اکشے کمار کے ساتھ مودی کا انٹرویو اپنے میاں مٹھو کے مترادف

وشنوناگر
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو ویسے تو سیاست میں کئی ایک کاموں کیلئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس میں کالا دھن 100 دن میں ہندوستان واپس لانے،نوجوانوں کو سالانہ کروڑہا ملازمتیں فراہم کرنے کے وعدوں اور نوٹ بندی جیسے غیر ذمہ دار فیصلے سرفہرست وجوہات ہیں لیکن ان سب سے زیادہ انہیں سیاسی میدان کے ایک بڑے اداکار کے طور پر کوئی نہیں بھولے گا کیونکہ جس طرح انہوں نے پارلیمانی انتخابات کے دوران بالی ووڈ کے ایکشن اور کامیڈی اداکار اکشے کمار کو انہوں نے جس انداز میں انٹرویو دیا ہے اس دوران انہوں نے اپنے کارناموں کو کسی ہیرو کے ایکشن سے کم قرار نہیں دیا حالانکہ وہ خود کسی کامیڈی سے کم نہیں ۔ویسے اکشے کمار کے سامنے نریندر مودی جیسا عظیم اداکار ہو تو کوئی مسئلہ نہیں آتا، ہمارے وزیر اعظم کے آگے اداکاری میں اکشے کمار تو کیا امیتابھ بچن اور شاہ رخ جیسے لیجنڈ اداکار بھی ناکام ہیں! بچن جی تو ایک مرتبہ ہی انتخابی میدان میں حصہ لیا جبکہ مودی 17 سال سے ایک ہی رول کر رہے ہیں اور بور بھی نہیں ہو رہے ہیں، ویسے بور نہ ہونا بھی ایک فن ہے۔تاریخ مودی جی کو وزیر اعظم کے طور پر تو جلدی بھول جائے گی لیکن سیاست کے عظیم اداکار کے طور پر ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا اور ایسے لوگ بھی ہمیشہ رہیں گے، جو کہیں گے کہ بندے نے غلط لائن پکڑ لی تھی، اگر صحیح لائن پکڑتا تو آج کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہوتا! اس سے ملک بھی بچ جاتا اور ساتھ میں مودی جی کا کیرئیر بھی بن جاتا۔ویسے یہ کسی بھی بھاجپائی کے لئے فخر کی بات ہے کہ اس کی پارٹی کے وزیر اعظم کو لوگ وزیر اعظم کے طور پر نہیں، سیاست کے ’عظیم اداکار‘ کے طور پر یاد رکھیں گے، تاہم، آج کل عظیم لوگوں کی بھی اتنی بھیڑ ہے کہ عام لوگ ان کو دھکا دے کر آگے نکل جاتے ہیں،

انہیں پہچانتے تک نہیں، ان میں سے اکڑ کے کوئی کہتا ہے کہ اے تیرے کو پتہ نہیں کہ میں عظیم اداکار ہوں تو لوگ دو تھپڑ جماکر انہیں ان کا مناسب احترام دے دیتے ہیں۔پھر بھی، میں اکشے کمار کے ذریعہ مودی جی کا انٹرویو دیکھ کر حیران تھا کہ اے خدا میں کتنا بڑا گنہگار ہوں، مجھے تو جہنم کی ویٹنگ لسٹ میں بھی جگہ نہیں ملے گی، کیونکہ میں دنیا کی چکاچوند میں کتنے ’صحیح‘ آدمی کی میں کتنے ’غلط‘ انداز میں گزشتہ پانچ سالوں سے تنقید کرتا آ رہا ہوں اور ابھی تک تھکا نہیں ہوں!اتنا بھولابھالا، اتنا سخی، اتنا سادھو، اتنا محنتی، سیاست کے مکر و فریب سے بہت دور، تحمل کا مجسمہ، جس کے دوستوں کی قطار کانگریس سمیت تمام جماعتوں میں لگی ہوئیں ہیں، جو اپنے عملے کا بہت خیال رکھتا ہے، ایسے صوفی صفت آدمی کی میں اور میری طرح کی دیگر لوگ مذمت کرتے رہے اور یہ صوفی صفت انسان سب کچھ دیکھتا، سنتا اور سہتا رہا! کتنے بڑے دل و دماغ کا آدمی ہے یہ! نہرو جی بھی شاید اتنے بڑے نہ رہے ہوں! ہائے ہائے، یہ کیا ہوا رے مجھ سے، کیسے غلطی ہوئی! بھگوان مجھے جہنم میں تو جگہ دے ہی دینا!سوچا کہ گناہ معاف کروانے کے لئے اب مندر کیا جاؤں، براہ راست بی جے پی میں ہی شامل ہوجاؤں، آج کل کا مندر وہی ہے۔ سوچا کہ ادت راج نامی ایک دلت چوکیدار کی جو ایک پوسٹ خالی ہوئی ہے، اس پر دلت نہ ہوکر بھی قبضہ کرلوں، لیکن خیال آیا کہ اس پوسٹ کو تو فوری طور پر ہنس راج ہنس جی پہلے ہی قبضہ کر چکے ہیں، میں اب کیا آرتی گا کر گڑ-چنے کا پرساد لینے بی جے پی میں جاؤں گا! وہاں جاکر مورکھ (بیوقوف) بن جاؤں گا!میں بی جے پی میں نہیں جاؤں گا، میں اپنی امّاں کے پیر کیمرے کے سامنے نہیں چھوؤں گا، میں یہ کہہ کر بھول نہیں جاؤں گا کہ فوجیوں زیادہ بہادر تاجر ہوتے ہیں اور پھر فوجی کی تعریف میں اس طرح گیت نہیں گاؤں گا کہ جیسے میں اپنا ہی گیت گا رہا ہوں۔میں بنارس جا کر اس بار ماں گنگا نے بلایا ہے نہیں کہوں گا، گنگا کو بھول کر آل بھیرو کی خدمت میں لگ جاؤں گا اور کہوں گا کہ مجھے چوکیدار آل بھیرو نے بنایا ہے، میں آدتیہ ناتھ اور امیت شاہ کو اشارہ نہیں کروں گا کہ تم لوگ ہندوستانی فوج کو کھل کر مودی کی فوج کہو۔ کوئی طاقت تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، کیونکہ طاقت کا واحد ذریعہ مودی ہے اور صرف مودی!خیر ہماری بھولی بھالی عوام جلد ہی بہت کچھ بھول جاتی ہے لہذا ان کی یادداشت کو کچھ ورزش کروانے کیلئے یاد دلادوں کہ مودی نے اکشے کمار کے ساتھ کیا بات کی تھی اور کس طرح اپنے منہ میاں مٹھو بنے تھے۔وزیر اعظم نریندر مودی سے ایک غیر سیاسی انٹرویو میں اکشے نے ان سے بڑے ہی معصومانہ سوال کیے جیسے کہ وہ آم کھاتے ہیں یا نہیں اور اگر کھاتے ہیں تو کاٹ کر یا گھٹلی کے ساتھ کھاتے ہیں۔ جواب میں مودی جی نے بھی بڑے بھولے انداز میں کہا کہ آم انھیں بہت پسند ہیں اور انھوں نے خوب آم کھائے ہیںکیونکہ ملک کے کسان بڑے دل والے ہیں اور اپنے باغ یا کھیتوں سے کھانے کا سامان مفت ہی دے دیا کرتے تھے۔ معلوم نہیں یہاں مودی جی نے بیچارے کسانوں کا ذکر کیوں کیا جو پچھلے پانچ سال میں مالی بدحالی کے سبب خود کشی پر مجبور ہو گئے ہیں اور جو اپنے چھوٹے چھوٹے مطالبات منوانے کے لیے دہلی کے جنتر منتر علاقے میں اپنے مردہ ساتھیوں کی کھوپڑیوں کے ساتھ احتجاج کرتے رہے اور حد یہ ہوئی کہ ان پر پولیس نے ظلم کیا۔مودی جی نے کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد کو اپنا دوست قرار دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ جب بی جے پی کے سینئیر رہنما مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کی دھمکی دیتے ہیں تو وہ خاموش کیوں رہتے ہیں۔مودی جی نے بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کی بات بھی کی کہ وہ ان کے لئے اکثر بنگالی مٹھائی بھیجتی ہیں لیکن اس بارے میں کچھ نہیں کہا کہ ہندوستانی ریاست آسام میں 40 لاکھ مسلمانوں کو غیر ملکی بتا کر بنگلہ دیش دھکیلنے کی بات کو ان کی پارٹی انتخابی موضوع کیوں بناتی ہے۔
بس یہ سب مکالمہ سننے کے بعد بالی ووڈ کی مشہور فلم شہنشاہ میں امیتابھ بچن کا وہ مکالمہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ہماری زبان سے بے ساختہ نکل جاتاہے کہ ’’اداکاری میں تو ہم تمھارے باپ ہوتے ہیں نام ہے نریندر مودی !