آپ کے سوال

خون کا عطیہ
سوال :  گزشتہ چند برسوں سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی و انبساط میں بارہ ربیع الاول کوپیمانہ پر خون عطیہ کیمپ کا کتبخانہ آصفیہ افضل گنج میں اہتمام کیا جارہا ہے جس کا مقصود یہ ہے کہ ساری دنیا کو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے موقع پر پیغام انسانیت دینا ہے کہ ہم مسلمان خون دینے والے ہیں، خون بہانے والے نہیں اور ہمارا خون ساری انسانیت کے لئے ہے ۔ آج ساری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گردی ، قتل و خونریزی سے جوڑنے کی بھرپور کوشش ہورہی ہے اور دشمنان اسلام اس میں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ ایسے وقت میں دشمنان اسلام کا دنداں شکن جواب دینے کے لئے ہمیں عملی جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ بہت غور و خوض کے بعد یہ بات بھی سمجھ میں آئی ہے کہ میلاد کے مبارک موقع پر بلڈ ڈونیشن کیمپ کا اہتمام بلا لحاظ مذہب وملت تمام انسانیت کے لئے کیا جائے ۔ نیز ہم اس میں مسلمان اور غیر مسلم کی تمیز رکھنا نہیں چاہتے کیونکہ خون کی ضرورت مسلمانوں کو زیادہ ہے اور خون دینے والے مسلمان بہت کم ہیں اور اگر ہم اس میں مسلمانوں کی تخصیص کریں تو مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچنے کا قوی امکان ہے اور عامتہ المسلمین میں خون کا عطیہ دینے کا رجحان بہت کم ہے اور مسلمان اس میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں کہ خون کا عطیہ دینا اسلامی نقطہ نظر سے درست ہے یا نہیں۔ آپ کے موقر روزنامہ کے ذریعہ خون کا عطیہ دینا ازروئے شرع درست ہے یا نہیں وضاحت ہوجائے تو مسلمانوں کی بہت بڑی غلط فہمی کا ازالہ ہوگا ۔
تنظیم فوکس
جواب :  اسلام ساری انسانیت کی بقاء اور حفاظت کی تعلیم دیتا ہے اور مسلمان قوم بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ساری انسانیت کی فلاح و بہبود اور نفع رسانی کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومن احیا ھا فکانما احیاالناس جمیعا (سورۃ المائدہ) جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کو حیات بخشی۔ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے سر پر ’’خیر امت‘‘ کا تاج رکھا کہ وہ تمام امتوں میں سب سے بہترین و اعلیٰ قوم ہے۔ اس کے ساتھ اس قوم کا مشن اور مقصد حیات بیان کیا ’’ اخرجت للناس‘‘ یہ امت ساری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے نکالی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دیگر اقوام کے بالمقابل امت محمدیہ میں انسانی ہمدردی و جذبہ غمخواری کے اوصاف بدرجہ اتم ودیعت کئے ہیں۔  نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الخلق عیال اللہ (ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : واللہ فی عون العبد مادام العبد فی عون اخیہ۔ اللہ تعالیٰ بندہ کی مدد میں ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہے۔ بناء بریں مسلمانوں کو عوام الناس کی فلاح و بہبود، ترقی اور ان کی ضرورت میں کام آنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے۔ انسانیت کی حفاظت اور بقاء میں خون کا عطیہ نہایت اہم رول ادا کرتا ہے۔ فقہاء کرام نے انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انسانی اعضاء میں خون ایسا سیال مادہ ہے جو متولد یعنی پیدا ہوتے رہتا ہے۔ اگر خون نکالا جائے تو دوبارہ خون کی افزائش ہوجاتی ہے اور مختصر وقت میں نکالے گئے خون کی پابجائی ہوجاتی ہے اور طبی نقطہ نظر سے بدن انسانی کو جس قدر خون کی ضرورت ہوتی ہے، عموماً اس سے زائد خون اس کے جسم میں موجود رہتا ہے۔ نیز خون کا عطیہ صحتمند انسان کے لئے مفید ہے۔ لہذا فقہاء نے ضرورت مند انسان کو خون کا عطیہ دینے کی اجازت دی ہے ۔نیز اچانک حادثہ کے سبب کسی کو خون کی ضرورت لاحق ہوجائے اور اسی وقت کسی دوسرے شخص کا خون لیا جائے تو دونوں کے خون کا باہم ملنا اور خون دینے والے کے خون کی جانچ ہونا کہ اس کا خون قابل استعمال ہے بھی یا نہیں۔ اس میں کافی وقت درکار ہوتا ہے اور ضرورت مند کی جان جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس لئے فقہاء نے صراحت کی ہے کہ قبل از وقت خون کا عطیہ دینا تاکہ بوقت ضرورت اس کا خون کام آئے، شرعاً جائز ہے۔

نام احمدﷺ اور نام محمدﷺ
سوال :  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک میں دو نام بہت مشہور ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، احمد صلی اللہ علیہ وسلم  ۔
میں نے سنا کہ حضور کا نام آپ سے پہلے کسی کا نہیں رکھا گیا تھا ۔ وہ کونسا نام پاک ہے ۔ نیز مذکورہ دونوں ناموں کے معنی و مفہوم کیا ہے ۔ اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں تو مہربانی ہوگی ؟
سید محمد حمزہ، ملے پلی
جواب :  حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اسمائے گرامی محمدؐ اور احمدؐ کا مادہ حمد ہے اور حمد کا مفہوم یہ ہے کہ کسی کے اخلاق حسنہ اوصاف حمیدہ ، کمالات جمیلہ اور فضائل و محاسن کو محبت ، عقیدت اور عظمت کے ساتھ بیان کیا جائے ۔ اسم پاک محمدؐ مصدر تحمید (باب تفعیل) سے مشتق ہے اور اس باب کی خصوصیت مبالغہ اور تکرار ہے ۔ لفظ محمد اسی مصدر سے اسم مفعول ہے اور اس سے مقصود وہ ذات بابرکات ہے جس کے حقیقی کمالات ، ذاتی صفات اور اصلی محامد کو عقیدت و محبت کے ستاھ بکثرت اور بار بار بیان کیا جائے ۔لفظ محمد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ وہ ذات ستودہ صفات جس میں خصال محمودہ اور اوصاف حمیدہ بدرجہ کمال اور بکثرت موجود ہوں ۔ اسی طرح احمد اسم تفضیل کا صیغہ ہے ۔ بعض اہل علم کے نزدیک یہ اسم فاعل کے معنی میں ہے اور بعض کے نزدیک اسم مفعول کے معنی میں اسم فاعل کی صورت میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کرنے والا اور مفعول کی صورت میں سب سے زیادہ تعریف کیا گیا اور سراہا گیا۔ (الروض العرب اور تاج العروس ، بذیل مادہ) ۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے پہلے زمانہ جاہلیت میں صرف چند اشخاص ایسے ملتے ہیں جن کا نام محمد تھا ۔ لسان العرب اور تاج العروس میں سات آدمیوں کے نام ضبط کئے ہیں۔ ان لوگوں کے والدین نے اہل کتاب سے یہ سن کر کہ جزیرۃ العرب میں ایک نبی ظاہر ہونے والے ہیں ان کا نام محمد ہوگا ، اس شرف کو حاصل کرنے کے لئے یہ نام رکھ لیا۔ البتہ کسی نے احمد نام نہیں رکھا۔ مشیئت الٰہی دیکھئے کہ محمد نام کے ان لوگوں میں سے کسی نے بھی نبوت و رسالت کا دعویٰ نہیں کیا ۔ فتح الباری 7 : 404 ، 405 ) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اسم گرامی احمد قرآن مجید میں صرف ایک مر تبہ مذکور ہے  اور وہ بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشگوئی کے طور پر : و مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد (61 (الصف) : 6 ) ، یعنی میں (عیسی) اس پیغمبر کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد آئیں گے اور جن کا نام احمد ہوگا ۔ آپؐ کا اسم گرامی محمدؐ چار مرتبہ قرآن مجید میں آیا ہے اور ہر مرتبہ آپؐ کے منصب رسالت کے سیاق و سباق میں : (۱) و ما محمد الا رسول (۳ (آل عمران ) : 144 ) ، یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو اللہ کے رسول ہیں ۔ (۲) ما کان محمد ابا احد من رجالکم و لکن رسول اللہ و خاتم النبین (33 (الاحزاب) : 40 ) ، یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے رسول اور انبیاء (کی نبوت) کی مہر یعنی اس کو ختم کردینے والے ہیں، (۳) والذین اٰمنو وعملو الصلحت وامنوا بما نزل علی محمد و ھو الحق من ربھم ۔ کفر عنھم سیاتھم و اصلح بالھم (47 (محمد) یعنی اور جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور جو  (کتاب) محمدؐ پر نازل ہوئی اسے مانتے رہے اور وہ ان کے رب کی طرف سے برحق ہے ان سے ان کے گناہ معاف کردئے اور ان کی حالت سنوار دی۔ (۴) محمد رسول اللہ (48 (الفتح) : 29 ) ، عینی محمد اللہ کے رسول ہیں۔ ان چاروں آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام لے کر آپؐ کی رسالت و نبوت کے منصب کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے تاکہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔
اسی مناسبت کی بناء پر آپؐ نے اور آپؐ کی امت نے دنیا کی تمام قوموں اور امتوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کی اور قیامت تک کرتی رہے گی۔ ہر کام کے آغاز و اختتام پر اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد کا حکم دیا گیا اور امت کا ہر فرد یہ فریضہ انجام دے رہا ہے ۔ بالکل اسی طرح حضور پاک صلی اللہ علہ و آلہ وسلم کے محامد و محاسن اور خصال محمودہ، اوصاف حمیدہ اور فضائل و کمالات کا بیان اور ذکر جس کثرت سے کیا گیا ہے اور ابد تک کیا جاتا رہے گا اس کی مثال بھی دنیا میں نہیں مل سکتی۔

خانہ کعبہ کی تعمیر
سوال :   خانہ کعبہ کی تعمیر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل ہوئی یا بعد میں ۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی ۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کا واقعہ ہے کیونکہ حجر اسود کو رکھتے وقت اختلاف رائے ہوا تو سبھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو قبول کیا تو انہوں نے انکار کردیا۔
مجھے آپ سے معلوم کرنا یہ ہے کہ حقیقت میں کعبۃ اللہ کی تعمیر کے وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے اتفاق سے حجر اسود رکھا تھا یا نہیں ؟ یہ واقعہ اگر معتبر ہے تو تاریخ کی کس کتاب میں مل سکتا ہے ۔
عبدالقادر خان، مراد نگر
جواب :  سیرت ابن ہشام سیرت کی کتابوں میں اہم کتاب ہے اور اس کتاب کو مرجع و مصدر کا درجہ حاصل ہے۔ اس کتاب کی جلد 1 ص : 204 تا 209 میں خانہ کعبہ کی تعمیر سے متعلق تفصیل ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کعبہ شریف کے پردوں کو بخور سے دھونی دی جاتی تھی ، ایک دن ہوا کی شدت سے چنگاریوں نے پردوں کو آگ لگادی ۔ عمارت کمزور ہوگئی تھی ، کچھ دنوں بعد موسلا دھار بارش ہوئی تو عمارت بیٹھ گئی ۔ تعمیر جدید کے لئے صرف اکل حلال سے چندہ کیا گیا ۔ سود خواروں اور قحبہ خانوں سے رقم قبول نہ کی گئی ۔ انہیں دنوں مکہ کے قریب شعیبیہ (جدہ) میں ایک کشتی جو مصر سے آرہی تھی ، ٹوٹ گئی ۔ کچھ لوگ زندہ بچے اور کچھ سامان بھی بچایا جاسکا ، جس میں شکستہ کشتی کے تختے بھی تھے ۔ اہل مکہ نے ان کا سارا سامان حتیٰ کہ کشتی کے تختے بھی خرید لئے تاکہ کعبہ کی چھت میں لگائیں ۔ اہل مکہ نے پہلے ملبہ صاف کیا اور پرانی بنیادیں برآمد کر کے نئی دیواریں کھڑی کرنا شروع کیں۔ قبائل شہر نے کام بانٹ لیا اور ہر دیوار معین گھرانوں کے سپرد ہوگئی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس موقع پر کام کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پتھر اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے رہے، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک شانے زخمی بھی ہوگئے ۔ چار دیواری کوئی گز بھر بلند ہوئی تو ایک دشواری پیدا ہوگئی ۔ کعبہ کے دروازے کی مغربی دیوار کے زاویے میں حجر اسود کو نصب کرنا تھا۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لئے رقابت شروع ہوگئی اور قریب تھا کہ خون خرابہ ہوجائے کہ ایک بوڑھے ابو امیہ حذیفہ بن مغیرہ نے جھگڑے کو ختم کرنے کیلئے مشورہ دیا کہ اس وقت جو شخص سب سے پہلے مسجد کے دروازے سے اندر آئے ، انہیں حکم بناؤ ۔ سب نے قبول کیا ۔ اتفاق سے یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو کام کرنے کے لئے تشریف لارہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سب لوگ پکار اٹھے : ھذا الامین رضینا بہ ، یعنی یہ تو امین ہیں ، ہم سب ان کے فیصلے پر راضی ہیں (ابن الجوزی نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے ، ص 148 )
قصہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر بچھائی ، پتھر کو اس پر رکھا اور چادر کے کونے قبائل کے نمائندوں نے پکڑ کر اٹھائے اور دیوار کے قریب کیا ۔ وہاں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پتھر کو اٹھاکر اس کی جگہ نصب کردیا ۔ (ابن ہشام ، السیرۃ ، 204:1 تا 209 )

نماز میں پیشاب کا خطا ہونا
سوال :  مجھے پیشاب خطا ہونے کی بیماری ہے۔ چھینک ، کھانسی سے اکثر خطا ہوجاتا ہے۔ ا یسی صورت میں نماز درست ہوگی یا نہیں۔ میں پابندی سے نماز ادا کرتی ہوں لیکن میرے دل کو سکون نہیں ملتا۔ پیشاب کا خطا ہونا ناپاکی کہلاتا ہے۔ غالباً آپ مہربانی کر کے جواب سے مطمئن کروایئے۔
ایک قاری، حیدرآباد
جواب :   اگر نماز ادا کرنے کے وقفہ تک آپ کا وضو برقرار نہ رہتا ہو تو آپ شرعاً معذور ہیں۔ ہر نماز کے لئے علحدہ وضو کر کے اس ایک وضو سے فرض نماز کے ساتھ آپ سنت و نوافل بھی ادا کرسکتی ہیں۔ اگرچہ اس دوران پیشاب کے قطرے خطا ہوں کوئی مضائقہ نہیں۔دوسری نماز کا وقت ہوجائے تواس کیلئے علحدہ وضو کریں۔