خواتین اور دوسری اقلیتی خواتین سے بھی پچھڑی ہو ئی ہیں۔
۲۔شدید غریبی مسلم بچیوں میں تعلیم چھوڑنے کا اصل سبب ہے۔
۳۔زیادہ تر مسلم خواتین گھروں میں رہ کر کیے جا نے والے کا موں سے جڑی ہیں۔اسی لیے وہ دوسروں پر منحصر ہو تی ہیں۔
۴۔عصرِ حا ضر میں گھریلو روزگار ختم ہو نے کی وجہہ سے مسلم خواتین سخت افلاس کا شکار ہیں۔
۵۔گھروں میں رہ کر کام کر نے والی خواتین پیداواری سلسلے کی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
۶۔ مسلم خواتین میںغریبی،تعلیم اور تکنیکی مہا رت میں کمی کے نتیجے میں ہنر مندی نہیں ہو تی ۔جس کے نتیجے میںان کی آمدنی بھی کم ہو جا تی ہے۔
۷۔مسلم خواتین کی صحت کے مسائل ؍ صحت کی ابتری تشویش ناک حد تک بد تر ہے۔
۸۔مسلمان بطورِ خاص خواتین حکو مت کی ترقیاتی اسکیموںتک بالکل نہیں پہنچ پا تے۔
۹۔مسابقتی امتحانوں میں مسلم لڑکیوں کی کارکر دگی دوسروں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔

مذکورہ حقایق سے بخوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں مسلم خواتین تعلیمی،صحتی،سماجی و معاشی طور پر کس حد تک کمزور و پس ماندہ ہیں اور کن مسائل سے دو چار ہیں۔ رپورٹ میں پیش کر دہ ان حقائق کے علاوہ مسلم خواتین کو خاندانی،اور سیاسی و سماجی سطح پر بھی دیگر کئی ایک مسائل کا سامنا ہے۔ جیسے خاندانی سطح پر مسلم خواتین بے شمار عائلی مسائل میںگھری ہو ئی ہیں۔ وہ اسلام کے عطا کیے گئے تمام بنیادی حقوق سے محروم رکھی گئی ہیں۔ شادی ، جہیز کی رسم، طلاق و خلع کے مسا ئل سے سینکڑوں خواتین جوج رہی ہیں۔ مہیلا کورٹس و پو لیس اسٹیشنوںمیں درج کیے گئے کیسس، دارالقضات اور فیملی کورٹس کے دفتر میں مو جود،طلاق و خلع کے ریکارڈز اور برسوں سے زیرِ دوراں مقدمات مسلم معاشرے کے انتشار و خاندانی نظام کی بنیادوں میں دراڑ کی نشاندہی کر رہے ہیں۔جس سے نہ صرف مسلم خواتین کی حیثیت متاثر ہو ئی چلی آرہی ہے بلکہ پورے مسلم معاشرے پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔

ہندوستان میں سماجی سطح پر خواتین کے لیے تحفظ کا نا قص نظام ،فرقہ واریت ، علاقہ واریت ، سماجی تعصبات ،خود مسلم معاشرہ کے ذہنی تحفظات ، صنفی تعصبات و پدر سری نظریات جہاں مسلم خواتین کی تعلیم و ترقی میں رکاوٹ بنے ہو ئے ہیں۔ وہیں خود مسلم خواتین کی فرسودہ خیالی ،احساس ِ کمتری،بے شعوری، اور اپنے وجود کی اہمیت و اپنی صلاحیتوں سے بے نیازی نے بھی مسلم خواتین کو متاثر کر رکھا ہے ۔الغرض ایسے کئی عوامل رہے ہیں جو عرصہ درازسے مسلم خواتین کی پسماندگی کا با عث بنے چلے آرہے ہیں۔مسلم خواتین کے اس خراب سماجی موقف میں جدید تقاضوں کے مطابق چیلینجس کا مقابلہ کر نے کی صلاحیت کی توقع کر نا کسی بھی طرح سے مناسب معلوم نہیں ہو تا۔ ایک طرف مسلم خواتین کی ناخواندہ ،فر سودہ حال ،بے شعور و بے اختیار اور متاثرہ فرد کی حیثیت سے تصویر آج کی حقیقت بن کر ہمارے سامنے مو جودہے تو دوسری طرف مو جودہ دور کی ہی اس تصویر کی نشاندہی بھی ضروری لگتی ہے جس میں ہم مسلم خواتین کو تعلیم یافتہ، با شعور و با اختیاراور مختلف شعبوں سے وابستہ کا میاب و کامراں مسلم خواتین کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مسلم خواتین کا یہ تبدیل شدہ مو قف یا ایسی خواتین کے اعداد و شمار نہایت ہی قلیل ہیں۔ انھیں عمومی نقطئہ نظر سے نہیں پرکھا جا سکتا۔ جبکہ شہری اور دیہی سطح پر مسلم خواتین کی مجموعی صو رتحال مختلف نو عیت کی اور تشویشناک حد تک خراب ہے۔

ہندوستان میں مسلم خواتین کی پست حیثیت و زبوں حالی کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہو تا ہے کہ مذہبِ اسلام نے خواتین کو تمام بنیادی حقوق جیسے ،زندہ رہنے کا حق،تعلیم حا صل کر نے حق، وراثت کا حق، اقتصادی طور پر خود مکتفی ہو نے کا حق ،فیصلہ سازی کا حق،اور اظہارِ رائے کی آزاد ی کا حق دے کر مردوں کے برابرمعاشرہ کی اہم فرد کا درجہ عطاء کیااور اسے تعلیم و ترقی اور ایک با وقار زندگی گذارنے کے تمام مواقع دیے۔ جبکہ ہندوستانی دستور اور قوانین میں بھی مسلم خواتین کو تمام مراعات ،حقوق اور تحفظ حاصل ہیں ۔ نیز انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے ابتدائی دہوں سے لے کر عصرِ حاضر تک مختلف سطحوں پر مسلم خواتین کی حیثیت کو بہتر بنا نے کی مقدور بھر کو ششیں بھی ہو تی رہی ہیں۔باوجود ان تمام حقوق و مراعات اور عملی کو ششوں کے ہندوستان میں مسلم خواتین کی پسماندہ حیثیت کا آخر جواز کیا ہے؟ ہندوستان میں مسلم خواتین کی ابتر صورتِ حال کی مو جو دہ شبیہ دراصل عصرِ حا ضر میں ایک اہم غور طلب مسئلہ بن گئی ہے۔اور یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ حد درجہ پست حیثیت کی مالک مسلم خواتین دورِ حا ضر کی مادی ضرورتوں کی تکمیل نیز بہتر سماجی زندگی کے تقاضوں کو کس طرح سے پورا کر پائینگی اور اکیسویں صدی کے چیالنجس کا سامنا کس طرح کر پا ئینگی۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر کئی ایک سوال پیدا ہو تے ہیں کہ، کیا مسلم خواتین ہندوستانی سماج میں اپنے خراب موقف کا ادراک و احساس رکھتی ہیں؟اوراپنی حیثیت کی تبدیلی وبہتری کے لیے کو شاں ہو نے کی فکر رکھتی ہیں؟ کیا مسلم خواتین عصرِ حا ضر کے سیا سی ،سماجی، تعلیمی ،معاشی ، اور دیگر شعبوں میں پیش آنے والی تبدیلیوں سے خود کو ہمکنار کر نے کا ہنر نہیں سیکھ سکتیں ؟ کیا مو جودہ دور کے چیا لنجس کا مقابلہ کر نے کے لیے خود کو تیار نہیں کر سکتیں؟

ان سوالات کے مکانی جوابات یہی ہو سکتے ہیں کہ یقیناً مسلم خواتین کے لیے سب کچھ ممکن ہے ۔ماضی کی مختلف شعبوں میںکا میاب وکامراں اور فعال خواتین کی طرح وہ بھی سماج میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب مسلم خواتین اپنی سوچ بدلنے کی کو شش کرینگی۔ خود کو مجبور و بے بس اور سماج کی’’ غیر فعال فرد‘‘ سمجھنے کے بجائے اپنے ’’وجود‘‘ کی اہمیت کو سمجھ پاینگی ۔ اور اپنے مو قف کی تبدیلی کے لیے دیگر ذرایعوں کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ذمہ دار بناینگی۔اپنے اندر بسنے والی ’’ خود مجا زیت (Self Empowerment) ‘‘ کی طاقت کو پہچان پا ئینگی اوراس حقیقت کو جا ن لینگی کہ ــ’’ مجازیت ‘‘ انسان کے وجود میں ہی بستی ہے ۔کوئی بیرونی طاقت اسے مہیا نہیں کرسکتی ۔ہمیں خود اسے اپنے اندر تلاش کر نا پڑتا ہے

اور دستیاب وسائل و ذرائعوں سے مستفید ہو تے ہوئے ’’ خود مجازیت ‘‘ کے فروغ کی شعوری اور عملی کو ششیں کر نی پڑتی ہیں ۔ جس کے نتیجے میں ہی انسان کو ’’شعور کی دولت ‘‘ اور ’’ با اختیاری‘‘ حاصل ہوتی ہے اور ’’ با شعور و با اختیار افراد ‘‘ ہی سماج و معاشرہ کے بدلتے تقاضوں اور نئے چیالنجس سے مقابلہ کر نے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں اور اپنی حکمت عملیوں سے کا میاب ہو تے ہیں۔ اس تمام بحث کے تناظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ اکیسویں صدی کے درپیش چیالنجس میں مسلم خواتین کا سب سے بڑا چیلنج خود اپنے ’’ وجود کی اہمیت‘‘ و ’’خود مجازیت ‘‘ کو پہچاننا ہے اور ہندوستانی سماج میں ان کی’’ مسخ شدہ شبیہ‘‘ کو بہتر بنانے کی کو شش کر نا ہے۔ نیز مذہبِ اسلام میں انھیں دیے گئے اہم مقام و مرتبہ کو سمجھنا اور شرعی حقوق سے بھر پور واقفیت حاصل کر نا ہے اور اپنے دستوری و قانونی حقوق کا استعمال کرتے ہو ئے ، تعلیم یا فتہ ، ہنر مند ،با شعور و با اختیار سماجی فرد کی حیثیت سے ہندوستان میں اپنی بہترین شناخت قائم کر نی ہے۔
amtahseen123@yahoo.com