آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل ’ہمیں‘

میرا کالم سید امتیازالدین
ابھی پچھلی رمضان کی عید کے موقع پر جب ہم صبح صبح شیرخرمے کی کٹوری ہاتھ میں لیے بیٹھے تھے تو ہمیں خیال آیا کہ دن بھر دوستوں اور عزیزوں کی مبارکباد تو قبول کرتے رہیں گے پہلے ایک نظر اخبار دیکھ لیں کہ وزیراعظم نریندر مودی نے ہمیں کن الفاظ میں مبارکباد دی ہے۔ ہم نے پورا اخبار دیکھ ڈالا لیکن ہم کو وزیراعظم کا پیام دکھائی نہیں دیا۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ ٹوئٹر پر ایک مختصر سا پیام آیا تھا جو ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ ہم نے شیرخرما پی لیا اگرچہ کہ وہ تھوڑا سا پھیکا محسوس ہوا۔ 20 ستمبر کے اخبار کو جب ہم نے کھولا تو ہم بالکل خالی الذہن تھے۔ ہم نے ایک ایسی سرخی دیکھی جسے دیکھ کر ہم اچھل پڑے۔ ’’ہندوستان کے مسلمان ملک کے لئے جئیں گے اور مریں گے‘‘۔ یہ بیان تھا شری نریندر مودی کا۔ مودی جی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا ہندوستانی مسلمان کبھی دہشت گرد تنظیموں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ اُنھوں نے کہاکہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان دہشت گردی میں ملوث ہوں گے تو یہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ ہندوستان کے مسلمان وطن کے لئے جئیں گے اور وطن کے لئے مریں گے۔ وہ کبھی ملک کا بُرا نہیں چاہیں گے۔ مودی جی کی زبان سے ایسے اچھے جملے سُن کر ہم کو بے ساختہ ایک فلمی گانے کا مکھڑا ذہن میں آیا ’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے‘۔ اس گانے کا دوسرا مصرع تھا ’دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے‘۔

ہمارا خیال ہے کہ مودی جی کا بیان پہلے مصرعے کی یاد تو دلاتا ہے لیکن ابھی وہ منزل نہیں آئی جس کا دوسرے مصرعے میں تذکرہ ہے۔ پچھلے کئی سال سے جب بھی ہم مسلمانوں کی پوزیشن کے بارے میں غور کرتے ہیں تو ہم کو ایک قصہ یاد آتا ہے جو ہم نے کہیں پڑھا تھا۔ قصہ یوں ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں دفتروں کی کارکردگی کا معائنہ کرنے کے لئے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس کا کام تھا کہ اچانک کسی دفتر کا معائنہ کرے اور دیکھے کہ عام دنوں میں دفتر میں کام کس طرح ہورہا ہے۔ جب معائنہ کرنے والی ٹیم کسی ضلع کے ایک دفتر میں پہنچی تو عجیب منظر تھا۔ کچھ لوگ تاش کھیل رہے تھے۔ کچھ چائے نوشی میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ گپ شپ لڑا رہے تھے۔ ٹیم کے لوگوں کو دفتر کا یہ حال دیکھ کر سخت غصہ آیا۔ ٹیم کے چیف آفیسر نے کڑک کر پوچھا ’اِس دفتر کا ذمہ دار افسر کون ہے؟ یہ سننا تھا کہ ہر طرف سنّاٹا چھا گیا۔ دور کونے میں ایک منحنی سا کلرک کھڑا ہوگیا۔ معائنہ کرنے والی ٹیم کے افسر نے اُس سے حیرت سے پوچھا ’’تم اِس دفتر کے ذمہ دار افسر ہو؟‘‘۔ کلارک نے جواب دیا ’مجھے یہ تو پتہ نہیں کہ میں افسر ہوں یا نہیں لیکن جب بھی دفتر میں کہیں بھی کوئی غلطی ہوجاتی ہے تو سب مجھی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں‘‘۔ پچھلے کئی سال سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ کہیں کوئی حادثہ پیش آیا، ہمارے بعض مہربان شک کی سوئی اِدھر کردیتے ہیں۔ ہم نے خود عدالتوں کے فیصلے دیکھے ہیں جن میں کئی ملزمین جو فرضی مقدمات میں پھانسے گئے تھے، باعزت بری ہوگئے، لیکن بری ہونے میں اتنی دیر ہوگئی کہ اُن کے بچے جوان ہوگئے، اُن کا روزگار چوپٹ ہوگیا۔ پورے خاندان پر بے عزتی کا ٹھپہ لگ گیا۔ اِن حالات میں ہمارے وزیراعظم کا بیان کہ ہندوستان کے مسلمان شک و شبہ سے بالاتر ہیں ، ہمارے لئے مرہم کا اثر رکھتا ہے۔ مودی جی ایک خاص انفرادیت رکھتے ہیں۔ اب تک جو حکومتیں بنی تھیں وہ گٹھ جوڑ کی حکومتیں تھیں۔ اُن میں ویسی طاقت نہیں تھی جو آج نریندر مودی جی کو حاصل ہے۔ اُن کو بھرپور اکثریت ملی ہے۔ اُن کا رعب اور دبدبہ بھی ہے۔ آج تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم تو مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں لیکن اُنھی کی پارٹی یا اُنھی کے مکتبِ خیال کا دعویٰ کرنے والے بعض مہا پُرش غیر ذمہ دارانہ بیان دیتے جارہے ہیں۔

ہم نہیں جانتے کہ ساکشی مہاراج کون صاحب ہیں لیکن موصوف دینی مدارس اور وہاں کے طلبہ اور طریقۂ تعلیم کے بارے میں ایسے بیان دے رہے ہیں جیسے خود بھی وہیں کے فارغ ہوں۔ اُن کے ارشاد کے مطابق دینی مدارس میں دہشت گردی اور جہاد کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ جی کا کہنا ہے کہ مسلم نوجوان جہاد کے جذبے سے غیر مسلم لڑکیوں کو ورغلا کر مسلمان کرتے ہیں اور اُس کے بعد شادی کرلیتے ہیں۔ اس عجیب و غریب اور بے بنیاد خیال کو یوگی جی نے لو جہاد کا نام بھی دے ڈالا۔ لو جہاد بھی کوئی نام ہے جہادِ عشق رکھتے تو کوئی بات ہوتی۔ کم سے کم فلمی نام تو معلوم ہوتا۔ مثلاً آج کل ایک فلم سنیما گھروں میں دکھائی جارہی ہے جس کا نام ہے ’’دعوتِ عشق‘‘۔آدتیہ ناتھ جی کو معلوم ہونا چاہئے کہ بین مذہبی شادیاں ہندوستان بلکہ ساری دنیا میں صدیوں سے ہوتی آئی ہیں۔ یہ مذہب کا معاملہ نہیں دل کا معاملہ ہے۔

تاریخ ہند میں اکبر بادشاہ بہت ہی مقبول ہے۔ اُسے اکبر اعظم بھی کہا جاتا ہے اور مغل اعظم بھی۔ اکبر اور رانی جودھا بائی کے رشتے کو کسی نے لو جہاد کا نام نہیں دیا۔ اندرا جی اور فیروز گاندھی کی شادی کو مہاتما گاندھی کا آشیرواد حاصل تھا۔ راجیو گاندھی اور سونیا جی کی شادی پر کسی کو اعتراض نہیں تھا۔ نواب آف پٹودی نے شرمیلا ٹیگور سے شادی کی۔ اُن کے فرزند سیف نے پہلے امریتا سنگھ سے اور اُس کے بعد کرینہ کپور سے بیاہ رچایا۔ اُردو کی مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی کی بیٹی اور بھتیجے نے ہندوؤں سے شادی کی۔ ایک اور ادیبہ سلمیٰ صدیقی نے کرشن چند سے شادی کرلی تھی۔ سنیل دت اور نرگس کی شادی بھی بہت کامیاب تھی۔ اپنے وقت کی مشہور اداکارہ ممتاز نے میورما دھوانی سے شادی کی تھی۔ سنجے دت نے مانیتا سے دوسری شادی رچائی جس کا اصلی نام دلنواز شیخ ہے۔ شاہ رخ خان مقبولیت میں امیتابھ بچن سے کم نہیں، اُن کی پتنی کا نام گوری ہے۔ عامر خان کی رفیق حیات کرن ہیں۔ اداکار شاہد کپور کی ماں نیلما عظیم نے پنکج کپور سے شادی کی تھی۔

ارباز خاں ملائیکا اروڑہ، ریتک روشن اور سزین خان کو کون نہیں جانتا۔ یوگی آدتیہ ناتھ جی شاہ نواز حسین اور مختار عباس نقوی کو ہم سے زیادہ جانتے ہوں گے۔ شاہ نواز جی کی دھرم پتنی کا نام رینو ہے اور نقوی کی شریک حیات سیما دونوں گھریلو خواتین ہیں۔ کیا اِن شادیوں کو آدتیہ ناتھ جی لو جہاد کا نام دیں گے؟
ابھی لو جہاد کا پروپگنڈہ چل رہا تھا کہ ایک نئی بات سننے میں آئی۔ ہم نے ایک اخبار میں دیکھا کہ دہلی کے پہاڑ گنج علاقے میں ایک تنظیم لو کمانڈوز کے نام سے کام کررہی ہے جو محبت کرنے والے جوڑوں کو بلا لحاظ مذہب و ملت اپنی پسند کی شادی میں مدد دیتی ہے۔ ماں باپ کی مخالفت میں خود سینہ سپر ہوجاتی ہے اور پولیس کی مداخلت پر محبت کرنے والے جوڑوں کو ضروری مدد پہنچاتی ہے۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ ہمارا ملک اتنا بڑا ہے ،یہاں اتنی زبانوں کے بولنے والے اور اتنے مذہبوں کے ماننے والے رہتے ہیں کہ یہاں تعصب اور تنگ نظری کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ جو لوگ مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں اُن کی توجہ ہم قرآن شریف کی دو مختصر آیات کی طرف دلانا چاہتے ہیں جن کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جس نے ایک انسان کا خونِ ناحق کیا اُس نے ساری انسانیت کا خون کیا اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اُس نے ساری انسانیت کی جان بچائی۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلا خونِ ناحق آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کا کیا تھا۔ تفسیر میں کہا جاتا ہے کہ آج بھی کہیں خونِ ناحق ہوتا ہے تو اُس کا عذاب قابیل کو بھی پہنچتا ہے کیونکہ یہ رسمِ بد اُسی نے شروع کی تھی۔ سچا مسلمان کبھی دہشت گرد نہیں ہوسکتا اور نہ قتل و غارت گری میں شریک ہوسکتا ہے۔

نریندر مودی جی نے عام انتخابات میں جو شاندار کامیابی حاصل کی، اُس کی اصل وجہ یہ تھی کہ اُنھوں نے سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا نعرہ دیا تھا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کئی قسم کے اسکام اور گھوٹالوں سے بھی لوگ بیزار ہوگئے تھے۔ ضمنی انتخابات میں پھر سے ’لو جہاد‘ اور دہشت گردی کو موضوع بنانا چاہا تو نتائج اچھے نہیں آئے۔ ہندوستان کے عوام کو فرقہ واریت اور دہشت گردی کا ہوّا کھڑا کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عوام کی اکثریت خوش حالی اور ترقی چاہتی ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بابری مسجد کے انہدام سے بھی کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہوا تھا بلکہ جو لوگ بابری مسجد گرانے میں پیش پیش تھے آج اُن کی حالت زیر و زبر ہے۔ یا ’خلوتیٔ ناز تھے یا کچھ بھی نہیں ہم‘ کے مصداق وہ آج اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ ہی ہمارے لئے سب سے اچھا نعرہ اور سب سے اچھا طریقہ کار ہے۔
بہرحال وزیراعظم کا بیان ہمت افزا ہے۔ اعتماد سے اعتماد پیدا ہوتا ہے اور بے اعتمادی سے بے اعتمادی۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ مودی جی کا یہ بیان اعتماد اور رواداری کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ بڑے سے بڑا سفر پہلے قدم سے شروع ہوتا ہے۔