اِک تم ہی نہیں تنہا نائیڈو…

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی حکومتوں کو موجودہ طور پر جس طرح کی صورتحال کا سامنا ہے اس میں مالیاتی مسائل، عوامی ضروریات اور انتخابی وعدوں کی تکمیل کے لئے سرکاری وسائل کی کمی ہے۔ دونوں ریاستوں میں حکومتوں نے اپنے وسائل کا جال پھیلادیا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ان دونوں ریاستوں کی اب تک کی نکمی حکومتوں یا بدعنوان قائدین نے عوام کی حق تلافی کی ہے۔ تلنگانہ میں نئی آزادی کی صبح طلوع ہوئی تو چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے والے کے چندر شیکھر راؤ نے بھی عوام سے بلند بانگ دعوے کئے تھے اور میٹھی نیند سلانے والی گولیاں بھی دی تھیں۔ اب دونوں ریاستوں کی حکومتوں نے اپنی حکمرانی کے 100 دن پورے کرلیئے ہیں تو عوام میٹھی نیند سے آہستہ آہستہ جاگ رہے ہیں۔ انہیں برقی کی قلت اور پانی کی عدم سربراہی کا مسئلہ حسب سابق بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکل اختیار کئے عوام کی میٹھی نیند والی خوابگاہ میں کھڑا ہے۔ اس کے باوجود عوام کو اس بھیانک شکل والی صورتحال سے خوف نہیں ہورہا ہے، اس کا مطلب حکومتوں یا سربراہوں کی دی گئی میٹھی گولیوں اور نشہ کا خمار ابھی باقی ہے۔ سنگاپور اور ملائیشیا کے دورے سے واپس ہونے والے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے ذہن میں کئی منصوبے ہیں، اور انہیں روبہ عمل لانے کی خواہش بھی ان کے اندر جاگ چکی ہے مگر مالی حالات اس کی اجازت نہیں دے سکیں گے، جس کا انہیں بہت جلد علم ہوگا۔ کے سی آر کو حاصل ہونے والی حکومت تلنگانہ عوام کی امانت ہے جب تک عوام ان کے ساتھ ہیں وہ حکومت میں رہیں گے۔ریاست میں روزگار کے مسائل ختم ہوں گے اور خوشحالی کا آنگن نغمہ گانے لگا تو پھر ٹی آر ایس حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تلنگانہ کے عوام نے حصولِ ریاست کے لئے جس قدر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور برداشت و رواداری کی مثال قائم کی، وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ عظیم جدوجہد سے تلنگانہ میں تلنگانہ والوں کی حکومت ہے۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ کسی بھی ریاست کی معیشت ہی سیاست کا رُخ متعین کرتی ہے ۔ جو ریاست معاشی طور پر کمزور اور ناکام ہو وہاں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ بلا شبہ عوام نے کے چندر شیکھر راؤ پر بھرپور اعتماد کیا ہے تو میدک لوک سبھا حلقہ کے ضمنی انتخابات میں بھی کے سی آر کی پارٹی کو کامیابی ملے گی، لیکن آپ کیلئے چیف منسٹر نے لوڈ شیڈنگ کرواکر ٹھیک نہیں کیا ہے۔ گرانی کا طوفان تھم نہیں سکا، بارش کا طوفان آنہیں سکا۔ ریاست کے ہر علاقہ میں اب عوام کو جان و مال عزت کا بھی ڈر پکڑنے لگا ہے۔

تلنگانہ کے صدر مقام حیدرآباد میں غنڈوں کا راج عوام کی نیند حرام کرچکا ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کے مزے ہیں، سیل فون، لیاپ ٹاپ، پین ڈرائیوز اور ہر ٹکنالوجی سے آراستہ قیدی نے اعلیٰ سطحی سیکورٹی والی جیلوں کی قلعی کھول دی ہے۔ چرلہ پلی جیل کے قیدی کی سیل فون پر بات چیت کی تصویر اخبارات میں شائع ہوچکی ہے تو شہر کے جنوب میں سانپ کے ذریعہ عوام کو ڈرانے اور لڑکیوں کی عصمت ریزی کرنے والے گروہ کی خبر بھی تشویشناک ہے۔ چیف منسٹر نے پولیس کو تو آرام دہ موٹر گاڑیاں، ایرکنڈیشنڈ سے آراستہ پولیس اسٹیشن فراہم کرنے شروع کئے ہیںتو جرائم کا گراف فروغ پانے پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔ پولیس خوش ہے کہ تلنگانہ کے چیف منسٹر نے انہیں نیا یونیفارم، نئی گاڑیاں اور مراعات دیئے ہیں تو آرام سے عیش کرنے میں کیا حرج ہے۔ کوئی ٹولی سانپ سے لوگوں کو ڈراتی ہے تو انہیں کیا۔ راہروؤں کی چین چھین لینے کی ٹولیاں شدت سے سرگرم ہیں تو کوئی پرواہ نہیں۔ ٹریفک جام سے پریشان عوام سڑکوں پر گھنٹوں پھنسے رہیں تو ٹریفک پولیس کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ میٹرو ریل پراجکٹ کے نام پر راستوں کی کھدائی اور اندھادھند ملبے کو بکھرا دینے سے راستہ چلنا دشوار ہوجائے تو کسی کوکیا پرواہ؟۔ عوام کے روز مرہ کے مسائل حل کرنے کی ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی جائے تو ہی حکومت کا دردِ سر کم ہوگا کیونکہ اگر حکومت عوام کی بہبود اور سہولتوں کی فراہمی کا منصوبہ بنائے گی تو سرکاری مشنری کو متحرک ہونا پڑے گا۔ لہذا چیف منسٹر نے اب تک جو طرز اختیار کیا ہے یہی ان کے آرام و سکون کیلئے مناسب ہے۔ یعنی عوام کو صرف وعدوں اور منصوبوں سے خوش کرتے جاؤ۔ اس لئے عوامی حلقوں میں یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ تلنگانہ کی نئی حکومت عوام کی ہمدرد ضرور ہے لیکن دَرد دُور کرنے کی حکمت نہیں رکھتی۔

آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو کے پاس عوام کا دَرد دُور کرنے کی حکمت ہے مگر وہ اپنے عوام تک پہنچنے کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ حیدرآباد میں بیٹھ کر عوام کا درد معلوم کرنے کی خواہش کے ساتھ چندرا بابو نائیڈو اسی شہر سے اپنی حکومت چلارہے ہیں تو آندھرا پردیش کے عوام کو ریاست کی تقسیم سے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ مسائل میں اضافہ ہونے کا مسئلہ تو ہر دو ریاستوں میں یکساں دکھائی دے رہا ہے۔ دونوں ریاستوں کی حکومتوں کو دستوری طور پر اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنی ہے۔ ان حکومتوں کے 100دن ہورہے ہیں، ابھی انہیں 1500 دن کام کرنا ہے۔ دونوں ریاستوں کے 8کروڑ عوام کی کم نصیبی یہ ہے کہ انہیں مسائل سے باہر نکالنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ تلگودیشم کو جنوبی ہند کی سب سے بڑی اور بی جے پی کی اتحادی جماعت ہونے کا اعزاز ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کو وزیر اعظم نریندر مودی سے قربت حاصل ہے اور وہ اس کا فائدہ اُٹھاکر دہلی کے چکر بھی کاٹ رہے ہیں۔ مگر عوام جن مسائل کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں اس کے باہر نکالنے کی فکر کا مناسب مظاہرہ نہیں کررہے ہیں۔ تلنگانہ حکومت بھی اپنے دارالحکومت میں عوام کو WiFi کی فراہمی کوششوں میں اُلجھی ہوئی ہے۔ جب ریاست یا شہر میں باقاعدہ برقی دستیاب ہی نہیں ہوگی تو وائی فائی کا کیا کام ہوگا؟ عوام کیلئے وائی فائی کا انتظام کرنے والی حکومت شہریوں کو امراض پھیلانے والے کیڑے مکوڑوں، مچھروں اور بیکٹیریا سے چھٹکارا دلانے میں ناکام ہے۔ حال ہی میں مرکزی وزارتِ صحت کے سنٹرل بیورو آف ہیلت انٹلی جنس کی جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دونوں ریاستوں آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں پھیلنے والی بیماریوں کا خطرناک جال فروغ پارہا ہے اور ان میں ٹی بی کا مرض شدت سے پایا جاتا ہے۔ غیر منقسم ریاست آندھرا پردیش کو ٹی بی مرض میں ملک کی سب سے زیادہ متاثرہ تیسری ریاست کا درجہ حاصل ہے۔ جہاں ٹی بی سے مرنے والوں کی تعداد اترپردیش 8,467 اور مہاراشٹرا 7674 کے بعد آندھرا پردیش میں 5,347 تک پہونچ گئی تھی۔ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ غیر منقسم ریاست میں بھی جنوری تا ڈسمبر 2013ء کے وسط میں ٹی بی کے 1.3لاکھ نئے مریض پائے گئے۔ ٹی بی سے ہٹ کر شہریوں کو ملیریا، ٹائیفائیڈ، چکون گنیا کا شکار ہونا پڑا ہے۔

شہریوں کو صاف ستھرا اور صحت بخش ماحول نہ ملے تو WiFi لے کر گھومنے والے شہری بھی جلد ان امراض کا شکار ہوں گے۔ دونوں شہروں میں سب سے زیادہ ابتر صورتحال صفائی کی ہے۔ کچرے کی نکاسی میں لاپرواہی بلدیہ کے عملے کی تاناشاہی، سڑکوں پر اُبلتی ہوئی موریوں کے تعلق سے ہر روز اخبارات میں تصاویر اور شکایتی مراسلے شائع ہونے کے باوجود متعلقہ حکام حرکت میں نہیں آتے ہیں تو یہ حکمرانی کی نااہلی اور کمزوری کی بدترین مثال ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اپنے لئے ایک پرانی آصف جاہی عمارت کی 20کروڑ روپئے خرچ کرکے تزئین نو کروارہے ہیں اور شہریوں کو شہر کی سڑکیں، گلی کوچے کھنڈر میں تبدیل کرنے حکام کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ سڑکوں کی توسیع کیلئے پراجکٹ ادھورے ہونے سے بھی جگہ جگہ سڑکوں کے دونوں جانب کھنڈرات کا جال دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں کے عوام یوں ہی ہر حکومت اور ہر حکمراں سے کہتے رہے۔ منا بھائی لگے رہو، مگر منا بھائی تو چنا بھائی نکلے۔ بلدیہ کے کارپوریٹرس بھی اس مثال کو زندہ رکھنے میں اپنا فرض ادا کررہے ہیں کہ ’ بلدیہ کھایا پیا چل دیا ‘ ۔ بہر حال متحدہ ریاست کی بربادی کیلئے نائیڈو کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا تھا، اب تلنگانہ کے لئے کے سی آر آگئے ہیں۔
اِک تم ہی نہیں تنہا نائیڈو
کے سی آر بھی ساتھ تمہارے ہیں
kbaig92@gmail.com