اوقات سحر و افطار میں احتیاط

سوال :  عرصہ قدیم سے شہر حیدرآباد اور متصلہ علاقہ جات میں سرکار عالیہ کے منظورہ پنجوقتہ نماز کے نظام الاوقات کے مطابق نمازوں کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ اس نظام الاوقات کے لحاظ سے سحر کے انتہائی وقت اور فجر کے ابتدائی وقت میں 22 منٹ کا وقفہ ہے لیکن یہ دیکھا جارہا ہے کہ بعض مساجد میں فجر کی اذاں ابتدائی وقت کے شروع ہونے سے 5 منٹ پہلے ہی دی جارہی ہے۔ براہ کرم وضاحت فرمائیں کہ آیا یہ درست ہے کہ وقت سے پہلے فجر کی اذاں دی جائے۔ اس طرح غیر متعلقہ حضرات مغرب کی اذاں وقت سے پہلے دے رہے ہیں جس سے افطار کے وقت روزہ داروں میں الجھن ہورہی ہے ۔ براہ کرم اس مسئلہ پر بھی ازراہ کرم توجہ فرمائیں۔
منتظم مسجد شجاعت، ٹولی چوکی
جواب :  شہر حیدرآباد میں اہل السنتہ والجماعت کی طرف سے شائع ہونے والے نظام الاوقات میں انتہائے وقت سحر و ابتدائے وقت فجر میں (22) منٹ کا جو وقفہ ہے، اس میں دس منٹ کی وقت سحر میں تقدیم اور بارہ منٹ کی وقت فجر میں تاخیر احتیاطاً ملحوظ ہے۔ کیونکہ گھڑیالوں میں تفاوت ظاہری امر ہے ۔ اگر کسی کی گھڑی درست ہو تو وہ سحر میں دس منٹ تک کھا سکتا ہے ، اگر گیارہ منٹ ہوجائیں تو فاقہ ہوگا ۔ اس لئے متعلقہ نظام الاوقات کے ابتدائے وقت فجر تک سحری کھانے سے روزہ نہیں ہوگا۔
ابتدائے وقت مغرب میں احتیاطاً پانچ منٹ کا فرق ہے ، اگر وقت افطار میں تاخیر ہو تو کراہت ہے، لیکن خدانخواستہ وقت سے قبل روزہ کھولیں تو پورا روزہ فاسد ہوگا۔ لہذا قدیم سے جو عملدر آمد ہے اسے برقرار رکھیں۔ صورت مسئول عنھا میں مساجدکے ذمہ داروں کو اپنے عمل سے باز آنا چاہئے چونکہ اس سے روزہ داروں کے روزے خراب ہونے اور امت میں انتشار کا خدشہ ہے۔

اقساط میں زکوٰۃ ادا کرنا
سوال :  عرض کرنا یہ ہے کہ میری اہلیہ کے پاس زکوٰۃ کے نصاب کی بقدر زیور موجود ہے لیکن میں صاحب نصاب نہیں لیکن چونکہ ان کے ہاں کچھ ذریعہ آمدنی نہیں ان کی تمام ضروریات کا میں ہی ذمہ دار ہوں ۔ چنانچہ زکوٰۃ بھی ہر سال میں ہی نکالتا ہوں ۔ اہلیہ کی جانب سے لیکن رمضان المبارک میں عید کی تیاری وغیرہ کیلئے گھریلو اخراجات دوگنے ہو جاتے ہیں ۔ اس صورت میں کیا میں میری ا ہلیہ پر عائد ہونے والی زکوٰۃ کو اقساط پر نکال سکتا ہوں یا یکمشت ادا کرنا ضروری ہے ۔ برائے کرم بیان فرمائیں۔
محمد عثمان علی ، تیگل کنٹہ
جواب :  سال ختم ہوتے ہی فوراً زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے ۔ بلا عذر تاخیر سے انسان گناہ گار ہوتا ہے ۔ عالمگیری جلد 1 صفحات 170 کتاب الذکوٰۃ میں ہے : و تجب علی الفور عند تمام الحول حتی یاثم بتاخیرہ من غیر عذر و فی روایت الرازی علی التراخی حتی یاثم عند الموت و الاول اصح کذا فی التھذیب۔ ادا کرنے کی شرط یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والا یا تو دینے کے وقت زکوٰۃ کی نیت کریں یا مال میں سے رقم  زکوٰۃ علحدہ کرنے کے وقت زکوٰۃ کی نیت کرلے۔ پھر فقیروں کو دیتا جائے۔ فقیروں کو چونکہ متفرق اوقات میں قسطوں پر دینا پڑتا ہے اور ہر وقت تمام مال سے زکوٰۃ کی نیت سے تھوڑی تھوڑی رقم نکال کر فقیروں کو دیتے جانا مشقت و تکلیف کا باعث ہے ۔ اس لئے شارع  نے علحدہ کرنے کے وقت زکوٰۃ کی نیت کو کافی اور ضروری قرار دیا ہے۔ پھر اس کے بعد ہر وقت ضرورت قسطوں پر فقیروں کو بلا نیت کے بھی ادا کردیں تو درست ہے۔ اسی جگہ عالمگیریہ میں ہے : و اما شرط ادائھا فنیۃ مقارنۃ للاداء او لعزل ما وجب ھکذا فی الکنز۔ تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق جلد 1 صفحہ 256 کتاب الزکوٰۃ میں ہے : والحاصل فیہ الاقتران بالأداء کسائر العبادات الا ان الدفع یتفرق فیحرج باستحضار النیۃ عند کل دفع فاکتفی لو جودھا حالۃ الغزل دفعا للحرج۔
بناء بریں صورت مسئولہ میں قسطوں پر ادائیگی زکوٰۃ اس وقت درست ہے جبکہ ہمیشہ فقیروں کو دینے کے وقت ادائے زکوٰۃ کی نیت کی جائے ۔ چونکہ سال ختم ہوتے ہی فوراً زکوٰۃ ادا کرنا لازمی ہے۔ اس لئے چاہئے کہ رقم نصاب سے فوراً مقدار زکوٰۃ علحدہ کر کے فقراء و مساکین پر تقسیم کردی جائے ۔ اگر نصاب میں چاندی کے زیورات یا ٹکڑے ہیں ، جن کا فروخت کرنا مقصود نہیں اور نہ اس کو ٹکڑے کر کے فقراء پر تقسیم کرسکتے ہیں تو ایسی حالت میں بہتر یہ ہے کہ زکوٰۃ کی مقدار رقم خرچ لیکر فقراء پر فوراً تقسیم کردی جائے اور اپنی آمدنی سے اس کی ادائیگی کرلی جائے تاکہ تاخیر کا گناہ سے نجات ملے اور وجوب اداء ذمہ سے ساقط ہوجائے۔ بروقت ضرورت قرض لیکر رقم زکوٰۃ ادا کرنا اور قرض کی ادائیگی کرنا شرعاً درست ہے۔ عالمگیریہ کتاب الزکوٰۃ صفحہ 182 مسائل شتیٰ میں ہے : ولو اخر زکوٰۃ المال حتی مرض یودی سرا من الورثۃ و ان لم یکن عندہ مال و اراد ان یستقرض لاداء الزکوۃ فان کان فی اکبر رأیہ انہ اذا استقرض و ادیٰ الزکوٰۃ و اجتھد لقضاء دینہ یقدر علی ذلک کان الافضل لہ ان یستقرض

قرض حسنہ پر زکو ٰۃ
سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی کی رقم پر قرض حسنہ ہو تو مالک پر زکوٰۃ اس رقم کی واجب الادا ہے یا نہیں ؟
عبدالرحمن ملک، عنبر پیٹ
جواب :  رقم قرضہ بمقدار نصاب زکوٰۃ ہے تو ایک سال گزر جانے کے بعد مالک پر اس کی زکوٰۃ واجب ہے ، مگر اس کی ادائی اس وقت کرے جبکہ وہ وصول ہوجائے ۔ اگر قسطوں پر وصول ہوتی ہے تو جب اس مقدار پر وصول ہو کہ جس کی زکوٰۃ میں درہم سے کم دینا پڑتا ہے تو یہ معاف ہے اور اگر ایک درہم سے اس وصول شدہ رقم کی زکوٰۃ ہوتی ہے تو رقم کے وصول ہوتے ہی اس کا اداء کرنا واجب ہے ۔ ایسا ہی جس قدر رقم وصول ہوتی جائے زکوٰۃ  میں پورے درہموں کی مقدار واجب الادا ہے  اور ازروئے حساب ایک درہم یا کئی درہموں کی مقدار پر زکوٰۃ کی جو کسر آتی ہے وہ معاف یعنی واجب الادا ء نہیں ہے ۔ در مختار مطبوعہ برحاشیہ رد المحتار مصری جلد 2 صفحہ 36 کتاب الزکوۃ میں ہے : (و) اعلم ان الدیون عندہ الامام ثلاثۃ قوی و متوسط و  ضعیف (فتجب) زکاتھا اذا تم نصابا و حال الحول لکن لا فورا ً بل (عند قبض اربعین درھما من الدین  القوی) کقرض و مال تجارۃ فلما قبض اربعین درھما یلزمہ درہم ۔ رد المحتار میں ہے : (قولہ عند قبض اربعین درھما) قال فی المحیط لأن الزکوٰۃ لا تجب فی الکسور من النصاب الثانی عندہ مالم یبلغ اربعین للحرج فکذالک لا یجب الاداء مالم یبلغ اربعین للحرج۔

مرحومہ کے زیور سے زکوٰۃ
سوال :  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زوج کے پاس اس کی زوجہ مرحومہ کے زیورات ہیں۔ کیا اس کی زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں ؟
فیصل بن حسن، زہرہ نگر
جواب :  انسان کے مرجانے کے بعد اس کا تمام مال متروکہ کہلاتا ہے ۔اس سے میت کی تجہیز و تکفین و قرض و وصیت کی ادائی کی جاتی ہے اور باقی بحیثیت میراث حسب فرائض ورثہ کی ملک میں آجاتا ہے ۔ عالمگیریہ جلد 6 صفحہ 447 کتاب ا لفرائض میں ہے : الترکۃ تتلق بھا حقوق اربعۃ جہاز المیت و دفنہ والدین و الوصیۃ و المیراث اور میراث کی تعریف اسی صفحہ میں اس طرح کی گئی ہے : والارث فی اللغۃ البقاء میں الشرع انتقال مال الغیر الی الغیر علی سبیل الخلاقۃ کذا فی خزانۃ المفتین ۔ صورت مسئولہ میں زوجہ کی تجہیز و تکفین تو مالدار ہونے کی حالت میں بھی زوج ہی کہ ذمہ ہے جیسا کہ درمختار مطبوعہ برحاشیہ رد المحتار جلد 1 صفحہ 606 باب الجنائز میں ہے : و اختلف فی زوج و الفتویٰ علی وجوب کفنھاعلیہ وان ترکت مالا ۔مگر اسے متروکات سے ادائے قرضہ اور ثلث مال میں وصیت کا جاری کرنا ضروری ہے ، اس کے بعد جو مال باقی رہے وہ اور قرض و وصیت نہ ہونے کی صورت میں کل مال بحیثیت میراث ورثہ کی ملک ہے ، چاہئے کہ حسب فرائض تقسیم کردیا جائے ۔ ہر ایک وارث کو اس مال سے جس قدر حصہ ملے گا شرائط زکوٰۃ پوری ہونے کے بعد اس وارث پر اس مال کی زکوٰۃ واجب ہے۔

سادات کو زکوٰۃ دینا
سوال :  کیا سادات اکرام کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ، بعض اصحاب یہ کہتے ہیں کہ بطور نذرانہ سادات کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں کیونکہ اگر صاف مال میں سے سادات کو امداد کریں گے تو سادات کی خاطر خواہ خدمت نہیں ہوسکتی ۔ لہذا سادات اکرام کو بھی زکوٰۃ بطور نذرانہ دینا چاہئے ، کیا یہ صحیح ہے ؟ براہ کرم حوالے جات کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں۔
سید رفیع الدین، اولڈ بوئن پلی
جواب :  اگرچیکہ بعض متاخرین نے موجودہ زمانے کے لحاظ سے سادات کو زکوٰۃ دینے کی اجازت دی ہے ، مگر صحیح اور قوی قول یہ ہے کہ ناجائز ہے۔ در مختار مطبوعہ برحاشیہ رد مختار جلد 2 صفحہ 98 کتاب الزکوٰۃ میں ہے۔ ثم ظاھر المذہب اطلاق المنع و قول العینی و الھاشمی یجوز لہ دفع زکوٰتہ لمثلہ صوابہ لا یجوز ۔ البحر الرائق جلد 2 صفحہ266 میں ہے : و اطلق الحکم فی بنی ہاشم ولم یقیدہ بزمان ولا بشخص للاشارۃ لرد روایۃ ابی عصۃ عن الامام انہ یجوز الدفعہ الی بنی ہاشم فی زمانہ وللاشارۃ الی رد الروایۃ بان الھاشمی یجوز لہ ان یدفع زکوٰتہ الی ہاشمی مثلہ لان ظاہر الروایۃ المنع مطلقا۔ عالمگیریہ جلد 1 صفحہ 189 میں ہے : ولا یدفع الی بنی ہاشم و ہم آل علی و آل عباس و آل جعفر و آل عقیل و آل حارث بن عبدالمطلب و یجوز الدفع الی من عداھم کذریۃ ابی لہب لانھم لم یناصرو النبی صلی اللہ علیہ وسلم کذا فی السراج الوہاج ۔ زکوٰۃ اور نذر و عشر و کفارات کے سوا دوسرے جو نفل صدقات ہیں اگر سادات و بنی ہاشم کو دیئے جائیں تو جائز ہے ۔ عالمگیریہ میں اسی جگہ ہے : ھذا فی الواجبات کالزکوٰۃ والنذر والعشر والکفارۃ فاما التطوع فیجوز الصرف الیھم کذا فی الکافی ۔

تین روز کا اعتکاف
سوال :  ہمارے محلہ کی مسجد میں رمضان میں صرف تین روز کا اعتکاف ہوتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کافی ہے جبکہ زید کہتا ہے کہ اعتکاف دس دن کا کرنا ہے ورنہ تمام محلہ کے لوگ گنہگار ہوں گے۔ شرعی حکم کیا ہے بیان کیجئے؟
قادر خان، زہرہ نگر
جواب :  رمضان المبارک کے آخری دہے کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایۃ ہے۔ محلہ کی مسجد میں مکمل آخری دہے میں کوئی نہ کوئی اعتکاف رکھنا چاہئے ورنہ سب گنہگار ہوںگے۔ الدرالمختد جلد 2 باب الاعتکاف ص 141 میں ہے (وسنۃ مؤکدۃ فی العشر الاخیر من رمضان) ای سنۃ کفایۃ کما فی البرھان و غیرہ ۔ اور ردالمحتار میں ہے : قولہ (ای سنۃ کفایۃ) نظیرھا اقامۃ التراویح بالجماعۃ ۔ فاذ اقام بھا البعض سقط الطلب عین الباقین ۔