اُردو اور حب الوطنی

محمد ایوب
وہ زبان جس نے وطن کو تحریک آزادی کا سب سے مقبول نعرہ دیا اور جدوجہد ِ آزادی کے دوران حب الوطنی سے متعلق لاثانی شاعری پیش کی، اُسے تقسیم ہند سے سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ خصوصیت سے مسلمانوں کے ساتھ غلط طور پر جوڑ دینے اور پاکستان کی جانب سے اپنی سرکاری زبان بنائے جانے پر اُردو آزادی سے ہندوستان میں پچھڑ گئی۔
’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ اُردو کے شاعر اور مجاہد آزادی حسرت موہانی نے 1921ء میں لگایا جو اُن لاکھوں لوگوں کا بنیادی نعرہ بن گیا جنھوں نے گاندھی جی کی قیادت میں مارچ کرتے ہوئے برطانوی راج کو ختم کردینے کا مطالبہ کیا۔ سبھاش چندر بوس نے اپنی انڈین نیشنل آرمی کیلئے کسوٹی کے طور پر تین اردو الفاظ ’اتحاد، اعتماد، قربانی‘ منتخب کئے تھے۔
شاعر و فلسفی محمد اقبالؔ کے غنائی نظم ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کو عین ممکن تھا کہ قومی ترانہ کے طور پر اختیار کرلیا جاتا۔ تحریک آزادی کے دوران سارے ملک میں یہی گیت گونجتا رہا جس کے جھنجھوڑ دینے والے اشعار خوب ہیں جیسے
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اس نظم کو ملک کے قومی ترانہ کے طور پیش کیا گیا جب کہ ہندوستان آزادی کی طرف بڑھنے لگا تھا اور اسے ڈسمبر 1946ء میں دستورساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں ترنم کے ساتھ پڑھا گیا۔ اگر پاکستان نے اقبال کو مسلم مادروطن کے نظریہ کا اصل محرک قرار نہ دیا ہوتا تو یہ نظم جو اس کی سادگی اور جذبات کی شدت میں اپنا جواب نہیں رکھتی، اسے یقینا قومی ترانہ کے طورپر اختیار کرلیا جاتا۔
اُردو شاعری حب الوطنی اور برطانوی راج کی مزاحمت کے اظہار کیلئے بڑی محرک ثابت ہوئی۔ رام پرساد بسملؔ کا شعر ’’سرفروشی کی تمنا اَب ہمارے دل میں ہے؛ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘‘ یکایک بہت شہرت اختیار کرگیا جب معلوم ہوا کہ بھگت سنگھ نے تختہ دار پر جاتے ہوئے یہی الفاظ پڑھے۔ جوشؔ ملیح آبادی کا مصرع ’’میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب‘‘ نے اُس دور کے جذبے کو مختصر اور واضح انداز میں پیش کردیا تھا۔
اقبالؔ نے ایک زبردست نظم ’’نیا شیوالا‘ بھی لکھی جسے واجبی شہرت حاصل نہ ہوئی۔ اس میں اقبالؔ استدلال پیش کرتے ہیں کہ ہندوستانیوں کو اپنے اختلافات فراموش کرتے ہوئے کسی مخصوص خدائی کی بجائے ہندوستان کیلئے وقف عبادتگاہ کو تعمیر کرنا ہی ہوگا۔ تخیل میں برہمن سے گفتگو کرتے ہوئے اقبالؔ اول الذکر کی نکتہ چینی کرتے ہیں کہ وہ ہم وطنوں کے تئیں عداوت رکھتا ہے۔ بہ یک وقت وہ مسلم مبلغ کو موردِ الزام ٹھیراتے ہیں کہ اپنے خدا سے تشدد کے سوا کچھ سیکھا نہیں ہے۔ اقبالؔ جھنجھوڑ دینے والے دعوے کے ساتھ اختتام کرتے ہیں: ’’آخرکار، مایوس دلی کے ساتھ میں نے مندر اور مسجد دونوں کو چھوڑ دیا ہے؛ میں نے مسلم مبلغ کے وعظوں اور آپ کی (دیومالائی ) کہانیوں کو سننا ترک کردیا ہے؛ آپ سمجھتے ہو کہ خدا آپ کی پتھر اور گارے کی مورتیوں میں بستا ہے؟ میرے لئے، میرے وطن کے ہر ذرہ میں خدا ہے‘‘۔
اب وقت ہے کہ ہندوستان کی مجموعی قومی شناخت جس کو موجودہ طور پر فرقہ پرستی اور جابرانہ حب الوطنی کی انتشار پسند قوتوں سے خطرہ ہے، اس کی تعمیر میں اُردو کے منفرد رول کو بحال کیا جائے!