اچھے دن آنے والے ہیں

میرا کالم سید امتیاز الدین
پچھلے دیڑھ دو مہینے سے ہم جیسے بے کار آدمی کی زندگی میں بھی ایک طرح کی مصروفیت اور دل بستگی کا سامان تھا ۔ پورا ملک ہمیں شادی کا گھر لگ رہا تھا جس طرح شادی کے موقع پر روپئے پیسے کا بے اندازہ خرچ ہوجاتا ہے ۔ اس الیکشن میں بھی بے دریغ خرچہ ہوا ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان ایک غریب ملک ہے ۔ ٹی وی کے ڈراموں کی مقبولیت ، الیکشن کی قیاس آرائیوں بلند بانگ دعوؤں اور جوشیلی تقریروں کے مقابلے میں ماند پڑگئی تھی ۔ ہم صبح سے شام تک ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہتے۔ امیدواروں کے ناموں کے ساتھ ہمیں اشتہارات بھی ازبر ہوگئے تھے ۔ اب ہم آپ کو یہ بتلانے کے موقف میں ہیں کہ کونسی بنیان ، کونسا صابن اور کس برانڈ کی چائے آپ کے گھر کیلئے ضروری ہے۔ کس چپل کو پہن کر اور کس موٹر سیکل پر سوار ہوکر آپ دنیا کے سفر پر نکل سکتے ہیں۔ پہلے الزام تراشی اور دشنام طرازی کے فن لطیف سے ہم ناآشنا تھے لیکن اب ماشاء اللہ اس قابل ہیںکہ ہر کس و ناکس کو ہدفِ ملامت بناسکتے ہیں۔

یہ بات بھی درست ہے کہ 17 مئی کے بعد سے ہماری زندگی میں ایک ٹھہراؤ سا آگیا ہے ۔ ایسا ٹھہراو ، ایسی حاموشی ہم نے اس وقت بھی محسوس نہیں کی تھی جب ہم اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے تھے ۔ ٹی وی ہم آج بھی دیکھتے ہیں۔ اخبار آج بھی پڑھتے ہیں لیکن اب وہ مزہ نہیں آتا۔
اس بے کیفی کے عالم میں بھی ایک بات ایسی ہے جو مجھے پرامید رکھتی ہے۔ ’اچھے دن آنے والے ہیں‘ ۔ اچھے دن کیسے ہوتے ہیں ہم خود نہیں جانتے۔ اصل میں اچھے دنوں کا تصور ہر ایک کے ساتھ بدلتا رہتا ہے ۔ جب ہم نے اپنے پوتوں سے کہا کہ اچھے دن آنے والے ہیں تو ان بچوں نے خوش ہوکر پوچھا ، کیا اس بار گرمی کی چھٹیاں بڑھادی جائیں گی اور اسکول 11 جون کی بجائے 11 جولائی کو کھلے گا۔ بیوی نے اچھے دنوں کی آمد کی اطلاع پر سوال کیا کہ کیا اس کی پاکٹ منی میں اضافہ ہوجائے گا ۔ خود ہم ہر صبح جب گھر سے باہر نکلتے ہیں تو احتیاطاً ایک نظر اسمان پر ڈال لیتے ہیں کہ کہیں آج کا سورج کل سے کچھ الگ تو نہیں ۔ ایسے میں ہم کو سعادت حسن منٹو کا افسانہ نیا قانون یاد آجاتا ہے جسے فی الحال ہم اختصار کے ساتھ بھی نہیں دہراسکتے کیونکہ اس کا پلاٹ پوری طرح خود ہمیں بھی یاد نہیں۔

اس وقت ہمارے سامنے چہروں کا ہجوم ہے۔ بہت سے چہرے کنول کی طرح کھلے ہوئے ہیں ۔ بہت سے چہرے بے رونق اور مرجھائے ہوئے لگتے ہیں کیونکہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ کامیابی اور ناکامی کا فرق ظاہر ہے۔ ایسے میں بعض لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی ناکامی کے اسباب کیا ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ابھی ہم اپنا محاسبہ کر رہے ہیں۔

محاسبے پر ہمیں اپنے ایک دوست یاد آگئے۔ موصوف اپنی طرز کی واحد شخصیت تھے ۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ ساتویں جماعت کے بعد انہوں نے کوئی امتحان پہلی کوشش یا فرسٹ اسٹیٹ میں کامیاب نہیں کیا تھا ۔ یہ نہیں کہ ان کو پڑھنے کا شوق نہیں تھا۔ ہر دو سال میں جب وہ نئی کلاس میں جاتے تو نئی کتابیں خریدنے سے پہلے اساتذہ سے مشورہ کرتے کہ انہیں کونسی کتابیں خریدنی چاہئیں۔ ان کے اساتذہ ان کو مخلصانہ مشورہ دینے کے فلاں کتاب خریدو۔ یہ تمہیں سالانہ امتحان میں بھی کام دے گی اور سپلیمنٹری امتحان میں بھی کام آئے گی ۔ اس طرح ان کے جونیئر ان کے ہم جماعت بنے ۔ پھر ان سے سینئر ہوگئے ۔ یہاں تک کہ ان کے استاد بن گئے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے گریجویٹ بننے میں ان کے انہی کم عمر اساتذہ کی کوششیں شامل تھیں۔ ان کے تعلیمی سفر کی رفتار کو دیکھتے ہوئے ان کے والدین نے ان کی شادی اسی وقت کردی تھی جب کہ وہ انٹرمیڈیٹ سے الجھے ہوئے تھے ۔ جب وہ اپنے ایک بزرگ استاد کو شادی کا رقعہ دینے گئے تو بزرگ استاد نے ازراہ نصیحت کہا ’میاں پہلے بی اے تو کرلیتے‘‘ ہمارے دوست نے دست بستہ عرض کیا ’حضور ! گو کہ آپ میرے محترم استاذ ہیں لیکن میں آپ پر یہ نکتہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ شادی کا تعلق تعلیم سے نہیں عمر سے ہے‘۔ خیر بات محاسبے کی چل رہی تھی ۔ ہمارے یہ دوست ہر امتحان میں ناکامی کے بعد اپنا محاسبہ کرتے تھے لیکن خود کو کبھی موردِ الزام نہیں گردانتے تھے ۔ ہمیشہ یہی کہتے کہ امتحان کے دنوں میں اکثر بجلی چلی جاتی تھی یا گھر میں اتنے مہمان تھے کہ یکسوئی سے پڑھنے کی جگہ نہیں تھی۔

ہمارے ملک کی تاریخ ساز جماعت بھی اس تاریخی ناکامی کا محاسبہ کر رہی ہے ۔ اس کے قائدین بھی کہتے ہیں کہ ہم اپنی ناکامی کے اسباب کھوجنے میں لگے ہیں ۔ ہماری سیاسی سوجھ بوجھ صفر کے برابر ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ کام آج سے تین یا چار سال پہلے شروع کردیا جاتا تو شاید آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ جب اس کا یا ’’گھٹالے‘‘ اور بڑی بڑی رقموں کی ہیرا پھیری اتنی بڑھ جائے کہ ان رقموں کی مقدار ہندسوں میں لکھنے کی بجائے الفاظ میں لکھنے کی نوبت آجائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ پانی سر سے اونچی ہوچکا ہے ۔ ہر حکومت کو پہلے عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا چاہئے ۔ بیرونی ممالک سے تعلقات بہتر ہوگئے ۔

مواصلاتی نظام عصری ہوگیا۔ معلومات کا حق حاصل ہوگیا وغیرہ۔ اچھی باتیں ہیں لیکن بے قابو مہنگائی ، رشوت ستانی سب پر پانی پھیردیتی ہے ۔ کبھی کبھی تو پیاز جیسی معمولی چیز تختے الٹ دیتی ہے ۔ عجیب و غریب ، ناقابل فہم اسکیمات لوگوں میں جھنجھلاہٹ اور بیزاری پیدا کردیتی ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال ملاحظہ ہو جو ابھی تک ہمیں حیرت زدہ کئے ہوئے ہے ۔ گیس سلینڈر اج کل غریب لوگوں کے گھروں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ یہ لوگ بڑی مشکل سے ایک سلینڈر کی قیمت کا انتظام کرتے ہیں۔نئی اسکیم کے تحت گیس سلینڈر کو آدھار کارڈ سے اور آدھار کارڈ کو بینک اکاؤنٹ سے مربوط کیا گیا ۔ غریب آدمی پہلے بینک اکاؤنٹ کھولے پھر دوگنی قیمت دے کر سلینڈر حاصل کرے ۔ اس کے بعد بینک کے چکر کاٹے اور اپنی دی ہوئی زائد رقم حاصل کرے ۔ ہم آج تک سمجھ ہی نہیں سکے کہ اس اسکیم میں کس کا فائدہ پیش نظر تھا ۔ اسی طرح جب پچھلے سال ریاستی انتخابات ہوئے اور نتائج سامنے آئے تو نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کی ضرورت تھی ۔ دال چاول اور سبزی کی طرح پٹرول بھی ایک عوامی ضرورت ہے ۔ جب ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں تو بیزاری کا پھیلنا یقینی تھا ۔ سونے پر سہاگہ ، اس ڈوبتی ہوئی کشتی میں ’’آپ‘‘ بھی اپنے لاو لشکر کے ساتھ سوار ہوگئے ۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تجھ کو بھی لے ڈوبیں گے والی بات ہوگئی ۔ ایسی کھلی ہوئی حقیقتوں کا محاسب اگر آپ آج کرنے بیٹھیں تو یہ بعد از وقت مشق ثابت ہوگی۔
ان سب باتوں کے پیش نظر آج اگر کوئی جماعت ’ اچھے دن آنے والے ہیں‘‘ کا نعرہ لگاکر برسر اقتدار آئی ہے تو تعجب کی بات نہیں۔ مودی مخالف پارٹیوں نے اپنے کارنامے بیان کرنے کے بجائے خود نریندر مودی کا ایسا ہوا کھڑا کیا کہ بجائے مخالفت کے تائید اور مقبولیت کی فضاء ہموار ہوئی ۔ مودی جی اپنے وعدوں میں کتنے کامیاب ہوں گے اور اچھے دن لانے میں انہیں کتنے دن لگیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال ہم کو غالب کا ایک شعر یاد آرہا ہے ؎

ہوں گرمئی نشاطِ تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشنِ تا آفریدہ ہوں
بہرحال ، اچھے دن کون نہیں چاہتا۔ ہم بھی اپنے پیدائش کے بعد سے اچھے دنوں کی تلاش میں ہیں۔ اب ہم عمر کی اس منزل میں ہیں کہ اگر اچھے دن آ بھی جائیں تو شاید ہم اچھے دنوں کا غروبِ آفتاب دیکھ سکتے ہیں۔ الیکشن کے نتائج کا مختلف لوگوں پر مختلف اثر ہوا ہے ۔ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جو انگریزی کے اس مقولے پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر سیاہ بادل کے ساتھ چاندی کی لکیر ہوتی ہے۔ قبل از وقت بدگمانی کے ہم قابل نہیں۔ جو شخص یہ کہے کہ ’سب کا ساتھ اور سب کی ترقی‘ تو اس کو اپنی بات ثابت کرنے کا موقع دینا چاہئے جو آدمی ایوانِ حکومت کی سیڑھیوں پر ماتھا ٹیک دے ، جو شدتِ جذبات سے مغلوب ہوسکتا ہو اور جس کی آنکھوں میں آنسو بھی آتے ہوں تو اسے بھی انسانیت کی علامت سمجھنا چاہئے ۔
ہمارا یہ راسنج عقیدہ ہے کہ حاکم وقت اپنی جگہ رہتا ہے لیکن احکم الحاکمین ہر جگہ ہے ۔ اس کا حکم ہر لمحہ اور ہر جگہ چلتا ہے کیونکہ زمان و مکاں اسی کے زیر نگیں ہیں ۔ اقبال کی زبان میں ہمیں صرف یہ کہنا ہے ۔
مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر