اُن سے ملنا ہو تو موسم نہیں دیکھا جاتا

راہول… بابو اتحاد ،مودی … شاہ کو جھٹکہ
اپوزیشن اتحاد کو طاقت … پٹیل کے نام پر نفرت کی مہم

رشیدالدین

سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا یا پھر یوں کہیں کہ دوستی یا دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ سیاستداں مشترکہ ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے اختلافات فراموش کرسکتے ہیں۔ یہ محاورہ اس وقت صادق آیا جب راہول گاندھی اور چندرا بابو نائیڈو نے ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد کیلئے کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے دونوں جماعتوں اور قائدین کو مشرق و مغرب کی طرح علحدہ کہا جاسکتا ہے لیکن ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کو 2019 ء میں دوبارہ برسر اقتدار آنے سے روکنے کیلئے دونوں جانب سے جس فراخدلی کا مظاہرہ کیا گیا یقیناً قابل ستائش اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 2019 ء عام انتخابات سے قبل مخالف بی جے پی یعنی سیکولر طاقتوں کے اتحاد کی جاریہ کوششوں میں اب تک کی یہ اہم کامیابی ہے۔ اترپردیش اور بہار میں کانگریس نے سیکولر طاقتوں کو متحد کیا لیکن قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد میں بعض رکاوٹیں تھیں لیکن چندرا بابو نائیڈو کی شمولیت نے مخالف بی جے پی محاذ کو عملی شکل دیدی ہے۔ اس اتحاد سے سیکولر طاقتوں کے حوصلے بلند ہوئے اور انہیں استحکام حاصل ہوا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مخالف کانگریس ایجنڈہ کے تحت این ٹی راما راؤ نے تلگو دیشم قائم کی تھی۔ انہوں نے قومی سطح پر نیشنل فرنٹ اور یونائٹیڈ فرنٹ کے قیام کے ذریعہ مخالف کانگریس پارٹیوں کو متحد کیا تھا۔ چندرا بابو نائیڈو کا دونوں محاذوں میں سرگرم رول تھا اور وہ یونائٹیڈ فرنٹ کے کنوینر بھی رہے۔ اٹل بہاری واجپائی کے دور میں چندرا بابو نائیڈو این ڈی اے سے وابستہ رہے اور ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائم کرنے میں اہم رول نبھایا۔ سیاسی میدان کے آل راؤنڈر کھلاڑی کا کانگریس سے اتحاد اپوزیشن کے لئے بڑی طاقت ہے۔ راہول گاندھی کی مقبولیت اور چندرا بابو نائیڈو کا تجربہ جب دونوں ایک ساتھ ہوجائیں تو 2019 ء کے لئے راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔ سیاستدانوں کا کوئی قدم سیاسی مقصد براری سے خالی نہیں ہوتا اور چندرا بابو نائیڈو کا کانگریس سے اتحاد ایک طرف آندھراپردیش میں دوبارہ اقتدار کو یقینی بنانے کی کوشش ہے تو دوسری طرف نریندر مودی اور امیت شاہ سے سیاسی انتقام لینا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو نے ریاستی اور قومی سطح کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانگریس سے اختلافات کو فراموش کردیا۔ گزشتہ چار برسوں میں بی جے پی حکومت نے ملک کا جو حال کیا ، اس سے چھٹکارا اور نجات ہر شہری کی خواہش ہے۔ تیسرے محاذ کے لئے ٹی آر ایس سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے بھی کوشش کی تھی لیکن انہیں اس لئے کامیابی نہیں ملی کیونکہ تیسرے محاذ کے نام پر وہ بی جے پی سے زیادہ کانگریس کو نشانہ بنانا چاہتے تھے ۔ گزشتہ چار برسوں میں بی جے پی کے کسی بھی حلیف نے اس کے لئے اس قدر مسائل پیدا نہیں کئے جتنے چندرا بابو نائیڈو کے ذریعہ آسکتے ہیں۔ نائیڈو نے اپنی سیاسی چالاکی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ملک کے ایک جہاندیدہ قائد اکثر کہا کرتے تھے کہ سیاست صرف دو لفظوں کا کھیل ہے۔ ’’صحیح وقت پر صحیح فیصلہ‘‘۔ جو سیاست داں یہ خوبی اور کمال حاصل کرلے ، وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ موجودہ صورتحال میں اتحاد کانگریس اور تلگو دیشم دونوں کی ضرورت بھی ہے۔ قومی سطح پر بی جے پی مخالف محاذ میں اہم جماعتوں کی ضرورت کے علاوہ کانگریس کو آندھراپردیش میں پارٹی کا احیاء کرنا ہے، جہاں 2014 ء میں مکمل صفایا ہوگیا۔ چندرا بابو نائیڈو کو وائی ایس جگن موہن ریڈی کی صورت میں مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہے۔ ان حالات میں یہ اتحاد ایک سیاسی مجبوری بھی ہے۔ مشترکہ دشمن سے مقابلہ کیلئے بسا اوقات اصولوں اور نظریات پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ بی جے پی اس لئے بھی خوفزدہ ہے کہ نائیڈو گھر کے بھیدی کی طرح ہیں جو دشمن کے خیمہ میں شامل ہوگئے۔ وہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی سیاسی چالوں سے بخوبی واقف ہیں۔
لوک سبھا کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی کو متواتر بحران اور تنازعات کا سامنا ہے۔ عدلیہ کے بعد سی بی آئی اور اب آر بی آئی کے تنازعہ نے حکومت کی شبیہہ کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اہم اداروں میں حکومت کی مداخلت کے سبب یہ صورتحال پیدا ہوئی ۔ کسی بھی دور میں عدلیہ ، سی بی آئی اور ریزرو بینک آف انڈیا کے امور میں حکومت نے اس قدر مداخلت نہیں کی جو آج کی جارہی ہے۔ ان اداروں کی خود مختاری اور آزادی پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے ۔ سیاسی مداخلت کے سبب اہم اداروں کی ساکھ متاثر ہوئی جس کے لئے وزیراعظم نریندر مودی راست طور پر ذمہ دار ہیں۔ بینکوں سے قرض کی اجرائی کے معاملہ میں وزارت فینانس نے آر بی آئی کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا ہے ، وہ دراصل بینک لوٹنے والے صنعت کاروں سے خود کو علحدہ کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ مودی حکومت سارا وبال بینکوں پر تھوپنا چاہتی ہے۔ حکومت کے معاشی فیصلوں کی ریزرو بینک نے جب مخالفت کی تو یہ حکومت میں شامل افراد کو برداشت نہیں ہوا۔ عدلیہ ، سی بی آئی اور آر بی آئی جیسے ادارے کمزور ہوجائیں تو پھر جمہوریت کو خطرہ لاحق ہونا ضروری ہے۔ جمہوریت کو بچانے کیلئے اپوزیشن جماعتوں نے قومی سطح پر اتحاد کی پیشرفت کی ہے۔ نریندر مودی کی مقبولیت کا امتحان چھتیس گڑھ ، راجستھان اور مدھیہ پردیش کے اسمبلی انتخابات میں ہوگا۔ تینوں ریاستوں میں مودی کو ابھی تک کوئی گرفت نہیں مل سکی۔ حالانکہ وہ اپنی لفاظی اور جملہ بازی کیلئے شہرت رکھتے ہیں۔ عام انتخابات سے قبل ملک میں فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کیلئے پھر ایک مرتبہ رام مندر مسئلہ کو ہوا دی جارہی ہے۔ مودی حکومت کے پاس کوئی کارنامہ ایسا نہیں جسے پیش کیا جاسکے ، لہذا پارٹی دوبارہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی طرف لوٹنا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا تنازعہ کی سماعت جنوری تک ٹال دی ہے ، اس کے بعد فرقہ پرست طاقتوں میں بھونچال آگیا۔ مندر کی تعمیر کیلئے حکومت پر قانون سازی کا دباؤ بڑھنے لگا ہے۔ آر ایس ایس ، وشوا ہندو پریشد کے علاوہ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ بھی دھمکی آمیز لہجہ میں گفتگو کر رہے ہیں۔ بی جے پی ایک رکن پارلیمنٹ نے مندر کی تعمیر کے لئے خانگی بل پیش کرنے کا اعلان کردیا ۔ دوسری طرف نریندر مودی اشتعال انگیزی میں کسی سے پیچھے نہیں۔ گجرات میں سردار پٹیل کے مجسمہ کی نقاب کشائی کے موقع پر مودی نے کہا کہ اگر سردار پٹیل نہ ہوتے تو چارمینار دیکھنے کیلئے ویزا کی ضرورت پڑتی۔ مودی نے اس طرح پرانے زخموں کو کریدنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا۔ مودی کے اس زہریلے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے مشیروں کے دل میں کس قدر زہر ہے۔ مودی کو حیدرآباد کا انضمام تو یاد ہے لیکن نظام حیدرآباد کا وہ گراں قدر عطیہ یاد نہیں جو انہوں نے پاکستان جنگ کے وقت ہندوستان کو دیا تھا۔ 1965 ء میں اس وقت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے جب نیشنل ڈیفنس فنڈ میں ملک بھر سے عطیات کی اپیل کی تو نظام حیدرآباد نواب میر عثمان علی خاں نے پانچ ٹن سونا مرکزی حکومت کو بطور عطیہ دیا۔ اس وقت ہندوستان بھر میں حکومت کو جو عطیات وصول ہوئے ، ان میں سب سے زیادہ عطیہ نظام حیدرآباد کا تھا جو ان کی وطن پرستی کا واضح ثبوت ہے۔ اس کے باوجود فرقہ پرست عناصر انہیں مخالف ہندوستان ظاہر کرتے ہیں۔ نظام حیدرآباد نے جو سونا دیا ، آج اس کی مالیت 1500 کروڑ ہے۔ ہندوستان پر جب کبھی برا وقت آیا ، مسلم حکمرانوں نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔ ہندوستان کی تاریخ میں آج تک کوئی اور محب وطن ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے ملک کیلئے نظام حیدرآباد کی طرح گراں قدر عطیہ دیا ہو۔ بی جے پی ، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار ایک بھی نام ایسا پیش نہیں کرسکتے کہ جس نے ملک میں ناگہانی حالات اور آفات سماوی کے وقت نظام حیدرآباد کی طرح گراں قدر عطیہ دیا ہو۔ جس شخص کو ملک کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، انہوں نے ایسا ریکارڈ قائم کیا کہ شائد ہی مستقبل میں کوئی اسے توڑ سکے۔ قومی سیاسی منظر پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
وہ ہمیں جب بھی بلائیں گے چلے جائیں گے
اُن سے ملنا ہو تو موسم نہیں دیکھا جاتا