آہ …آصفہ ، کشمیر میں انسانیت کا پھر قتل

محمد ریاض احمد
ہنستی کھیلتی کودتی، چہچہاتی اور اپنے جانوروں کے ریوڑ میں گھل مل جانے والی 8 سالہ آصفہ کو دیکھ کر اس کے مانباپ کے چہرے خوشی کے مارے کھل اُٹھتے۔ ان کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جاتی تھیں لیکن جموں کے ایک جنگل میں ان کی چاند سی بیٹی کی نعش دیکھ کر ان کے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔ انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے ان پر آسمان گر پڑا ہو جسے وہ اپنی کائنات اور زندگی کا محور تصور کیا کرتے تھے زمین پر پڑے اس کے بے جان وجود کو دیکھ کر شدت غم سے وہ بھی بے جان سے ہوگئے۔ ان کی زبانیں گنگ ہوگئی تھیں، آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ سانسیں رُک گئی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ محمد یوسف بچوالا اور نسیمہ کے لئے کچھ دیر کے لئے دنیا رُک سی گئی ہو۔ ان کے تصورات میں ہرنی کی طرح قلانچیں بھرتی آصفہ اور اس کی معصوم شرارتیں ایک ایک کرکے آتی جارہی تھیں۔ آصفہ کی تشدد زدہ نعش، اس پر مار پیٹ کے نشانات، کچلا ہوا سر اور ٹوٹے ہوئے پیروں نے اس پر 7 دنوں کے دوران ہوئے ظلم اور اسرائلیت کی ساری داستان بیان کردی تھی۔ تفتیش کاروں کے مطابق 10 جنوری کو آصفہ گھوڑوں کو لانے جنگل گئی تھی۔ گھوڑے تو گھر واپس آگئے لیکن آصفہ کو انسان نما درندوں نے اپنی ہوس مٹانے کے لئے پکڑ لیا تھا۔

اسے اس کی زندگی کے آخری لمحات تک کٹھوا کی ایک مندر میں محروس رکھا گیا اور پھر ایک نہیں دو نہیں بلکہ 8 درندوں بشمول ایک 60 سالہ شیطان نے مسلسل اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ انسانیت کو شرمسار کرنے والے اس جرم میں چار پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ یوسف پجوالا گجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ایک خانہ بدوش برادری ہے جو اپنی بکریوں، گھوڑوں، بھینسوں، گدھوں وغیرہ کے ساتھ وادیٔ کشمیر کی وادیوں اور دروں میں سفر کرتی رہتی ہے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ اس درندگی کی مذمت کرنے کی بجائے پی ڈی پی ۔ بی جے پی حکومت میں شامل بعض وزراء اور بی جے پی رہنما اسے مذہبی رنگ دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ کچھ تو یہ بھی الزام عائد کرنے لگے ہیں کہ جموں میں ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہے، آبادی کے اس توازن کو بگاڑنے کی خاطر گجر خانہ بدوشوں کو جموں میں جان بوجھ کر چھوڑا جارہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جموں و کشمیر میں کشمیری لڑکیوں اور خواتین کی عصمت ریزی کے واقعات کوئی نئے نہیں ہیں۔ ہماری فوج اور پولیس پر اس طرح کے بے شمار الزامات عائد کئے جاچکے ہیں۔ 1989 ء سے مسلح جدوجہد کے آغاز کے بعد کشمیر کی برفیلی وادیوں میں نفرت و تشدد کے شعلے بلند ہوئے ہیں لیکن چاہے وہ کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی کسی بھی حکومت نے نفرت اور قتل و غارت گری کی اس آگ کو بجھانے اور کشمیریوں کے زخموں پر محبت و ہمدردی کا مرہم رکھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ بی جے پی خود کو قوم پرست قرار دیتی ہے لیکن مودی حکومت جنت نشان ہندوستان کے دامن میں حسین وادیوں، بڑے سکون و قرار کے ساتھ بہنے والی جھیلوں، برف کی چادر اڑھی بلند و بالا پہاڑی سلسلوں، دروں اور وادیوں کی حامل کشمیر میں قیام امن اور سکون و قرار کی بحالی میں بالکلیہ ناکام ہوگئی ہے۔ اب تو کشمیری باشندوں کو ظلم و جبر سہنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔

کشمیریوں کے جسموں میں بندوق کی گولیاں پیوست ہوجائیں اس کی وہ پرواہ نہیں کرتے، پیلٹ گنس کی گولیاں ان کی آنکھوں میں داغ دی جائیں اس پر بھی وہ صبر کرلیتے ہیں، ان کے جسموں پر لاٹھیاں توڑ دی جائیں تو بھی وہ برداشت کرلیتے ہیں لیکن اپنی بیٹیوں، بہوؤں کی عصمت ریزی پر وہ اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہئے کیوں کہ ہر معاشرہ میں بیٹی بہوؤں کی عزت غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ آصفہ کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل پر اگرچہ وادی کشمیر میں احتجاجیوں اور پولیس کی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن میڈیا کا کردار بڑا شرمناک رہا۔ فرقہ پرستوں کی گود میں بیٹھے میڈیا نے معصوم کشمیری لڑکی آصفہ کے ساتھ ہوئی انسانیت سوز حرکت کو پوری طرح نظرانداز کردیا اور اس بات کی بھرپور کوشش کی کہ اس واقعہ کی گونج وادی سے باہر سنائی نہ دے۔آصفہ کی ایک مندر میں مسلسل کئی دنوں تک اجتماعی آبرو ریزی پر قومی میڈیا نے مجرمانہ خاموش کی اگر خدا نخواستہ کسی ہندو لڑکی کے ساتھ ایسی گھناؤنی حرکت ہوتی تو یہی میڈیا آسمان سر پر اُٹھالیتا۔ لیکن بدعنوان میڈیا کی لاکھ کوششوں کے باوجود آصفہ کے ساتھ کی گئی درندگی سے ساری دنیا واقف ہوگئی اور ریاستی ومرکزی حکومتوں پر تھو تھو کررہی ہے۔ وادیٔ کشمیر میں پیش آئے اس واقعہ کے بعد اترپردیش کے اناؤ میں بھی ایک لڑکی کے ساتھ عصمت ریزی کا بھیانک واقعہ منظر عام پر آیا جس میں متاثرہ لڑکی نے بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سنگر اور اس کے بھائی و حامیوں پر اجتماعی عصمت ریزی کا سنگین الزام عائد کیا۔ اب آپ ہی بتایئے کہ جب ایک متاثرہ لڑکی یہ صاف طور پر کہتی ہے کہ اس کا بی جے پی رکن اسمبلی سنگر، ایم ایل اے کے بھائی اور حامیوں نے ریپ کیا ہے تو اس پر کس کو گرفتار کیا جائے گا ملزمین کو… لیکن اس کیس میں ملزمین کو گرفتار کرنے کی بجائے متاثرہ لڑکی کے والد کے خلاف نہ صرف سنگین دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے بلکہ انھیں حراست میں بھی لے لیاگیا۔ دوران حراست متاثرہ لڑکی کے والد کی موت بھی ہوگئی۔

18 سالہ متاثرہ لڑکی نے ملزم رکن اسمبلی اور اس کے بھائی کو گرفتار نہ کرنے پر چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کی قیامگاہ کے روبرو خودکشی کی کوشش بھی کی۔ اس واقعہ کے بعد ریاست میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت شرمسار ہوگئی ہے، وہ سماجی جہدکاروں، حقوق انسانی کی تنظیموں کے کارکنوں کے سوالات کے جواب دینے سے قاصر ہے۔ قانون کی دھجیاں اڑانے والے اس واقعہ سے یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی حکومت کی حالت بھی اُس 18 سالہ لڑکی کی طرح ہوگئی ہے جس کی بی جے پی ایم ایل اے اور اس کے بھائی و حامیوں نے اجتماعی عصمت ریزی کی تھی۔ بڑی مشکل سے یوگی آدتیہ ناتھ حکومت واقعہ کی تحقیقات کے لئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے پر راضی ہوئی۔ قومی میڈیا نے یوگی حکومت میں خواتین پر ہورہے مظالم پر بڑی وفاداری کے ساتھ پردہ ڈالنے کی کوشش کی لیکن بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس کے باعث یہ واقعہ منظرعام پر آگیا اور بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ذات پات ہر انسان نے اس کی کھل کر مذمت کی۔ جہاں تک بی جے پی اور یوگی آدتیہ ناتھ کا سوال ہے اس کے رہنما اکثر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندو ظلم بھی کرتے ہیں، جرم کا ارتکاب بھی کرتے ہیں، قتل و غارت گری، عصمت ریزی میں ملوث بھی ہوتے ہیں تو انھیں بچانے کی پوری پوری کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی دلت، اعلیٰ ذات کے ہندو کے کتے کو پیار سے پکڑ بھی لیتا ہے تو اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ہیں، گھوڑا خرید کر اس پر سواری کرنے کی ہمت کرتا ہے تو اُسے نامعلوم مقام پر قتل کردیا جاتا ہے۔ کوئی دلت گھوڑے پر سوار ہوکر بارات نکالتا ہے تو اُس کی بارات پر یہ کہتے ہوئے سنگباری کی جاتی ہے کہ ایک دلت کو گھوڑے پر بارات نکالنے کا حق حاصل نہیں۔ اترپردیش میں فی الوقت اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی اجارہ داری ہے۔ چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ خود ٹھاکر ہیں، ٹھاکروں کو برہمنوں کے بعد دوسری اعلیٰ ذات کہا جاتا ہے۔ اناؤ عصمت ریزی کیس میں جس بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سنگر پر الزام عائد کیا گیا ہے وہ بھی ٹھاکر ہے۔ یہاں تک کہ اس کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس عہدیدار بھی ٹھاکر ہیں۔ ان حالات میں وہ ٹھاکروں کی مدد نہیں کریں گے تو کس کی مدد کریں گے۔ جہاں تک کلدیپ سنگھ سنگر کا سوال ہے وہ دل بدلو سیاستداں کے طور پر بدنام ہے۔ 2002 ء میں اناؤ سے بی ایس پی امیدوار کی حیثیت سے اس نے کامیابی حاصل کی۔ 2007 ء کے اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کو خیرباد کہہ کر سنگر نے سماج وادی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور بنگارمو سے کامیابی بھی حاصل کی۔ 2017 ء کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی کو اپنا سہارا بنالیا۔ کلدیپ نے اپنا کیرئیر ایک کانگریسی کی حیثیت سے شروع کیا تھا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ سنگر کے دو بھائیوں منوج اور اتل نے اپنی غنڈہ گردی کے ذریعہ اناؤ میں دہشت مچا رکھی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کیا کررہی ہے۔ اس سوال کا پھر یہی جواب ہے کہ پولیس بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہے۔ اس سلسلہ میں حقوق انسانی کے جہدکاروں نے بارہا پولیس پر جانبداری کے الزامات عائد کئے لیکن سنگر اور اس کے ارکان خاندان کا اناؤ میں ایسا اثر و رسوخ ہے کہ کوئی بھی ان کا وہاں کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہاں کے انتظامی اُمور پر سنگر خاندان کے ارکان فائز ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی حکومت اعلیٰ ذات کے ملزمین کو ضرور بچائے گی۔ جس کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بادی النظر میں متاثرہ لڑکی کے والد کی موت صدمہ اور خون میں زہریلی مادے پائے جانے کے نتیجہ میں ہوئی ہے۔ جہاں تک صدمہ سے موت ہونے کی بات ہے متاثرہ لڑکی کے والد کو یقینا اس بات کا صدمہ ہوا ہوگا کہ یوگی حکومت اور اس کی پولیس نے ذات پات کی بنیاد پر ان کی بیٹی کی عصمت لوٹنے والے درندوں کو صرف اس لئے بچایا کیوں کہ ان کا تعلق اعلیٰ ذات سے ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ بھی ٹھاکروں کی ذات کے ہیں۔ یہاں ایک بات اہم ہے کہ اس واقعہ نے یوگی آدتیہ ناتھ کی عزت اور مقام داؤ پر لگادیئے۔ تنقیدوں سے بچنے کے لئے اور مرکزی قیادت کے دباؤ میں آکر ریاستی حکومت نے اناؤ عصمت ریزی کیس سی بی آئی کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس واقعہ پر کانگریس صدر راہول گاندھی اور دوسرے سیاسی قائدین آواز اُٹھارہے ہیں لیکن بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کا نعرہ لگانے والے مودی جی پر خاموشی چھا گئی ہے۔ شائد وہ بھی صدمہ میں ہیں ویسے بھی مودی بے وقت کی بڑبڑ کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ کسی آٹھ سالہ آصفہ کے ساتھ درندگی پر وہ حرکت میں آتے ہیں نہ ہی چار سالہ سنگیتا کی عصمت ریزی پر انھیں غصہ آتا ہے۔ نہ ہی 70 سالہ عیسائی راہبہ کی ہندوتوا کے غنڈوں کے ہاتھوں عزت لوٹے جانے پر انھیں کوئی افسوس ہوتا ہے۔اخلاق سے لے کر حافظ جنید ، امتیاز سے لے کر گجرات میں گاؤ رکھشکوں کے ہاتھوں ایوب کے قتل پر بھی ان کا منہ نہیں کھلتا۔ حد تو یہ ہے کہ ملک کے بینکوں کو لوٹ کر فرار ہونے والے وجئے مالیا، نیروؤ مودی وغیرہ پر بھی وہ تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے منہ پر مجرمانہ خاموشی کا تالا لگا رہتا ہے۔ وہ کسی بھی ظلم و زیادتی پر آہ تک نہیں کرتے۔ ان کی حالت بھی فی الوقت یوگی آدتیہ ناتھ کی طرح ہی ہے جو عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز تو ہوگئے لیکن شائد عہدہ چیف منسٹری کو خود افسوس ہوگا کہ کیسے شخص کو یہ حوالے کردیا گیا۔ کشمیری لڑکی آصفہ کی اجتماعی عصمت ریزی اور اناؤ عصمت ریزی واقعہ کے بعد تو شائد لوگ بی جے پی رہنماؤں سے اپنی بیٹیاں بچانے لگیں گے۔ عوام کو اب مودی کے دوسرے نعروں کی طرح بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کا نعرہ بھی کھوکھلا دکھائی دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ کے نعرہ کو بلتکاری کو بچاؤ نعرہ سے تبدیل کردیا گیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق قتل اور عصمت ریزی میں اترپردیش ملک میں سب سے آگے ہے۔ مودی حکومت میں جہاں اقلیتیں اور دلت محفوظ نہیں ہیں وہیں خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں۔ 2015 ء کی این سی آر بی رپورٹ میں عصمت ریمی کے واقعات میں بی جے پی کی زیراقتدار ریاست مدھیہ پردیش کو سرفہرست قرار دیا گیا۔ یوپی جیسی ریاستوں میں پیپلز یونین فار سیول لبرٹیز کے مطابق جن لڑکیوں اور خواتین کی عصمت ریزی کی گئی ان میں 90 فیصد دلت ہیں۔ ہندوستان میں ہر گھنٹہ میں عصمت ریزی کے کم از کم 6 واقعات پیش آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دن میں 144 خواتین کی عصمت لوٹی جاتی ہے۔ اس طرح سال میں 52,560 لڑکیاں اور خواتین اپنی عصمتوں سے محروم ہوجاتی ہیں۔ بہرحال آصفہ کے ساتھ جو درندگی ہوئی ہے اس نے نربھئے کے واقعہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انسانیت رو رہی ہے اور شیطانیت قہقہہ لگارہی ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com