اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کی ضرورت ایس پی ۔ بی ایس پی مفاہمت مشعل راہ

خلیل قادری
جیسے جیسے 2019 کے عام انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے سیاسی چالبازیوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ کچھ چالیں پردہ کے پیچھے چلی جا رہی ہیں تو کچھ سر عام ۔ بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے کو اس بات کا کامل یقین دکھائی دیتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کے سامنے اپوزیشن کی صفیں ڈھیر ہوجائیں گی اور اسے آئندہ انتخابات میں بھی اقتدار حاصل ہوگا ۔ ملک کے عوام تمام تر مسائل اور وعدوں کی عدم تکمیل کے باوجود اسی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرینگے ۔ حکومت اور این ڈی اے کو یہ یقین اس لئے بھی ہے کیونکہ اپوزیشن کی صفوں میں انتشار کی کیفیت ہنوز برقرار ہے ۔ حالانکہ بی جے پی نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا لیکن یہ نعرہ اب اپوزیشن مکت بھارت میں بدلتا دکھائی دے رہا ہے ۔ ایک وقت یہ بھی آسکتا ہے جب بی جے پی خود اپنی حلیفوں کا بھی صفایا کرنے سے گریز نہیں کریگی اور آپریشن حلیف مکت بھارت بھی شروع ہوسکتا ہے ۔ اس بات کو نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کو بلکہ حکومت کی حلیف جماعتوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ نہ صرف سیاسی جماعتوں کی بقا اور ان کے وجود کا سوال ہے بلکہ یہ سوال ہندوستان کی جمہوریت کی بقا سے تعلق رکھتا ہے ۔ ہندوستانی جمہوریت کو فروغ دینا اور مستحکم کرنا تو اب ثانوی بات بنتی جا رہی ہے اور اصل سوال ہے پیدا ہور ہا ہے کہ آیا جس منصوبے کے تحت بی جے پی اور اس کے قائدین کام کر رہے ہیں اس میں جمہوریت کیلئے کوئی جگہ بھی باقی رہ جائیگی یا نہیں ؟ ۔ پہلے کانگریس کے صفائے کیلئے مہم شروع کی گئی تھی جس کے نتائج بی جے پی کیلئے ثمر آور دکھائی دئے ۔ چاہے یہ کام شفافیت سے ہوا ہو یا پھر توڑ جوڑ کی سیاست سے ہوا ہو لیکن اس کا فائدہ ضرور بی جے پی نے خود اپنی توقعات سے زیادہ اٹھالیا تھا ۔ اب دوسری اپوزیشن جماعتوں کو بھی نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بھی غلط نہیں ہوگا کہ بتدریج خود حلیف جماعتوں کی حیثیت اور اہمیت کو بھی گھٹانے کی کوششیں در پردہ لیکن منظم انداز میں شروع کردی گئی ہیں۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس کا اندازہ تو تقریبا ہر گوشے کو ہو رہا ہے لیکن زبان کھولنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے کہ ایک تلخ حقیقت سے نظریں چرائی جا رہی ہیں اور یہ طریقہ کار ہندوستانی جمہوریت کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے ۔

ملک میں جبکہ آئندہ عام انتخابات کیلئے محض ایک سال سے کچھ زیادہ کا وقت رہ گیا ہے یہ اندیشے بھی پیدا ہونے لگے ہیںکہ آیا نریندر مودی حکومت حالات میں اتھل پتھل پیدا کرتے ہوئے کہیں وسط مدتی انتخابات نہ کروادے ۔ خاص طور پر اس صورتحال میں جبکہ اس کیلئے راجستھان ‘ مدھیہ پردیش ‘ بہار اور کسی حد تک اترپردیش میں حالات سازگار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اگر اسمبلی انتخابات ہوسکتے ہیں تو یہ اندازے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ یہاں بی جے پی کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اگر اپوزیشن کی صفوںمیں اتحاد پیدا ہوجائے تو پھر بہار اور اترپردیش میں بھی بی جے پی کیلئے صورتحال وہ نہیں رہے گی جو گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں رہی تھی ۔ ہندی پٹی کی ان ریاستوں کی سیاسی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت ہے اور بی جے پی حالانکہ دوسرے علاقوں میں بھی اپنا اثر دکھانے میں کامیاب ہو رہی ہے لیکن ہندی پٹی میں اگر اس کا اثر کم ہوتا ہے تو پھر اسے آئندہ حکومت سازی میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ کم از کم یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے بل پر حکومت قائم نہ کرسکے اور اسے حلیف جماعتوں پر انحصار کرنا پڑے ۔ بی جے پی اسی صورتحال سے بچنا چاہتی ہے ۔ سنگھ پریوار اور خاص طور پر آر ایس ایس کے جو عزائم اور منصوبے ہیں وہ حلیف جماعتوں کی تائید سے پورے نہیںہوسکتے ۔ آر ایس ایس کو اس کا تجربہ ماضی کی اٹل بہاری واجپائی حکومت سے ہوچکا ہے ۔ ایسے میں وہ کسی بھی حال میں دو تہائی اکثریت کے حصول کے منصوبے رکھتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کمزور ہوتی ہوئی ہندوستانی جمہوریت میں اب بھی اتنا اثر ضرور باقی ہے کہ بی جے پی کیلئے دو تہائی اکثریت کا حصول اتنا آسان نہیں ہوسکتا۔

جو ساری سیاسی صورتحال ہے اور فاشسٹ طاقتوں کے عروج سے جو خطرات پیدا ہورہے ہیں بلکہ مزید بڑھتے جا رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے سامنے نہ صرف اپنی بقا کیلئے بلکہ ہندوستانی جمہوریت کے تحفظ کیلئے اتحاد ہی واحد راستہ نظر آتا ہے ۔ کانگریس میں حالانکہ قدرے جان پڑتی دکھائی دے رہی ہے لیکن ہزاروں کروڑ روپئے کے اشتہارات حاصل کرنے والا میڈیا اس کو پیش کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ سارے میڈیا گھرانوں کا ایک نکاتی ایجنڈہ ہی یہی رہ گیا ہے کہ کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی کے کانگریس مکت بھارت کے نشانہ کی تکمیل میں اپنا حصہ ادا کیا جائے ۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں لیکن میڈیا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ گذشتہ دنوں اترپردیش کے دو لوک سبھا حلقوں گورکھپور اور پھولپور میں ہوئے ضمنی انتخابات کے جو نتائج آئے ہیں وہ اپوزیشن کی صفوں میں امید کی کرن پیدا کرنے کا باعث بنے ہیں۔ بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے اپنے تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی بات کی پرواہ کئے بغیر سماجوادی پارٹی کے امیدواروں کی جو تائید کی تھی اس نے ایک مثال قائم کردی ہے ۔ انہوں نے خود مقابلہ سے گریز کیا اور اپنی کٹر حریف رہنے والی جماعت کے امیدواروں کی تائید کرتے ہوئے بی جے پی کی شکست کو یقینی بنایا ۔ یہ ایسا فیصلہ تھا جو اپوزیشن جماعتوں کے مستقبل کے اتحاد کی کوششوں میں مثال بن سکتا ہے ۔ اسی طرح کی ایک مثال لالو پرساد یادو نے بہار اسمبلی انتخابات کے دوران پیش کی تھی ۔ انہوں نے یہ اعلان کردیا تھا کہ آر جے ڈی سب سے بڑی جماعت بننے کے باوجود بھی چیف منسٹری کی دعویداری پیش نہیں کریگی ۔ ان کا مطمع نظر صرف بی جے پی کو اقتدار حاصل کرنے سے روکنا تھا اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوگئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ نتیش کمار کی موقع پرستی سے بی جے پی نے بہار میں پچھلے دروازے سے اقتدار حاصل کرلیا ۔ گوا اور منی پور میں کانگریس بڑی جماعت بن کر ابھری تھی لیکن وہاں بھی بی جے پی نے مرکزی اقتدار کا بیجا استعمال کیا اور توڑ جوڑ کے ذریعہ حکومت ہتھیالی ۔ شمال مشرق میں ہوئے انتخابات میں بی جے پی نے صرف تریپورہ میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن ناگالینڈ اور میگھالیہ میں بھی اس نے محض مرکز کے اقتدار کے بل بوتے پر اقتدار میں جگہ حاصل کرلی ہے ۔ مرکز میں برسر اقتدار جماعت کی یہ روش سیاسی اخلاقیات سے پرے ہے ۔

پھولپور اور گورکھپور کے ضمنی انتخابی نتائج سے اپوزیشن جماعتوں کیلئے یہ موقع پیدا ہوگیا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کو زیادہ سے زیادہ اپنے حق میں سازگار بنانے کی کوشش کریں۔ ان تمام سیاسی جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے جو بی جے پی کو اقتدار سے روکنا چاہتی ہیں کہ وہ قومی سطح پر ایک طاقتور ‘ مستحکم اور موثر محاذ کے قیام کو یقینی بنائیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا ہر جماعت کا فریضہ ہے کہ کانگریس کو اس محاذ کی قیادت کرنی چاہئے ۔ کانگریس کے قومی سطح پر وجود سے اب بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا اور مستقبل میں اس کے امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ ساتھ ہی کانگریس کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک بڑی جماعت ہونے کے باوجود جن ریاستوں میں علاقائی جماعتیں طاقتور ہیں وہاں ان کی بالادستی کو تسلیم کرے ۔ اس نے بہار میں ایسا ضرور کیا تھا ۔ دوسری ریاستوں میں بھی جہاں اس کی تنظیم کمزور ہے اور علاقائی جماعتیں مستحکم ہیں وہاں اسے یہی مثال دہرانے کی ضرورت ہے ۔ اگر علاقائی جماعتیں ضرورت سے زیادہ حصہ داری پر اصرار نہ کریں اور کانگریس اپنی موجودہ حالت کے مطابق اپنے رول کو تسلیم کرے تو پھر اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد پیدا ہوسکتا ہے اور ایک ایسے محاذ کی بنیاد ڈالی جاسکتی ہے جس کیلئے بی جے پی سے مقابلہ کرنا زیادہ مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ اگر آئندہ انتخابات میں ایسا کوئی محاذ وجود میں نہیں آتا ہے اور اپوزیشن کی صفوں میںانتشار کی کیفیت برقرار رہتی ہے تو پھر اس کے جو نتائج ہونگے اس کی ذمہ داری سبھی جماعتوں پر عائد ہوگی ۔ بی جے پی کے آئندہ اقتدار سے فاشسٹ طاقتوں کے حوصلے مزید بلند ہونگے ۔ ملک میں فرقہ واریت کا غلبہ ہوگا ۔ دستور اور قانون کی دھجیاں اڑائی جائیں گی ۔نہ صرف کانگریس مکت بھارت کے منصوبے پر مزید شدت سے عمل ہوگا بلکہ حلیف جماعتوں کی حیثیت و اہمیت کو بھی گھٹانے کا کام شدت اختیار کرتا جائیگا ۔ کچھ جماعتوں کو شائد اس کا احساس بھی ہونے لگا ہے ۔ شیوسینا ‘ تلگودیشم اور دوسری جماعتوں کو شائد اس کا احساس ہونے بھی لگا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئی ہیں۔ اگر اس صورتحال میں بھی اپوزیشن جماعتوں میں انتشار کو ختم کرنے کی سمت پیشرفت نہیں ہوگی تو پھر ملک میں ایک پارٹی کے اقتدار کی بنیاد پڑسکتی ہے جو جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ہوسکتی ہے ۔