اپنی مرضی کی تشریح ، مرضی کے فیصلے

تلنگانہ؍ اے پی ڈائری        خیر اللہ بیگ
تلنگانہ ریاست کی ترقی کے ڈھول پیٹے اور پٹوائے جارہے ہیں اس کے زمینی حقائق کی ایک معمولی سی ہولناک جھلک ریاست بالخصوص تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کے سرکاری دواخانوں کے ناگفتہ حالت سے دیکھی جاسکتی ہے۔ نیلوفر دواخانہ میں عدم سہولتوں، لاپرواہی اور حکام کی خیانت نے حال ہی میں5 حاملہ خواتین کی جان لے لی۔ اگر حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس نے صحت، تعلیم اور روزگار پر کافی محنت کی ہے تو یہ اس کے بدترین ظلم سے کم نہیں ہوگا۔ حکومت اپنے بجٹ کا غلط استعمال کرتی ہے اور اعداد و شمار کی ہیرا پھیری کرکے عوام پر ظلم کرتی ہے۔ ریلوے کے بارے میں بھی ظلم دیکھا جارہا ہے۔ میٹرو ریل کا کام اتنی سُست روی سے چل رہا ہے کہ سڑکیں تنگ ہوچکی ہیں، ٹریفک جان لیوا بن گئی ہے۔ اس کام میں سیاسی موضوعات پر اتنا لکھا جارہا ہے کہ اب سیاست اور سیاستدانوں سے الرجی ہونے لگی ہے۔ لاکھ لکھا جائے ان سیاستدانوں اور حکمرانوں کی عادت میں بہتری نہیں آتی۔ اب ذرا سیاسی موضوع سے ہٹ کر ملی موضوع کی طرف جاتے ہیں، مسلمانوں میں مختلف مکتب فکر کے گروپ فروغ پاچکے ہیں، حیدرآباد کے اندر ہی مختلف محلوں میں دینی، اسلامی تعلیمات کے مختلف تشریحات و نظریات کے ساتھ کہیں اپنی جاہلانہ تشریحات کو مساجد میں جمع لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کہیں شرعی مسائل کے نام پر مسلکی تنازعات کو ہوا دی جاتی ہے،یہ عمل اور چلن افسوسناک حد تک بڑھتا جارہا ہے۔ ہر محلے میں مساجد کی کمیٹیاں بھی کہیں نظریہ کو شریعت، قرآن و حدیث سے جوڑ کر گمراہ کن وعظ و بیان کرنے والے مولویوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ ان میں سے چند مولوی اوور ری ایکٹ کرجاتے ہیں۔ ایسے میں خود کو’’ میں بھی کچھ ہوں ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش میں متنازعہ یا گستاخانہ بیان دیتے ہیں۔ ان میں دوچار بے ضرر سے جملوں پر مشتمل فرینڈلی قسم کی چھیڑ چھاڑ کے نتائج اتنے گمبھیر ہوتے ہیں کہ دوسرے گروپ کے لوگ احتجاج پر اُتر آتے ہیں۔ بعض تنازعات شدت اختیار کرچکے ہیں اور یہ تنازعہ بھی ادارہ وقف بورڈ کے لئے مزید بوجھ بن جائے گا۔ یہ تنازعہ شدت اختیار کرنے سے پہلے ہی اسے روک دیا جانا چاہیئے تھامگر واقعہ کی نوعیت سنگین ہے اس پر شہر کی بااثر شخصیتوں کو ہی پہل کرکے حقائق کا عمیق جائزہ لیتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے پابند کیا جانا چاہیئے۔

شہر حیدرآباد کی دیگر قدیم مساجد کی طرح مسجد عزیزیہ ہمایوں نگر مہدی پٹنم بھی عالمی سطح پر کافی مقبول ہوئی ہے۔ فرض نمازوں کے بعد تفسیر قرآن ، درس قرآن یا درس حدیث کا اہتمام بھی بیشتر مساجد میں پابندی سے ہوتا ہے۔ قبل از نماز جمعہ اردو خطاب کو بھی مصلیان منہمک ہوکر سماعت کرتے ہیں۔ اب مسجد عزیزیہ میں نماز جمعہ سے قبل اردو خطبہ کے دوران خطیب صاحب کے سورہ البقر کی ایک آیت کی غلط تشریح کرنے کے الزام کے ساتھ غلامان مصطفی کمیٹی کے لوگ وقف بورڈ سے رجوع ہوئے۔ یہ مسئلہ 5 بڑے دینی اداروں سے رجوع کردیا گیا۔ خطیب صاحب کی تقریر کا مواد سوشیل میڈیا پر بھی پھیلا ہوا ہے۔ واٹس ایپ، یو ٹیوب، فیس بک کے ذریعہ ساری دنیا تک ہر بات پہنچ جاتی ہے یا پہنچائی جاتی ہے۔ مسجد عزیزیہ کی کمیٹی کے ارکان نے حضور اکرم صلی للہ علیہ وسلم اور اولیائے کرام کی شان میں کسی قسم کی گستاخی کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کے بیان کو سوشیل میڈیا میں غلط انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ عزیزیہ مسجد چند ایسے گروپس کے نشانہ پر ہے جو مسجد کی دیگر فلاحی، تعلیمی، دینی سرگرمیوں پر نقص نکالنے کی مہم کا حصہ ہیں۔
مسجد عزیزیہ میں پنجوقتہ نمازوں کے علاوہ صحت و تعلیم کے مسائل پر غیر معمولی لکچرس کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خیراتی امدادی کاموں کی انجام دہی، سود سے پاک سونے پر قرض، بیواؤں کو وظائف، طالبات کیلئے تعلیم وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ مسجد خاص کر نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ میں مقبول ہے جہاں دین و دنیا دونوں کی عمدہ تعلیم اور درس دیا جاتا ہے۔  رمضان المبارک کے موقع پر خاص کر تراویح کا اہتمام حافظ صاحب کی قرأت کلام مجید کی سماعت کیلئے ہزاروں مصلیان خشوع و خضوع سے حاضر ہوتے ہیں۔ امام و خطیب شیخ عماد الدین مدنی صاحب مدینہ یونیورسٹی سعودی عرب کے فارغ التحصیل ہیں، مسجد کو عبادت کے مقام کے ساتھ ملی مسائل کی یکسوئی کا مرکز بھی مانا جائے تو عوام کی ذہنی تربیت سے کردار سازی اور شخصیت سازی میں مدد ملے گی۔ دنیا میں ترقی حاصل کرنے اور آخرت سنوارنے کے لئے کردار اور شخصیت کو فروغ دینے کی نوجوانوں کو اس مسجد سے تلقین حاصل ہوتی آرہی ہے،  صدر انتظامی کمیٹی اور خطیب مولانا اعجاز محی الدین وسیم کے جمعہ خطابات تراویح کے موقع پر ہر چار رکعت کے بعد ترجمہ پر اکثر مصلیان کو آپس میں اعتراضات کرتے سُنا اور دیکھا جاتا رہا ہے۔ مسجد آنے والے مصلیوں میں مختلف عقائد کے لوگ ہوتے ہیں، یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کے عقائد کو ٹھیس پہونچنے والی کوئی تقریر کی جاتی ہو۔ چونکہ اس مسجد کو تعلیم یافتہ، شرعی اعتبار سے شعور رکھنے والے لوگ بھی آتے ہیں، جب یہ لوگ قرآن مجید کی آیات کے ترجمہ اور اس کی تشریح میں کچھ زیادتی یا کمی کو محسوس کرتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے ہی سے اعتراض کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، متعلقہ ذمہ داروں تک یہ بات پہنچ جائے تو اس کا نوٹ نہیں لیا جاتا۔ کیونکہ انتظامی کمیٹی یا مسجد کے ذمہ داران کے نزدیک یہ شکایت غیر واجبی معلوم ہوتی ہے۔ ان کی دانش میں جو کچھ یہاں ہورہا ہے وہ درست ہے، جو لوگ بیان کو سماعت کررہے ہیں شاید انہوں نے ہی غلط مطلب وضع کرلیا ہو، گستاخانہ کلمات کو بھی ایک مضبوط پلیٹ فارم سے ادا کیا جائے تو اس پر اعتراض قابل قبول نہیں ہوتا، مسجد آنے والے بیشتر مسلمانوں کے لئے مولانا اعجاز محی الدین وسیم کا بیان مسحور کن معلوم ہوتا ہے۔ 10ہزار مصلیوں کی گنجائش والی 3 منزلہ مسجد عزیزیہ کے مصلیوں میں طلباء، پروفیشنلس، تاجر طبقہ اور غیر مقیم ہندوستانیوں، افریقی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ مسجد کے منتظمین، خادمین ہروقت مصلیوں کی سہولت کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ ان میں مستعدی اور اسپرٹ کو دیکھ کر عبادتوں میں مصروف مصلیوں کو رشک ہوتا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کی جانب سے مسجد کے کانفرنس ہال میں اہم موضوعات پر لکچرس کا اہتمام بھی لوگوں میں مقبول ہے، جہاں مفکرین اسلام اور ممتاز شخصیتوں کو لکچرز کیلئے مدعو کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو درپیش مسائل کی یکسوئی کیلئے بہترین راہیں نکالنے کی ترکیب اور عمدہ تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔تقریباً 50 سال قبل اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے والوں نے شاید یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن مسجد تنازعہ کا شکار بنادی جائے گی۔ مفاد پرست عناصر اتنے بڑے ذہنی مریض بن چکے ہیں کہ یہ لوگ قرآن و حدیث کو آڑ میں رکھ کر اپنے مقاصد بروئے کار لاتے ہیں۔ اس غلط بیانی یا احتجاجی مظاہرے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس متنازعہ تقریر کو واپس لیا جاسکتا ہے تو پھر مسائل کو نظر انداز کرکے تنازعات کو ہوا دینے والے عوامل کو کھلی چھوٹ ملتی رہے گی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی جب کھلے عام منظم چالاکی سے کی جاتی ہے تو یہ قابل نوٹ ہوگی اس پر توجہ دے کر ہی شہر کے چند گروپس وقف بورڈ سے رجوع ہوئے ہیں۔ اب جبکہ مسئلہ وقف بورڈ سے رجوع ہوا ہے اور شہر کے اہم دینی اداروں کو بھی اس معاملہ میں شامل کرلیا گیا ہے تو اس کا دیانتدارانہ جائزہ لے کر سچ اور غلط کو واضح کرنا ضروری ہے ۔ کسی بھی فریق کی غلط فہمی پورے مسلم معاشرہ کے لئے تجسس و بدگمانی کا باعث بنے گی۔ مولانا کے تعلق سے جن گوشوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں اس اعتراض کے سچ کو واضح کرنا ضروری ہے تاکہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پرہونے والی گستاخی کو عادت نہ بنائے۔ قبر پرستی، بدعت، شرک الگ موضوعات ہیں ، یہاں جو موضوع دل آزاری کا سبب بن گیا ہے یہ سنگین ہے۔
kbaig92@gmail.com