اُردو کو برتو اور پھینکو

میرا کالم مجتبیٰ حسین
جیسا کہ آپ جانتے ہیں آج کی مصروف ترین زندگی میں Use and Throw یعنی استعمال کرو اور پھینکو کا رویہ دن بہ دن مقبول ہوتا جارہا ہے ۔ درحقیقت ہم اس رویہ کو رویہ نہیں بلکہ ’’یوز اینڈ تھرو کلچر ‘‘ کہتے ہیں ۔ اور یہ کلچر امریکہ کی دین ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ چیزیں صرف امریکہ میں ہی پھینکی جاتی ہیں اور ہمارے یہاں پھینکی نہیں جاتیں ۔ اصل میں غریب ملکوں کے ہم جیسے لوگ خاصے کفایت شعار اور محتاط ہوتے ہیں اور کسی چیز کو اُس وقت تک نہیں پھینکتے جب تک کہ ہمیں یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس چیز کے مزید استعمال میں آنے کے سارے امکانات ختم ہوچکے ہیں ۔ اسی لئے برتنوں ، پیالوں اور کٹوروں وغیرہ کو دھو دُھلا کر پھر سے استعمال کرتے رہتے ہیں جب تک کہ یہ خود سے ٹوٹ نہ جائیں ۔ امریکہ اور مغرب میں ایسی چیزیں کاغذ اور پلاسٹک وغیرہ کی مدد سے بنائی جاتی ہیں جنہیں استعمال کرتے ہی پھینک دیا جاتا ہے ۔ چیزوں کو برتنے اور پھینکنے کا یہ کلچر اتنا مقبول ہوگیا ہے کہ صرف چیزیں ہی نہیں بلکہ ملکوں ، قوموں اور افراد کو بھی استعمال کرنے کے بعد کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں پھینک دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ امریکہ میں جب پرانی نسل بوڑھی اور ازکار رفتہ ہوجاتی ہے اور مزید استعمال کئے جانے کے قابل نہیں رہتی تو نئی نسل پرانی نسل کو بوڑھوں کے گھر (Old Age Home) میں پھینک آتی ہے جہاں وہ کوڑے کرکٹ میں از خود تبدیل ہوکر معدوم ہوجاتی ہے ۔ یوں بھی امریکہ ملکوں اور قوموں کو استعمال کرکے کوڑے دان میں پھینکنے کا عادی ہے ۔ پہلے افغانستان اور پھر عراق کو ذرا دیکھئے کہ امریکہ نے کس طرح استعمال کرکے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے ۔ یہی نہیں فلسطینیوں اور عربوں کو تو آئے دن استعمال کرتا اور انہیں حسب توفیق اور حسب ضرورت پھینکتا رہتا ہے تاکہ پھینکنے کا سلسلہ اُس وقت تک رکنے نہ پائے جب کہ کہ عربوں کے پاس تیل کی دولت ختم نہ ہوجائے ۔ ’’ یوز اینڈ تھرو کلچر ‘‘ اسی کو تو کہتے ہیں ۔

ہم سے مشکل یہ ہے کہ بات شروع کرتے ہیں کوئی اور بات کہنے کے ارادے سے لیکن بات میں سے کچھ اس طرح بات نکلتی چلی جاتی ہے کہ دوسری باتوں میں اُلجھ جاتے ہیں اور اصل بات کہیں رہ جاتی ہے ۔ آج ہم اصل میں ایک نہایت اہم انگریزی کتاب Redifining Urdu politics in India کے بارے میں کچھ اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں جو پچھلے چار پانچ دنوں سے ہمارے زیر مطالعہ رہی ہے ۔ اس کتاب کے مولف ہمارے نوجوان دوست ، اسکالر اور صحافی ڈاکٹر اطہر فاروقی ہیں ۔ جو اپنی بے باکی ، راست گوئی اور اپنے مخصوص احتجاجی رویہ کے باعث بدنامی کی حد تک شہرت رکھتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کو نہایت مشہور و معروف پبلشر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپا ہے ۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ہم نے جیسے ہی اس کتاب کا مطالعہ ختم کیا ہماری نظر ایک خبر پر پڑی جس میں لکھا تھا کہ امریکہ کے سابق صدر جیرالڈفورڈ ، جو اب خاصے معمر ہوگئے ہیں ان دنوں شدید بیمار ہیں ۔ ایک طویل عرصے بعد دنیا کے سب سے مقتدر حکمران کے بارے میں ایک چھوٹی سی خبر کو پڑھ کر ہمیں خیال آیا کہ امریکہ کے صدور جب تک برسر اقتدار رہتے ہیں ملکوں اور قوموں کو امریکہ کے مفاد میں استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں لیکن جب یہ خود اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں تو امریکی عوام بھی انہیں ’ برتو اور پھینکو ‘ والے کلچر کا حصہ بنادیتے ہیں ۔ یقین نہ آئے تو امریکہ کے بعض بقید حیات سابق صدور کے حالات کا جائزہ لیجئے ۔ پھر ہم نے اپنے کفایت شعار اور محتاط معاشرے کے پس منظر میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہمارے ہاں ایسی کونسی چیز ہے جسے ہم استعمال کرکے پھینک دیتے ہیں ۔ غالباً اس کتاب کے مطالعے کا اثر ہی تھا کہ ہمارے ذہن میں اچانک اُردو زبان کا خیال آگیا جس کے ساتھ ہمارا معاشرہ پچھلی ایک صدی سے مختلف تقاضوں اور ضروریات کے تحت ’’ یوز اینڈ تھرو ‘‘ کا سلوک کرتا آیا ہے ۔

اس ملک کی پہلی جنگ آزادی صرف اور صرف اسی زبان میں لڑی گئی جس کی سزا دینے کے لئے ہمارے نو آبادیاتی حکمرانوں نے بڑی ہوشیاری سے اس زبان کے رسم الخط کو بنیاد بناکر اور اس زبان کا سہرا بیرونی حملہ آوروں کے سرباندھ کر ہمارے معاشرے میں ایک تہذیبی رخنہ پیدا کردیا ۔ عجیب بات ہے کہ اس نوآبادیاتی لسانی نظریہ کو ہمارے فرقہ پرستوں نے نہ صرف قبول کیا بلکہ اس پر آج تک قائم ہیں ۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اس نظریہ کا پرچار بھی شروع شروع میں اردو رسم الخط والی زبان میں ہی ہوا اور جب فرقہ پرست عناصر اپنے نظریہ کے پرچار میں مستحکم اور خود مکتفی ہوگئے تو انہوں نے اُردو کو استعمال کرکے پھینک دیا ۔ پھینکے جانے کے اس عمل کے باوجود ملک کی آزادی تک یہ زبان عوامی سطح پر مستحکم اور توانا رہی ۔ اس کے بعد سیاسی سطح پر مختلف موقعوں ، مختلف اغراض اور مختلف مفادات کے تحت اس زبان کو پھینکنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ اس بدقسمت اور مظلوم زبان پر نہ صرف پاکستان کی تشکیل کا بلکہ بنگلہ دیش کے قیام کا بھی الزام عائد کیا گیا ۔ اسے پھینکنے کے عمل میں وہ شدت پیدا ہوئی کہ سیاست دانوں کو صرف الیکشن کے وقت ہی اُردو کی یاد آتی رہی اور وہ اسے ’’ عید کی شیروانی ‘‘ کے طور پر استعمال کرتے رہے ۔ اگرچہ یہ زبان اب مسلمانوں کی زبان کہلانے لگی ہے ۔ لیکن مسلمانوں کے طبقہ نے بھی اسے پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔یہاں تک کہ اس کا کوئی علاقہ مستحکم توانا اور فعال باقی نہیں رہا ۔ اس وقت ہمیں اُردو کے ایک نامی گرامی پروفیسر کی یاد آگئی جنہوں نے زندگی بھر اردو کو استعمال کیا ۔ اس کی روٹی روزی کھاتے رہے ۔ اس کے ذریعہ ساری دنیا میں شہرت اور نیک نامی حاصل کی لیکن جب امریکہ چلے گئے تو وہاں جاکر خود اردو کے خلاف ایک ایسی زہریلی کتاب لکھی جسے پڑھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ پروفیسر صاحب زندگی بھر اردو کو صرف اس لئے استعمال کرتے سمیٹتے اور یکجا کرتے رہے کہ بعد میں اسے کوڑے کرکٹ کی صورت میں امریکہ میں لے جاکر پھینک سکیں ۔ کیا موزوں جگہ چنی ہے پروفیسر صاحب نے اردو کی شکل میں اپنی زندگی بھر کی کمائی اور نیک نامی کو پھیکنے کیلئے ،آخر کو ’برتو اور پھینکو کلچر ‘ کا قبلہ و کعبہ تو امریکہ ہی ہے ۔

صاحبو ! اطہر فاروقی کی کتاب کے مطالعے کا ہی اعجاز ہے کہ ہمارے دل میں اردو کے لئے اچانک ایسا سوز اور ایسا گداز پیدا ہوگیا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں اطہر فاروقی اردو کے اسکالر ہیں لیکن اردو کے مسائل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہونچانے کی غرض سے کبھی کبھار اردو میں لیکن اکثر و بیشتر انگریزی میں مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں اردو کے سچے Activist ہیں ۔ اردو کے سلسلے میں ہونے والی ناانصافیوں اور اردو اداروں میں ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف انہوں نے ہمیشہ بیباکانہ مگر عالمانہ انداز میں لکھا ۔ آزادی کے بعد اردو کے سیاسی و سماجی پہلوؤں کا انہوں نے نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا ہے جس پر انہیں جواہر لال نہرو یونویرسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی ہے ۔ اس موضوع پر انہوں نے پورے انہماک کے ساتھ دس برسوں تک نہایت معروضی انداز میں ریسرچ کرنے کے علاوہ مختلف اعداد و شمار بھی جمع کئے ۔ یہ بات باعث افتخار ہے کہ مشہور برطانوی اسکالر رالف رسل نے 1996 میں اپنا جو مشہور مقالہ Urdu in India Since Independence لکھا ۔ اس کی بنیاد ہی اطہر فاروقی کی ریسرچ اور تحریروں پر تھی ۔ ہمیں یاد ہے کہ اطہر فاروقی نے ذاکر حسین اسٹیڈی سرکل کی جانب سے 2002 میں ایک بین الاقوامی اردو کانفرنس منعقد کی تھی ۔

جس میں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں سے سماجی علوم کے اساتذہ کے علاوہ ہندوستان کے ماہرین تعلیم اور دانشوروں نے شرکت کی تھی ۔ یہ ایک تاریخ ساز کانفرنس تھی۔ جس میں پڑھے گئے اکثر مقالے زیر نظر کتاب میں شامل ہیں ۔ سارے مقالہ نگاروں نے دیانت داری اور عرق ریزی کے ساتھ نہایت معروضی انداز میں اردو کے موجودہ موقف اور صورتحال کا جائزہ لیا ہے۔ جس کے بعد اس زبان کے سارے ہی پہلو اپنے سیاق و سباق کے ساتھ نمایاں ہوگئے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب کے ہر مقالے کے موضوع پر ایک کتاب الگ سے لکھی جاسکتی ہے ۔ اس اعتبار سے 332 صفحات کی اس کتاب میں اردو زبان کے ہر ایک موضوع پر نہایت منصوبہ بند اور جامع انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس کے مطالعے سے ایک حقیقت یہ واضح ہوجاتی ہے کہ جب تک اردو کو ہمارے عام اسکولی نظام میں نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا تب تک اس کے فروغ کی صورتنظر نہیں آتی ۔ اس کتاب کے مرتب کی حیثیت سے ڈاکٹر اطہر فاروقی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ان مضامین کو اکٹھا کرکے کتابی صورت میں شائع کیا ہے ۔ ہر مقالہ نگار نے اپنے موضوع کے ساتھ نہ صرف انصاف کیا ہے بلکہ ایک لائحہ عمل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ اردو کی موجودہ بری صورتحال پر اس سے اچھی کتاب کوئی اور شائع نہیں ہوئی ہے ۔ کیا ہی اچھا ہوکہ کوئی اردو ادارہ اس کتاب کا اردو ایڈیشن بھی شائع کرے ۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ، وائی ایم سی اے لائبریری بلڈنگ ، جے سنگھ روڈ نئی دہلی 110001 سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اس کی قیمت 595 روپئے ہے ۔
( ایک پرانی تحریر )