آصف سادس کے عہد میں اردو ریاست حیدرآباد کی سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ

آرکائیوز کے ریکارڈ سے          ڈاکٹر سید دائود اشرف
آصف جاہی دور یا ریاست حیدرآباد میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے بارے میں بعض مضمون نگاروں نے لکھا ہے کہ چھٹے آصف جاہی حکمراں نواب میر محبوب علی خان آصف سادس کے فرمان یا ریاست کے وزیراعظم مہاراجا سر کشن پرشاد کے احکام کے ذریعہ فارسی کی بجائے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا گیا تھا۔ ریاست حیدرآباد میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے بارے میں یہ بیانات درست نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں آصف سادس کا فرمان یا مہاراجا کشن پرشاد کے احکام جاری نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی کسی ایک حکم نامے کے ذریعہ اردو کو ساری ریاست میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہوئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو کو ریاست حیدرآباد میں مکمل طور پر سرکاری زبان کی حیثیت حاصل کرنے میں پندرہ سال کا طویل سفر طے کرنا پڑا۔ آصف جاہی دور یا ریاست حیدرآباد میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے نافذ کروانے میں بشیر الدولہ کی کوششیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ سب سے پہلے 1871ء میں عدالتوں میں اردو میں اظہارات (بیانات) کی قلم بندی کی اجازت دی گئی۔ عدالتوں میں اس طرح داخلہ پانے پر اردو سازگار حالت سے دوچار ہوئی اور متعدد مراحل طے کرنے کے بعد 1884ء میں اسے عدالتوں میں مکمل طور پر رائج کیا گیا۔ اس کے صرف چند ماہ بعد محکمہ مال میں بھی اردو کا نفاذ عمل میں آیا۔ اس کے تقریباً دو سال بعد 1886 ء میں معتمدین کے دفاتر میں بھی اردو نافذ کردی گئی۔اس طرح ریاست حیدرآباد میں اردو نے کئی مراحل طے کرنے کے بعد مکمل طورپر سرکاری زبان کی حیثیت حاصل کی۔

ڈاکٹر سید مصطفی کمال کی کتاب ’’حیدرآباد میں اردو کی ترقی (تعلیمی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے)‘‘ میں اس موضوع پر مستند اور معتبر ماخذات کی بنیاد پر تفصیلی معلومات موجود ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آصف سادس کے دور میں اردو کو باقاعدہ سرکاری زبان کی حیثیت بتدریج حاصل ہوئی اور اس مفروضے کی بھی تردید ہوتی ہے کہ بہمنی (گلبرگہ اور بیدر)، عادل شاہی (بیجاپور) اور قطب شاہی (گولکنڈہ) سلاطین کے ادوار میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی تھی۔ میں تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز کے سارے ریکارڈز کی چھان بین کے بعد اس موقف میں ہوں کہ ڈاکٹر سید مصطفی کمال کی تحقیق کی توثیق و توضیح کے لئے مزید چند اہم سرکاری اسناد اور کاغذات کا حوالہ دے سکوں۔ ان اسناد اور کاغذات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردو کو دکن میں 1886 ء سے پہلے کبھی سرکاری زبان کی قانونی اور دستوری (Statutory) حیثیت حاصل نہیں تھی اور اس حیثیت کا تدریجی طور پر ارتقا عمل میں آیا تھا۔
ریاست حیدرآباد آصف جاہی دور میں سرکاری زبان کے طور پر اردو کے نفاذ کے بارے میں تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز کے ریکارڈ سے اخذ کردہ مواد کی بنیاد پر تفصیلی معلومات مہیا کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کا سرسری جائزہ لیا جائے کہ آیا اس سے قبل بھی دکن میں کبھی اردو کو سرکاری زبان کا موقف حاصل تھا یا نہیں۔
جیساکہ اوپر کہا گیا ہے کہ دکن میں آصف جاہی عہد کے دوران آصف سادس کے دور میں اردو کو پہلی بار سرکاری زبان کا مکمل درجہ حاصل ہوا لیکن یہ غلط فہمی عام ہے کہ دکن میں اس دور سے قبل بھی اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل تھی۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے یہ ہے کہ تاریخ فرشتہ کے بعض بیانات سے محققین کو مغالطے ہوئے اور انہوں نے ان بیانات کی تشریح کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بہمنی اور عادل شاہی عہد میں اردو سرکاری یا دفتری زبان تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی دور میں اردو کبھی سرکاری یا دفاتر کی زبان نہیں رہی۔ آندھراپردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی حکمرانوں کے فرامین کے علاوہ ان ادوار کے اسناد اور دیگر اہم نوعیت کے کاغذات ہزاروں کی تعداد میں محفوظ ہیں۔ ان تمام سرکاری یا دفتری کاغذات میں تقریباً تمام کاغذات فارسی میں ہیں لیکن چند ذولسانی کاغذات فارسی مرہٹی، فارسی کنڑی اور فارسی تلنگی میں بھی ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ آخری قطب شاہی حکمران ابوالحسن تاناشاہ کے چند فارسی فرامین کے تلنگی ترجمے بھی دستیاب ہیں لیکن ان تمام کاغذات میں کوئی کاغذ اردو میں نہیں ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ آرکائیوز میں محفوظ ماقبل آصف جاہی دور کے کاغذات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی دور میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل نہیں تھی۔
آصف جاہی دور یا ریاست حیدرآباد میں اردو زبان رائج کرنے کے لئے بشیر الدولہ کی کوششیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے فارسی کی بجائے اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لئے موثر انداز میں تحریک چلائی۔ اس وقت وہ صدر المہام (وزیر) عدالت تھے۔ وہ 1286ھ / 1869 ء تا 1300ھ / 1883ء تک صدر المہام عدالت رہے۔ بشیر الدولہ وہی ہیں جو بعد میں آسمان جاہ کے خطاب سے مشہور ہوئے اور میر لائق علی خان سالار جنگ دور کے بعد 1888ء میں مدار المہام (وزیراعظم) بنائے گئے اور 6 جمادی الاول 1311ھ / 16 نومبر 1893ء کو خدمت مدارالمہامی سے مستعفی ہوئے۔ جس وقت بشیر الدولہ صدر المہام عدالت تھے اور اردو کو عدالتوں میں رائج کرنے کی کوششوں میں مصرف تھے، اس وقت ریاست حیدرآباد کے مدارالمہام (وزیراعظم) سالار جنگ اول تھے۔ سالار جنگ اول 1853ء تا 1883 یعنی تیس سال تک ریاست کے مدارالمہام رہے۔ وہ ریاست کی تمام پالیسیوں کے خالق تھے اور ریاست کے نظم و نسق کی باگ ڈور مکمل طور پر ان کے ہاتھ میں تھی وہ اقتدار میں قاری کی بجائے اردو کو رائج کرنے کے مخالف تھے آرکائیوز میں محفوظ بشیر الدولہ صدر المہام، عدالت سے ان کی مراسلت اور سرور الملک کی کتاب ’’کارنامۂ سروری‘‘ میں موجود چند بیانات سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ سالار جنگ اول جیسے طاقتور وزیراعظم کی مخالفت کے باوجود بشیر الدولہ اردو کے نفاذ کے لئے اپنی کوششوں سے دست بردار نہیں ہوئے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتقال (8 فروری 1883ء) سے کچھ عرصہ قبل اردو کے بارے میں سالار جنگ اول کی پالیسی اور رویہ میں تبدیلی آگئی تھی۔

سالار جنگ کی جانب سے شمالی ہند سے طلب کردہ چند شخصیتوں نے فارسی کی بجائے اردو کو ریاست حیدرآباد کی سرکاری زبان بنانے میں اہم رول ادا کیا ہوگا۔ مہدی علی خان محسن الملک، سید حسین بلگرامی عماد الملک، مشتاق حسین و قارالملک، چراغ علی اعظم یار جنگ اور ڈپٹی نذیر احمد 1873ء تا 1877ء کے دوران حیدرآباد آئے۔ اس وقت تک بشیر الدولہ کو اپنی کوششوں میں ابتدائی کامیابیاں حاصل ہوچکی تھیں۔ اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ محسن الملک اور وقار الملک نے جو اس وقت نظم و نسق کے کلیدی عہدوں پر فائز تھے اردو زبان سے محبت اور جذباتی لگائو، شمالی ہند میں اردو کے خلاف مہم اور ریاست حیدرآباد میں اردو کے لئے سازگار ماحول کی وجہ سے اردو کے نفاذ کے سلسلے میں اگلے مرحلوں میں اہم رول ادا کیا ہوگا لیکن اس بارے میں اولیت کا سہر ابلاشبہ بیشر الدولہ ہی کے سر جاتا ہے۔
بشیر الدولہ نے 1869ء میں صدر المہام عدالت کے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ہی عدالتوں میں اصلاحات کی جانب توجہ دی۔ انہیں اس وقت اس بات کا شدید احساس ہوا کہ عدالتوں میں فارسی کا رواج غیر ضروری اور نامناسب ہے۔ ریاست حیدرآباد میں اگرچہ اردو مادری زبان والے اقلیت میں تھے لیکن یہ وہی زبان تھی جسے دوسری زبان والوں کی ایک بڑی تعداد سمجھتی تھی اور لکھنا پڑھنا جانتی تھی۔ اس کے علاوہ ریاست کے حکمران طبقے کی مادری زبان اردو ہی تھی جس وقت بشیر الدولہ عدالت کے صدر المہام ہوئے اس وقت عدالتوں اور سرکاری دفتروں میں فارسی استعمال ہوتی تھی جبکہ ریاست میں اردو کا رواج عام ہوگیا تھا۔ ان حالات میں بشیر الدولہ نے عدالتوں میں فارسی کی بجائے اردو رائج کرنے کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز کیا۔ چنانچہ انہوں نے عدالتوں میں اردو کے استعمال کے لئے سالار جنگ اول مدارالمہام سے خط و کتاب کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں مدارالمہام کی جانب سے صرف اس قدر اجازت دی گئی کہ اگر عدالت کے نظماء کی رائے ہو تو گواہوں یا اہل معاملات کے اظہارات (بیانات) اردو میں قلم بند کئے ہیں۔ (روبکار مدارالمہام سرکار عالی موسومہ صدر المہام عدالت نشان 658، مورخہ 29 ربیع الثانی 1288ھ / 18 جولائی 1871ء )
تقریباً پانچ سال بعد بشیر الدولہ کی کوششوں کی وجہ سے عدالت کے نظما کی رضامندی کی پابندی برخواست کردی گئی اور یہ امر لازمی قرار دیا گیا کہ جو لوگ اردو میں اظہار (بیان) دیتے ہیں ان کا اظہار اردو ہی میں قلم بند کیا جائے نہ کہ فارسی میں۔ اس کے علاوہ اہل مقدمات کو درخواستیں فارسی یا اردو میں دینے کا اختیار دیا گیا (گشتی محکمہ صدر المہام عدالت، نشان بلدہ (10) و نشان اضلاع (17) مورخہ پنجم جمادی الاول 1293ھ / 29 مئی 1876ء)
دو سال بعد اردو کی حمایت میں مزید یہ فیصلہ کیا گیا کہ گوشواروں اور فیصلوں میں بھی اظہارات بجنسیہہ اردو میں لکھے جائیں۔ ان کا فارسی ترجمہ گوشواروں اور فیصلوں میں درج کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہدایت دی گئی کہ تمہید و تجویز میں جب اظہارات کی عبارتوں اور الفاظ پر استدلال کی ضرورت پیش آئے تو ان موقعوں پر تجاویز لکھنے والوں کو اظہارات میں موجود بجنسیہہ وہی الفاظ نقل کرنے چاہیں جو بیانات دینے والوں کی زبان سے اظہارات میں لکھے گئے ہوں۔ (گشتی محکمہ صدر المہام عدالت نشان دیوانی (18) فوجداری (20) مورخہ 19 شعبان 1295ھ / 19 اگست 1878ء)

بشیر الدولہ کو جب اس بات کا اندازہ ہوا کہ اضلاع میں عدالتی کارروائیوں اور فیصلوں کی یکسوئی میں مختلف زبانوں کے رواج اور فارسی کے استعمال سے کئی رکاوٹیں درپیش ہیں اور اخراجات بھی زیادہ ہورہے ہیں تو انہوں نے اضلاع کے عدالتی عہدیداروں اور عملے کو اردو میں سرکاری خط و کتابت کے لئے اہل بنانے پر توجہ دی۔ بشیر الدولہ کی ان کوششوں کی جانب مدارالمہام کے ایک حکم میں انکشاف کیا گیا ہے۔ (حکم مدارالمہام، علاقہ عدالت، نشان فوجداری1 ، دیوانی 1 ، مورخہ 23 ربیع الثانی 1301ھ / 21 فروری 1884ء مطبوعہ جریدہ اعلامیہ مورخہ 27 ربیع الثانی 1301ھ / 25 فروری 1884ء)
عدالتوں میں اردو کے استعمال کے سلسلے میں بتدریج کئی اقدامات کئے گئے اور اس کے بعد اسے عدالتوں میں مکمل طور پر نافذ کرنے کے لئے حکمران ریاست آصف سادس کی رضامندی حاصل کی گئی۔ اس کے بعد سالار جنگ دوم مدارالمہام کے ایک حکم نامے کے ذریعہ اردو کا مکمل طور پر عدالتوں میں نفاذ عمل میں آیا۔ سالارجنگ دوم کے اس حکم نامے کی ابتداء میں عدالتوں میں بتدریج اردو کے استعمال کی تمام تفصیلات دی گئی ہیں اور پھر چند شرائط کے ساتھ عدالتوں میں اردو کے مکمل نفاذ کے لئے یہ لکھا گیا ’’مدارالمہام سرکاری عدالتی کارروائیوں میں ایک ایسی زبان کو مستعمل کرنا مناسب خیال کرتے ہیں جو عام فہم اور دفتری کارروائی کے لئے ہر طرح موزوں ہے اور جس کے رواج دینے کو حضرت بندگان عالی متعالی (آصف سادس) بھی بنظر فوائد ملک و سہولت اہل مقدمات پسند فرماتے ہیں۔ پس مدارالمہام سرکار عالی بہت خوشی کے ساتھ حکم دیتے ہیں کہ جس وقت سے عدالتی دفتروں میں اس حکم کی اطلاع ہو اس وقت سے عدالتی دفتروں کی کارروائی لازمی طور سے اردو میں عمل میں آوے گی۔‘‘ (حکم مدارالمہام، علاقہ عدالت، نشان فوجداری1 ، دیوانی 1 ، مورخہ 23 ربیع الثانی 1301ھ / 21 فروری 1884ء مطبوعہ جریدہ اعلامیہ مورخہ 27 ربیع الثانی 1301ھ / 25 فروری 1884ء)
عدالتوں میں اردو کے مکمل نفاذ کے احکام جاری ہونے کے اندرون چار ماہ، مال کے دفاتر میں بھی فارسی کی بجائے اردو رائج کرنے کے احکام جاری ہوئے۔ (گشتی نشان 20، مورخہ 8 شعبان 1301ھ / 3 جون 1884ء مطبوعہ جریدہ اعلامیہ جلد چہارم 28شعبان 1301ھ / 23 جون 1884ء) یہ اردو کی بڑی نمایاں کامیابی تھی۔ اس وقت ریاست حیدرآباد میں محکمہ مال کو بڑی اہمیت حاصل تھی کیوں کہ یہ محکمہ تقریباً تمام نظم و نسق اور حکومت کے کاروبار کا احاطہ کرتا تھا۔
عدالتوں اور مال کے دفاتر میں اردو کے رواج کے کامیاب تجربے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم میر لائق علی خان سلارجنگ دوم نے معتمدین کے دفاتر میں بھی اردو کے استعمال کو ضروری اور مناسب سمجھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک عرضداشت مورخہ 7 رمضان 1303ھ / 10جون 1886ء آصف سادس کی خدمت میں پیش کی جس میں انہوں نے لکھا ’’مدارالمہام کے تحت سرکاری دفاتر میں سوائے دفاتر معتمدین کے اردو زبان کو رائج ہوئے عرصہ ہوچکا اور اس تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ فارسی کے بہ نسبت اردو کا استعمال نہایت مفید اور حکومت کے کاروبار میں سہولت اور آسانی کا باعث ہے۔ اس لئے فدوی (سالار جنگ دوم) کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دفاتر معتمدین میں بھی فارسی کے بجائے اردو کا استعمال کیا جائے، خصوصاً اس وجہ سے کہ جو عرضداشت، خانہ زاد ( سالار جنگ دوم) پیش کرتا ہے اور جس پر حضرت (آصف سادس) کی جانب سے جو احکام جاری ہوتے ہیں وہ اردو میں ہوتے ہیں نیز کونسل آف اسٹیٹ کی تمام کارروائی اردو میں ہوا کرتی ہے۔ اس لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ مدارالمہام کے تحت کے دفاتر میں اور کونسل آف اسٹیٹ میں جس زبان کا استعمال ہو اس سے صرف مدارالمہام کے معتمدین کے دفاتر مستثنیٰ رہیں۔ امید ہے کہ سرکار، خانہ زاد کی اس تجویز کو پسند فرمائیں گے۔ اس کے فائدے سرکار پر روشن ہیں، ان کی تشریح و تصریح کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ آصف سادس نے مدارالمہام کی پیش کردہ تجویز کو منظوری دی۔ انہوں نے عرضداشت پر یکم ذی قعدہ 1303ھ / 2 اگست 1886ء کو بقلم خودیہ احکام تحریر کئے۔ ’’میں آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ معتمدین کے دفاتر میں بھی اردو جاری ہونا چاہئے۔‘‘ عدالت اور محکمہ مال میں اردو کے نفاذ کے بعد معتمدین کے دفاتر میں بھی اردو کے نفاذ کے لئے حکمران ریاست کی منظوری حاصل کرنے کے بعد محسن الملک، معتمد پولیٹکل و فینانس کی جانب سے تمام معتمدین اور محاسب کے نام سالارجنگ دوم، مدارالمہام کا حسب ذیل حکم مورخہ آخری قعدہ 1303ھ / 30 اگست 1886ء (مطبوعہ جریدہ سرکار، جلد چہارم مورخہ 11 ذی الحجہ 1303ھ / 10 ستمبر 1886 ء ص 222) جاری ہوا۔

’’حسب منظوری حضرت بندگان عالی متعالی مدظلہ العالی (آصف سادس) کے تمام دفاتر میں بجائے فارسی کے اردو کا جاری ہونا مناسب ہے۔ اس لئے آئندہ سے بجائے فارسی کے تمام تحریرات اردو میں ہوا کریں۔ خود مدارالمہام سرکار عالی بھی اردو ہی میں لکھا کریں گے اور متعین المہام صاجوں (وزیروں) کو بھی حضرت اقدس و اعلی کے اس حکم کی تعمیل کرنی چاہئے۔ نسبت دفتر ملکی (اس دفتر میں منجملہ دیگر امور کے برطانوی رزیڈنٹ سے مراسلت کی جاتی تھی) کے صاحب عالیشان بہادر (برطانوی رزیڈنٹ) سے دریافت کیا جاتا ہے۔ تا آنے جواب کے اوسدفتر میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی۔‘‘
معتمدین کے دفاتر میں بھی اردو نافذ کرنے کے بعد اردو کو ریاست حیدرآباد میں مکمل طور پر سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہوئی۔ پندرہ سال کی مدت میں سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کو جس طرح رواج دیا گیا اس تعلق سے حقائق اوپر پیش کئے گئے ہیں۔ میں یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کو رواج دینے کا جو عمل 1871ء میں شروع ہوا تھا وہ ریاست کے آخری حکمراں آصف سابع کے دور حکومت میں بیسویں صدی کے وسط تک اپنے نقطہ عروج کو پہنچ گیا اور یہ عمل ہندوستانی زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ اور مرتبہ دلانے کی روشن اور مستند مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔