اکڑی گردنوں والے قائدین

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
آندھراپردیش کے اکڑی گردنوں والے چند قائدین یہ سمجھتے رہے کہ یہ ملک اور پارلیمنٹ ان کی مٹھی میں ہے ۔ جب تک ہم احتجاج کرتے رہیں گے تلنگانہ ہرگز نہیں بنے گا ۔ تلنگانہ تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے کئے گئے احتجاج کے خطوط پر سیما آندھرا میں بھی احتجاج ہوا جو ایک فضول ترین عمل تھا اور احتجاج کرنے والا یہ فضول ترین لیڈر سمجھا جانے لگا تھا ۔ اس ملک میں جہاں وزیراعظم کے قاتلوں کو بخشنے کی باتیں ہوتی ہیں وہیں پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے کے الزام میں کسی کو پھانسی دی جاتی ہے تو اس انصاف کے امتیازات کے آئینہ میں یہ سمجھنا یا یقین کرنا احمقانہ کی بات ہوگی کہ حکومت کوئی حتمی فیصلہ کرے گی ،

کسی فرد کی خواہش کو کچل کر دوسرے کی آرزوؤں کو جلا بخشے گی جبکہ احتجاج کرنے والوں کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ جس چیز کے لئے جس کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں اصل اس کا منشاء و مقصد کیا ہے، آیا وہ بھی ان سے زیادہ مفادات کا پجاری ہے ۔ اگر یہ حکمراں طبقہ بے لوث خدمت کرنے کا جذبہ رکھتا ہے تو وہ کسی کے ساتھ بھی ناانصافی ہونے نہیں دے گا لیکن جب حکمراں کی حیثیت ہی چھین لینے اور ڈوبا دینے کی ہو تو پھر اپنے اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کرنے والے دونوں فریقوں کو کچھ نہیں ملے گا ، سوائے انگھوٹھے کہ حکومت کے رویہ کے بارے میں کسی حد تک جانکاری رکھنے کے باوجود اگر احتجاج کرنے والے دو فریق اس سے کچھ امید لگائے بیٹھتے ہیں تو اسکا مایوس کن اختتام ہونا ضروری ہے۔ اس ملک میں عوام نے اپنے مطالبات کیلئے لاکھ احتجاج کیا ہو لیکن عام آدمی کی کون سنتا ہے ۔

بس لوگ پھر یہی کہتے ہیں کہ اس احتجاج سے کچھ نہیں بنے گا، کتنے ہی لوگ جن کے پاس غیر مہذب احتجاج کرنے کی طاقت ہی نہیں ہے ، کتنے ہی لوگ میں جو غیر مہذب احتجاج کرنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتے ، پھر بھی پارلیمنٹ میں چند ارکان نے دکھادیا کہ غیر مہذب احتجاج کیا ہوتا ہے ۔ ان ارکان نے قومی عزت کی پھٹی چادر کیا ہوتی ہے یہ دکھادیا ہے ۔ پارلیمنٹ کی رسوائی کا پرچم پوری دنیا میں لہرایا گیا ہوگا ۔ لوگ بھوک ، افلاس ، بیروزگاری ، مہنگائی سے پریشان ہیں اور سیما آندھرا کے ارکان پارلیمنٹ کو اپنی پڑیی تھی ۔ تلنگانہ ہو کہ آندھرا بلکہ اب مہاراشٹرا کے ودربھائی گلی ، محلوں ، محفلوں میں علحدگی کی باتیں ہورہی ہیں؟

اخباروں کی سرخیاں اپنا سر پیٹ رہی ہیں۔ ٹی وی چیانلس اپنے اپنے انداز کے قلا بازیاں دکھاتے رہے پھر تلنگانہ بل پارلیمنٹ میں منظور ہوا تو شام ہوتے ہی آندھرائی ٹولوں کی صدائیں بھی دم توڑنے لگیں۔ یہاں اب تلنگانہ کیلئے دی گئی قربانیوں اور ان کی مظلوم ماوؤں کی آہیں و صدائیں مسرت کے گیت گانے لگیں۔ غیر مہذب احتجاج کرنے والوں نے اپنے ٹولے کو بکھرتا دیکھ کر اکیلے میں طلسماتی قہقہے بھی لگاتے ہوں گے ۔ گورنر کے پاس جب چیف منسٹر کرن کمار ریڈی اپنا استعفی لے کر پہونچے تو راج بھون کے سبزہ زار پر تلنگانہ کی رات کی رانی مہک رہی تھی۔ راج بھون سے اب دونوں ریاستوں کی سرکاریں چلائی جائیں گی تو مطلبی قائدین کیلئے یہ راج بھون بھی ایک مسحور کن مرکز بنے گا ۔ گورنر راج ہو یا صدر راج ، اب سیاستدانوں کو دربانوں کے روپ میں دیکھا جائے گا ۔ یہ لوگ قطاریں بناکر فرمانبردار غلام ہاتھ باندھے احکام کے تابع رہیں گے ۔ کرن کمار ریڈی نے جب چیف منسٹر کیمپس آفس کا تخلیہ کیا تو ان کی قبل از وقت کی گئی تیاری نے انہیں مایوسانہ منتقلی کے بجائے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اپنی رہائش گاہ جانے کا موقع ملا۔ کیمپ آفس میں کل تک ایس سر ایس سر کی آوازیں آتی تھیں، اب سناٹا ہے ۔ اب یہی سرگوشیاں راج بھون میں سنی جائیں گی۔

جہاں دھوتی بردار لوگ ایس سر ایس سر کے دبی آواز میں مرکز کے گیت گائیں گے ۔ کرن کمار ریڈی کیلئے کل تک جو تھا گزر گیا ، اب آندھرائی قائدین کو بھیڑ بکریوں کی طرح مئے مئے بے بے سے اپنا اور اپنے عوام کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے بلکہ اپنے مہذب پن کا احیاء کرتے ہوئے مہذب محفلیں سجاکر عوام کی بہبود کی فکر کرنی چاہتے ۔ تلنگانہ بھی ان کیلئے اتنی اہم جگہ ہے جتنی وہ آندھرا کو سمجھتے ہیں۔ آپ اپنی نیک نیتی کا مظاہرہ کر کے یہاں رہئے اور بعض کینہ اور حسد ترک کردیتے تو اس سے ذہن اور قلب کے سارے دھبے دھل جائیں گے اور احتجاج کی آوازیں گم ہوجائیں گی ۔ مسکرایئے اور تلنگانہ والوں کی خوشیوں میں شامل ہوجائے کیونکہ چند پیسوں اور حقیر مفادات کی خاطر انہوں نے اپنی ساری زندگی گنوادی ہے ۔ اب عوام کی خدمت میں مشغول ہوجائے ۔

تلنگانہ بل کو قانونی الجھنوں میں چکڑنے کا منصوبہ افسوسناک تھا ۔ دستوری ترمیم کے بغیر تلنگانہ بل کی منظوری کو ایک بڑی غلطی سمجھا جارہا تھا ۔ لوک سبھا کی طرح بی جے پی نے راجیہ سبھا میں اپنی وفاداری دکھائی۔ دستوری ترمیم کا مطالبہ یا تنازعہ حل کرنے کیلئے وزیراعظم منموہن سنگھ نے آخر تک کوشش کی۔ تلنگانہ کا مسئلہ کوئی کرکٹ کا سیمی فائنل تو تھا نہیں مگر سیاستدانوں نے اسے لوگ سبھا ، راجیہ سبھا اور صدر جمہوریہ سے پھر دستوری ترمیم کے چوکھٹوں پر بٹھاکر سیمی فائنل تک گھسیٹا تھا ۔ جب تک تلنگانہ بل لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا اس وقت تک ریاستی اور قومی سطح کی سیاست کی ہر شاخ پر نجومی بیٹھے قیاس آرائیاں کرتے رہے تھے ۔ کہنے لگے تھے کہ تلنگانہ بنانے کیلئے مضبوط ارادوں کی ضرورت ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے۔ ایوان میں مضبوط مظاہرہ کرے۔ تلنگانہ کو فائنل تک لے جانے کے باوجود آندھرائی قائدین اس کو ناکام بنانے کے حربے اختیار کرتے رہے تھے ۔ ان کا سیاسی کلچر بھی عجب دکھائی دیا ۔ اگر اس ملک میں جمہوریت نہیں ہوتی تو سب اپنے داؤ پیج دکھاکر بازی مارنے کی کوشش کرتے ۔ ایک دوسرے کی گردن مروڑنے اور تلنگانہ عوام کو لوٹنے کی عادت ترک نہیں کریں گے ، یہ ان کا مقصد تھا۔

شہر حیدرآباد کو لیکر ان کے ٹھیکیداری نظام کو برخاست کرنا ہوگا ۔ شہر کو سیاستدانوں نے اپنے مطلب سے تباہ و برباد کیا ہے۔ جب سے شہر کو گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کا لقب ملا ہے ، کارپوریٹرس نے اسے بدتر بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ بلدیہ جب تک سیاستدانوں ، گلی کے لیڈروں سے پاک تھی شہریوں کو وہی صاف ستھرا ماحول دستیاب تھا ۔ بلدی انتخابات کے ذریعہ گلی کے لیڈروں اور کارپوریٹر نے فرائض انجام دینا شروع کیا تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کے اطراف و اکناف گلی محلے ، سڑکوں پر کتنی پریشان کن صورتحال پیدا ہورہی ہے ۔ اب گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے اپنا سالانہ بجٹ بھی منظور کرلیا ہے ۔ غریبوں کو کھانا کھلانے کیلئے شہر میں 50 مراکز قائم کئے جائیں گے جہاں غریبوں کو 5 روپئے میں کھانا ملے گا ۔ اس کیلئے بلدیہ نے اپنے 4599 کے مصارف بجٹ میں سے 11 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔

اگر بلدیہ کی نیت صاف طریقے سے پوری ہوتی ہے تو واقعی غریبوں کے لئے یہ فائدہ مند ہے مگر یہ غریب وہیں ہوں گے جو بجٹ ہڑپنے کیلئے ایسے سستے کھانے کے مراکز کے گتے حاصل کریں گے پھر سارا مال اندر کرلیا جائے گا تو غریبوں کو ٹھینگا ملے گا ۔ 80 کے دہے میں بھی اس وقت کے وزیر سیول سپلائیز وینکٹ سوامی نے سستا کھانا فراہم کرنے کی مہم چلاتے ہوئے 3 روپئے میں بریانی کی اسکیم نکالی تھی۔ فاسٹ فوڈ کا رواج بھی اسی وقت زور پکڑا عابڈس پر فاسٹ فوڈ کی بنڈی اب بھی گاہکوں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ سستے کھانے کی اسکیم کو این ٹی آر کے دور میں بھی شروع کیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس خطوط پر اناپورنا کینٹین قائم کرکے غریبوں کیلئے 1.25 روپئے اڈلی وڈا اور دوسا اور 2.50 روپئے میں کھانا دینے کی مہم چلائی تھی۔ رفتہ رفتہ انا پورنا کیٹین برخاست ہوگئیں ، بلدیہ نے اب 5 روپئے میں کھانے کی اسکیم شروع کی ہے تو یہ اسکیم بجٹ پر ہاتھ صاف کرنے والوں کی نذر ہوجائے گی ۔ جی ایچ ایم سی کے بجٹ اور منصوبہ مصارف سے تو شہر کی ترقی کا خوبصورت خاکہ سامنے آتا ہے لیکن اس پر دیانتدارانہ عمل مشکل ہے۔
kbaig92@gmail.com