اپوزیشن ۔ ٹی آر ایس کے اسمارٹ پن کا شکار

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
کانگریس پارٹی کو بحیثیت اپوزیشن اپنی بقاء کی فکر ہے۔ انحراف کرنے والے قائدین کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اسمبلی میں احتجاج کرنے والے ارکان اسمبلی کو معطل کردیا گیا تو یہ کہا جانے لگا کہ ٹی آر ایس حکومت دیگر پارٹیوں کے ارکان اسمبلی کو انحراف کرنے کی ترغیب دے کر اپنی سیاسی قوت و عددی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کررہی ہے لہذا چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ اقتدار پر برقرار رہنے کے اخلاقی حق سے محروم ہوچکے ہیں۔ انحراف پسندی کی سیاست کی حوصلہ افزائی کرنا انسداد انحراف قانون اور دستور کے مغائر ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے اپوزیشن پارٹیاں تلگودیشم اور کانگریس کے ارکان اسمبلی اپنی پارٹی سے غداری کرتے ہوئے حکمراں پارٹی کو سینے سے لگارہے ہیں۔ ان پارٹیوں کے کسی بھی لیڈر کو تلنگانہ کے عوام کے مسائل کی فکر نہیں ہے۔ کسانوں کی خودکشیوں کا غم بھی نہیں ہے کیوں کہ اب آئندہ پانچ سال تک کوئی انتخابات نہیں ہوں گے اور نہ ہی انھیں عوام سے ووٹ لینے کے لئے ان تک پہونچنا ہے۔ عوام کو فراموش کردیا جائے ، اپنی سیاسی زندگی کو بچا لیا جائے اس فکر کے ساتھ کئی ارکان اسمبلی حکمراں پارٹی میں شامل ہورہے ہیں۔ 562 کسانوں نے خودکشی کی ہے تو یہ صرف کے سی آر کی جون سے اب تک کی حکمرانی میں ہوا ہے۔ یہ بھی افسوس ظاہر کیا گیا ہے کہ کے سی آر اور ان کے وزراء نے اقتدار پر آنے کے بعد سے کسانوں کی کیفیت دریافت نہیں کی۔

کے سی آر اینڈ کمپنی کے بارے میں اپوزیشن چاہے جتنے الزامات عائد کرے اس کا فی الحال کوئی منفی اثر نہیں ہوگا کیوں کہ حکومت کی یہ ابتداء ہے اس مدت میں بہتر حکمرانی کا تمغہ حاصل کرنا یا دینا کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ مسائل کانگریس کے دور میں بھی تھے۔ اب بھی ہیں اور آگے بھی رہیں گے کیوں کہ حکمراں پارٹی کے ارکان کو ایک دوسرے کا بھائی اور ساجھے دار سمجھا جاتا ہے۔ ماضی میں کانگریس نے جو کیا ہے اس کو اگر برقرار رکھنا نئی حکومت کی مجبوری ہوتی ہے۔ عوام بھی ’’کفن چور‘‘ کے اس ضرب المثل کا حوالہ دینے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ جو لوگ تلگودیشم کے دور میں یہ ضرب المثل پیش کرتے تھے اگر چندرابابو نائیڈو کے جانے کے بعد کانگریس کی حکومت آنے اور کرن کمار ریڈی کی حکومت جانے کے بعد ٹی آر ایس کی حکومت آنے پر عوام کے مسائل بے شک کم نہیں ہوئے ہیں لیکن پہلے دور کے مقابلے میں مزید اس میں اضافہ ہوا ہے تو عوام کا ایک گوشہ یہی ضرب المثل پیش کرے گا کہ ایک کفن چور سے محلے کے عوام بہت پریشان اور نالاں تھے۔ وہ مقامی قبرستان سے تدفین کے بعد مردے کا کفن چرا لیا کرتا تھا۔ ایک دن یہ شخص بھی مرنے کے قریب پہونچا تو اس نے اپنے بیٹے سے کہاکہ بیٹا میں نے محلے والوں کو بہت ستایا ہے۔ انھیں تنگ کرکے رلایا ہے۔ اس لئے تُو کوئی ایسا کام کردینا جس سے میرے گناہ بخشے جائیں اور لوگ مجھے یاد کریں۔ بیٹے نے اپنی فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ فکر نہ کریں۔ میں ایسا کام کروں گا کہ لوگ آپ کو ہی بہتر سمجھ کر معاف کردیں گے اور گناہ بھی بخشے جائیں گے۔

چنانچہ اس نے اپنے والد سے کئے گئے وعدہ کے مطابق ایسے کام کرنے لگا کہ لوگ بیٹے کی حرکتوں سے نالاں ہوکر کہنے لگے کہ اس سے تو اس کا باپ اچھا تھا کیوں کہ بیٹا تو کفن چوری کرنے کے ساتھ لاشوں کی بے حرمتی بھی کرنے لگا تھا۔ تلنگانہ میں اگر موجودہ حکومت نے سابق کانگریس یا تلگودیشم حکومت کے گناہ بخشوانے کا ذمہ لیا ہے تو لوگ یہ کہنے کے لئے مجبور ہوں گے کہ پہلے والا ہی ٹھیک تھا کیوں کہ کفن چور باپ صرف کفن چوری کرتا تھا۔ اس کا بیٹا تو کفن کے ساتھ ساتھ لاشوں کی بے حرمتی بھی کرتا ہے۔ خدا اس کے باپ کو بخش دے۔ بیٹے سے باپ ہی بہتر تھا۔ کسانوں کی نعشوں پر قہقہے لگانے والے سیاستدانوں کو اپنی بقا کی فکر ہے۔ اس فکر میں سے تھوڑی سی خیرات یہ ہورہی ہے کہ ریاست کے 24 لاکھ افراد کو سوشیل سکیورٹی پینشن دیا جائے گا۔ یہ خیرات دینے کے لئے اس حکومت نے سروے کرواکر سوشیل سکیورٹی پینشن لینے والوں کا پتہ چلایا ہے۔ حکومت کی نظر میں چند لاکھ افراد ہی اس کی پینشن کے مستحق ہیں۔ ان کے لئے ہر سال 3,350 کروڑ روپئے خرچ کئے جائیں گے۔ غریبوں کے لئے عزت کے ساتھ زندگی بچانے حکومت آسرا دینا چاہتی ہے۔ یعنی حکومت کے زمرے میں سکون کی نیند ہمیشہ کے لئے سو جائیں۔ جب حکومت میں AK47 جیسے مہلک ہتھیار کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے تو عام شہریوں کی زندگیوں کو سکیورٹی کس طرح ملے گی۔ پارکوں اور راستوں پر جب مجرمین اے کے 47 لے کر گھومتے ہیں تو سکیورٹی کی خرابیاں اور خامیوں کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ حکومت جواب دینے سے قاصر ہے۔ کاسو برہمانند پارک ایک قیمتی جائیداد ہے یہاں ملٹی اسٹوری بلڈنگیں بنانے کا بھی منصوبہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس پارک سے چہل قدمی کرنے والوں کو دور رکھنے کے لئے فائرنگ کا ڈرامہ کیا گیا ہو۔ کیوں کہ جس شخص کے پاس AK47 ہو اور کوئی زخمی نہ ہوپائے تو یہ ڈرامہ ہی معلوم ہوگا۔ اس واقعہ کے پیچھے کچھ نہ کچھ سازش ضرور ہے۔

شہر میں انسانی جانوں کی کارروائی روزانہ ہونے والے قتل کے واقعات سے لگائی جاسکتی ہے۔ پولیس کا خوف ختم ہوچکا ہے اس لئے کسی کا خون کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ دن دھاڑے قتل کے واقعات کے باوجود پولیس اور حکمراں طبقہ اپنی ذمہ داری کو فراموش کردے تو یوں سمجھئے کہ عوام کو لفظ لکھنے پر پابندی اور بولنے پر سزا ملے گی۔ تلنگانہ کا ہر ذی شعور جانتا ہے کہ اس حصول تلنگانہ کی جدوجہد کے نتیجے میں کئی نکات پھر اُبھر کر سامنے آگئے ہیں جن میں سب سے مایوس کن نکتہ یہ ہے کہ ان کی آرزوؤں کو ایک خاندانی ٹولہ اپنی حرص کے تلے روند رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں ایک طرف انحراف کرنے والے لیڈروں سے پریشان ہیں تو دوسری طرف حکمراں پارٹی کے اسمارٹ پن کا شکار ہیں۔ اس صورتحال میں چند اہم سیاستدانوں اور سیاسی دانشوروں کو ہی ’’پولٹیکل پروفیشنل‘‘ ہونے کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تلگودیشم لیڈر چندرابابو نائیڈو کے فرزند لوکیش نے جب تلنگانہ کے لیڈر کا ہٹلر سے تقابل کیا تو یہ قصداً کسی کی توہین کرنے کا کیس بن گیا ہے۔ انھوں نے تلنگانہ حکومت کو چلانے والوں کو مبینہ طور پر روڈی بھی قرار دیا۔ ٹوئٹر پر تبصرہ کرنے والوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کے سی آر کا ہٹلر سے تقابل کرنا ہٹلر کی توہین ہے۔ آندھرا کے لوگ اپنی سوچ اور تحریر میں بھی فطرت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ ذہنی شورش زدگی کا ثبوت ہے۔
kbaig92@gmail.com