اورنگ زیب کے متعلق غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں حقائق ۔ مستند مواد کی روشنی میں

ڈاکٹر سید داؤد اشرف
1657ء میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں کی سخت علالت کی اطلاع پا کر اس کے چاروں بیٹوں داراشکوہ ، شجاع ، اورنگ زیب اور مراد بخش کے مابین اقتدار کے حصول اور جانشینی کے لئے سخت رسہ کشی اور معرکے ہوئے ۔ دہلی کے دیگر تین دعویداروں کو اپنے راستے سے ہٹانے میں اورنگ زیب کو کامیابی حاصل ہوئی ۔ 21 جولائی 1658ء کو اورنگ زیب کی تخت نشینی عمل میں آئی ۔
اورنگ زیب نے تقریباً 50 برس حکمرانی کی ۔ حکمرانی کا تقریباً ابتدائی نصف حصہ شمالی ہند میں بغاوت کو فرو کرنے ، نظم و نسق کو سدھارنے اوراپنا سیاسی موقف مضبوط اور مستحکم کرنے میں گزرا ۔ اس عرصے میں دکن کا بڑا صوبہ جو اس وقت چار ماتحت صوبوں پر مشتمل تھا ،صوبہ داروں کے حوالے رہا ۔ اس مدت میں دکن کے صوبہ دار دکن کی سلطنتوں بیجاپور ، گولکنڈہ اور مرہٹوں کے خلاف کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔ 1680ء میں شیواجی کی موت ، بعد ازاں شہزادہ اکبر کی دکن کو فراری اور سنبھاجی سے اتحاد کی وجہ سے اورنگ زیب نے دکن جانے کا ارادہ کیا ۔ 1681ء میں دکن پہنچنے پر شہزادہ اکبر کی بغاوت فرو کرنے اور مرہٹوں کی سرکوبی کے بعد اورنگ زیب نے بیجاپور اور گولکنڈہ کی جانب توجہ دی ۔ 1686ء میں بیجاپور اور 1687ء میں گولکنڈہ فتح ہوا اور انھیں وہ علاحدہ صوبوں کے طور پر مغل سلطنت میں ضم کرلیا گیا ۔ اب مغل صوبہ دکن چھ ماتحت صوبوں پر مشتمل تھا ۔ بیجاپور اور گولکنڈہ کو مغل سلطنت میں ضم کرلینے کے بعد جنوبی ہند کے اور علاقے بھی فتح کرکے مغل سلطنت میں ضم کرلئے گئے ۔ 17 ویں صدی کے آخر تک شمال سے لے کر جنوب میں رامیشورم تک سارا علاقہ مغل حکمرانی میں آگیا ۔ اورنگ زیب کے عہد میں برصغیر ہندوستان کا جتنا بڑا علاقہ سیاسی اور انتظامی وحدت میں تبدیل ہوا تھا اتنا بڑا علاقہ ہندوستان کی تاریخ میں کسی اور دور میں نہیں ہوا تھا ۔ اورنگ زیب کا دور تاریخ میں کئی امور کے باعث بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

بعض مورخین اور مضمون نگار اورنگ زیب کو غیر روادار ، تنگ نظر  ،جانب دار اور غیر معقول ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ یا تو دانستہ اور شعوری کوشش ہے یا معاصر تاریخ کی کتابوں میں درج واقعات اور بیانات کی غلط تشریح اور توضیح کا نتیجہ ہے ۔ علاوہ ازیں وہ معتبر اور مستند حوالوں کو اپنی تحریروں کی بنیاد نہیں بناتے ہیں ۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ عام طور پر حقیقت کو مسخ کرنے والوں کا بنیادی مقصد ملک کی ہندو اکثریت کے دلوں میں اس حکمران اور مسلم اقلیت کے لئے نفرت کا جذبہ پیدا کرنا ہے ۔ اس سلسلے میں حقائق کو منظر عام پر لانے کے لئے مستند اور معتبر حوالوں کی بنیاد پر کچھ کام ضرور ہوا ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بارے میں منصوبہ بند انداز میں کام کیا جائے ۔ جیسا کہ اورنگ زیب کے خلاف لکھنے والے منصوبہ بند انداز میں کام کررہے ہیں ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ انگریزی کے علاوہ ملک کی مختلف زبانوں میں بھی اس بارے میں لکھا جائے تاکہ ساری غلط فہمیاں رفع ہوجائیں اور نفرت کے زہر سے دل اور ذہن پاک و صاف ہوجائیں ۔

اس مضمون میں اورنگ زیب کی حکمرانی کے ان چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی جارہی ہے جن پر عام طور پر شدید تنقید کی جاتی ہے ۔ یہ مضمون آرکائیوز کے ریکارڈ اور دیگر معتبر اور مستند ماخذات کی بنیاد پر تحریر کیا جارہا ہے جس سے اورنگ زیب کی مذہبی رواداری، غیر جانبداری ، انصاف رسانی اور معقولیت پسندی کا ثبوت ملتا ہے ۔
سب سے پہلے ڈاکٹر بشمبھر ناتھ پانڈے سابق گورنر اڑیسہ کے ایک تحقیقی مقالے کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ پانڈے جی کا یہ مقالہ ’’ہندو مندر اور اورنگ زیب کے فرامین‘‘ کے زیر عنوان مختلف رسالوں اور اخبارات میں شائع ہوا تھا ۔ اس مستند تحقیقی مقالے کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر مولانا آزاد اکیڈیمی ، نئی دہلی نے اسے کتابچے کی صورت میں شائع کیا ۔ اس مقالے کے مطالعے سے اورنگ زیب کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں ۔ پانڈے جی مقالے کی ابتداء میں لکھتے ہیں کہ جب وہ 1948ء تا 1953ء کے دوران الہ آباد میونسپلٹی کے صدر تھے ایک کارروائی ان کے زیر غور آئی ۔ یہ تنازعہ ایک جائیداد کے بارے میں تھا جو سومیشورناتھ مہادیو مندر کو وقف کی گئی تھی ۔ مندر کے مہنت کے مرنے کے بعد اس جائیداد کے دو فریق دعوی دار ہوئے  ۔ ان میں سے ایک نے اورنگ زیب کے چند فرامین پیش کئے جو اس کے خاندان کے قبضے میں تھے ۔ پانڈے جی ان فرامین کو دیکھ کر شش و پنج میں پڑگئے ۔ انھیں اس بات پر تعجب ہوا کہ اورنگ زیب جو مندروں کے انہدام میں بڑا بدنام تھا وہ مندروں کو جاگیریں عطا کرنے کے سلسلے میں کس طرح احکام جاری کرسکتا ہے ۔ انھیں یقین تھا کہ یہ فرامین اصل نہیں ہیں ۔  کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل انھوں نے سرتیج بہادر سپرو سے جو فارسی اور عربی کے بہت بڑے عالم تھے ،مشورہ کرنا مناسب سمجھا ۔ سپرو صاحب نے فرامین کے مطالعے کے بعد کہا کہ اورنگ زیب کے یہ فرامین بالکل اصل ہیں ۔ اورنگ زیب کی یہ نئی شبیہ جب پانڈے جی کے سامنے آئی تو انھیں سخت تعجب ہوا ۔ سپرو صاحب کے کہنے پر انھوں نے متعدد اہم مندروں کے مہنتوں کو خطوط لکھے کہ اگر ان کے پاس مندروں کو جاگیر عطا کرنے کے سلسلے میں اورنگ زیب کے فرامین ہوں ،تو انھیں ان کی فوٹو کاپیاں بھیجی جائیں ۔ ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب بڑے مندروں جیسے مہاکالیشور مندر (اجین) ، بالاجی مندر (چترکوٹ) ، امانند مندر (گوہاٹی) اور شمالی ہند کے دوسرے کئی مندروں اور گردواروں سے اورنگ زیب کے فرامین کی نقلیں وصول ہوئیں ۔ یہ فرامین 1065 تا 1091ھ م 1669 تا 1695ء کے دوران جاری کئے گئے تھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک وسیع اور عریض ملک ہے جہاں ہزار ہا مندر موجود ہیں ۔ اگر مناسب انداز میں تحقیقی کام کیا جائے تو اور بہت سی مثالیں سامنے آئیں گی ،جو اس بات کا ثبوت فراہم کریں گی کہ اورنگ زیب کی مذہبی غیر رواداری کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا وہ محض تعصب کی بنیاد پر تھا اور حقیقت یہ ہے کہ غیر مسلموں کی جانب اورنگ زیب کا طرز عمل مخیرانہ تھا ۔ پانڈے جی نے اپنے مقالے میں کئی مندروں کے لئے جاری کردہ اورنگ زیب کے فرامین کے متون اور ان کا تجزیہ بھی پیش کیا ہے  ۔

آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز میں عہد اورنگ زیب سے متعلق تقریباً ڈیڑھ لاکھ کاغذات documents محفوظ ہیں ۔ یہ کاغذات مغل صوبۂ دکن کے فوجی اور منصب داری نظم و نسق سے متعلق ہیں ۔ اس آرکائیوز میں اورنگ زیب کے عہد سے متعلق سرکاری ریکارڈ کا جتنا بڑا ذخیرہ محفوظ ہے ،اتنا بڑا ذخیرہ ملک کی کسی اور ریاست کے آرکائیوز حتی کہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا ، نئی دہلی میں بھی دستیاب نہیں ہے ۔ آرکائیوز کے اس ریکارڈ کے ذخیرے میں اورنگ زیب کا حسب ذیل فرمان مورخہ 27 شعبان 1098ھ م 28 جون  1687ء موجود ہے ۔ یہ فرمان اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس سے اس مغل حکمران کی مذہبی رواداری کا ایک واقعہ منظر عام پر آتا ہے ،جو اپنی مذہبی عصبیت اور تنگ نظری کی وجہ سے تاریخ میں کافی بدنام ہے ۔
قصبہ جالنہ پور اورنگ زیب کے مہادیو بھٹ ولد گنگادھر بھٹ نامی ایک نجومی برہمن نے ایک درخواست پیش کی تھی ،جس میں اس نے استدعا کی تھی کہ اسے اپنے مکان میں اپنے افراد خاندان کے ساتھ گنیش جی کی مورتی کی پوجا کے لئے کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ اس درخواست سے یہ بات ظاہر ہوتی ہیکہ حکام گنیش جی کی مورتی کی پوجا کے لئے رکاوٹ پیدا کررہے تھے ۔ مہادیو بھٹ کی درخواست پر اورنگ زیب نے مذکورہ بالا فرمان کے ذریعے یہ احکام دئے کہ مہادیو بھٹ اور اس کے افراد خاندان کے احوال و معاملات میں حکام کسی وجہ سے معترض نہ ہوں اور انھیں کوئی اذیت نہ پہنچائی جائے ۔
اورنگ زیب پر نظم و نسق اور انتظامی معاملات میں جانب داری کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔آرکائیوز میں محفوظ عہدِ اورنگ زیب  کے کاغذات سے اس کی تردید ہوتی ہے ۔ اورنگ زیب کو دیگر حکمرانوں کی طرح ملک اور مالک کے وفادار اور کارکرد عہدیدار عزیز تھے ۔ اگر کسی فوجی مہم میں کوئی اونچے درجے کا مسلمان منصب دار شاہی حکم کی تعمیل نہ کرتا اور اس فوجی مہم کا سربراہ ہندو منصب دار مسلمان منصب دار کی جانب سے عدول حکمی کی اطلاع دیتے ہوئے کوئی سزا تجویز کرتا تو اورنگ زیب کو تجویز کردہ سزا کو منظوری دینے میں کوئی تامل نہ ہوتا ۔ آندھرا پردیش آرکائیوز میں محفوظ حسب ذیل یادداشت احکام مقدس سے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے ۔

مرزا راجا جے سنگھ کو دکن کی مہم پر سربراہ بنا کر بھیجا گیا تھا اور اس کے ساتھ جن دیگر منصب داروں کو دکن کی مہم پر جانے کے احکام دئے گئے تھے ،ان میں سرافراز خان بھی شامل تھا جو اعلی درجے کا منصب دار تھا مگر سرافراز خان ، راجا جے سنگھ کے ہمراہ دکن نہیں آیا ۔ اس پر جے سنگھ نے اورنگ زیب کی خدمت میں ایک یادداشت روانہ کی جس میں اس نے لکھا کہ سرافراز خان جو پانچ ہزار ذات اور چار ہزار سوار کا منصب دار ہے ، شاہی احکام کے باوجود اس کے ہمراہ دکن نہیں آیا ۔ اس لئے خان مذکور کی منصب سے ایک ہزار ذات اور ایک ہزار سوار کم کردئے جائیں ۔ اورنگ زیب نے راجا جے سنگھ کی مجوزہ سزا کو منظوری دیتے ہوئے سرافراز خان کی منصب سے ایک ہزار ذات اور ایک ہزار سوار تخفیف کرنے کے احکام دیئے ۔
کسی کی ظلم و زیادتی کے خلاف شکایت وصول ہونے پر اورنگ زیب کی  جانب سے تحقیقات کروانے کے احکام دئے جاتے تھے ۔ اگر اس مقام پر ملزم کا کوئی قریبی رشتہ دار اہم سرکاری عہدے پر فائز ہوتا تو اس کا وہاں سے تبادلہ کرکے کسی اور عہدہ دار کو اس کی جگہ مامور کرنے کا بھی حکم دیا جاتا ،تاکہ تحقیقات پر اثر نہ پڑے۔ آرکائیوز میں عہد اورنگ زیب سے متعلق جو کاغذات محفوظ ہیں ،ان میں سے ایک کاغذ (حقیقت) سے اس بیان کی تائید ہوتی ہے ۔ اس کاغذ میں یہ لکھا گیا ہے کہ ناروجی دیشمکھ ، سکودیش پانڈیا و مقدم اور تجکلا تھانہ ضلع باسم صوبہ برار کی رعایا نے فتح جنگ فوج دار کے بیٹے نصرت کے ظلم و ستم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے انصاف رسانی کی درخواست کی ۔ یہ شکایت اورنگ زیب کے احکام کے لئے پیش کی گئی جس پر اورنگ زیب نے وزارت پناہ شفیع خان کو حکم دیا کہ امینِ معتبر کو بھیج کر تحقیقات کروائی جائیں اور تحقیقات کے دوران ملزم کے باپ (فتح جنگ فوج دار) کی جگہ کسی اور کا تقرر کیا جائے۔
ملک کے نظم و نسق پر اورنگ زیب کی بڑی گہری نظر تھی ۔ مغل وقائع نویسوں کی روانہ کردہ رپورٹوں سے اورنگ زیب کو اس بات کا اندازہ ہوجاتا تھا کہ کون سا عہدیدار اپنے مفوضہ فرائض ، ضابطے اور معمول کے مطابق انجام نہیں دے رہا ہے ۔ ایسی صورت میں اس عہدہ دار کی تنبیہ کی جاتی اور آئندہ قانون اور ضابطوں کی پابندی کرنے کے لئے سختی سے ہدایت دی جاتی تھی  ۔اس کے علاوہ سزا کے احکام بھی جاری کئے جاتے تھے  ۔آرکائیوز میں محفوظ ایک یادداشت احکام مقدس سے اس بیان کی توثیق ہوتی ہے ۔ اس یادداشت میں وقائع نویس کی روانہ کردہ یہ اطلاع درج ہے کہ شکری بیگ قلعہ دار گالنہ اپنے لڑکے کو قلعہ میں چھوڑ کر قلعہ سے باہر گیا اور میر نور اللہ فوج دار کی ضیافت کے بعد قلعہ میں واپس آیا ۔ اس اطلاع کے ملنے پر اورنگ زیب کے یہ احکام جاری ہوئے کہ قلعہ دار آئندہ اجازت حاصل کئے بغیر قلعہ نہ چھوڑے ورنہ اس کا تبادلہ کردیا جائے گا ۔ اس تنبیہ کے علاوہ یہ احکام بھی دیئے گئے کہ قلعہ دار کی منصب سے بیس سوار کم کردیئے جائیں ۔

مغل عہد حکومت میں اورنگ زیب سے قبل کسی بھی منصب دار کے انتقال پر اس کا سارا مال و اسباب حکومت کی جانب سے ضبط کرلیا جاتا تھا اور ورثاء کو منصب دار کے مال و اسباب کچھ نہیں ملتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ منصب دار نہایت عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے اور بے تحاشہ دولت لٹاتے تھے ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد ورثاء کو کچھ بھی نہیں ملنے والا ہے ۔ کسی بھی منصب دار کے کمائے ہوئے مال و اسباب سے ورثا کو محروم کردینا سراسر ناانصافی تھی ۔ چنانچہ اورنگ زیب نے اس قاعدے میں تبدیلی کو ضروری سمجھتے ہوئے یہ ضابطہ نافذ کیا کہ کسی بھی منصب دار کے انتقال پر اس کے مال و اسباب سے حکومت کے بقایا جات وصول کرکے بقیہ مال و اسباب کو مرحوم منصب دار کے ورثا کے حوالے کردیا جائے ۔ آرکائیوز میں محفوظ اورنگ آباد میں متعینہ وقائع نویس کے روزنامچہ وقائع مورخہ 14 رجب 1072ھ م 23 فروری 1662ء میں درج اطلاع سے مذکورہ بالا بیان کی تصدیق ہوتی ہے ۔ وقائع نویس اطلاع دتیا ہے کہ علی یار بیگ جو سات صدی ذات اور ساڑھے تین سو سوار کا منصب دار تھا ۔ تلکوکن کی مہم پر بھیجا گیا تھا بیمار ہونے پر وہ علاج کے لئے جینر گیا تھا جہاں اس کا انتقال ہوگیا ۔ اس منصب دار کے انتقال پر اس کا سارا مال و اسباب حکومت کے بقایا جاتا کے عوض ضبط کرلیا گیا ۔ اس کارروائی کی تفصیلات کا علم ہونے پر اورنگ زیب نے احکام جاری کئے کہ مرحوم منصب دار کے مال و اسباب سے حکومت کے بقایا جات وصول کرکے بقیہ مال و اسباب ورثا میں تقسیم کردیا جائے ۔
آرکائیوز میں محفوظ یادداشت مقدس مورخہ 20رجب 1087 ھ م 1676ء میں یہ لکھا گیا کہ مختار خان صوبہ دار خاندیش کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ ضیاء الدین ولد سراج الدین اور محمد حسین ولد محمد سعید ، کوتوال کو شراب نوشی کا ارتکاب کرنے پر منصب سے برطرف کردیا گیا ۔ ضیاء الدین نے اپنی حرکتوں پر پشیمانی کا اظہار کیا اور محمد صالح ، قاضی کے روبرو توبہ کی اور معافی نامہ لکھ کر اپنے دستخط ثبت کئے ۔ چونکہ وہ اور اس کے متعلقین اس کی برطرفی کی وجہ سے بے حد پریشان تھے ۔بخشی الملکی نے اس کی منصب بحال کرنے کی سفارش کی ۔ اورنگ زیب نے منصب کی بحالی کی سفارش نامنظور کردی ۔
کسی صوبے کا دیوان مال کا سب سے بڑا عہدہ دار اور خزانے کا اڈمنسٹریٹر ہونے کی وجہ سے بہت اہم مقام رکھتا تھا اور بڑے اثر و رسوخ کا حامل ہوتا تھا ۔ صوبے کے عہدہ داروں میں درجہ واری ترتیب کے لحاظ سے صوبہ دار کے بعد اس ہی کا مقام تھا ۔ صوبے کے نظم و نسق کو اچھے اور ہموار طریقے سے چلانے کے لئے صوبہ دار سے دیوان کا تعاون ضروری تھا ۔ دیوان کے عدم تعاون کی صورت میں صوبہ دار شہنشاہ کے پاس دیوان کی شکایت بھیج کر اسے صوبے سے ہٹا سکتا تھا ۔ جادو ناتھ سرکار نے اپنی کتاب History of Aurangzeb میں لکھا ہے کہ حاجی شفیع خان دیوانِ دکن ، ان اشخاص کو جو بیجاپور کی ملازمت چھوڑ کر مغلوں سے آملے تھے جاگیرات تفویض کرنے میں اعتراض اور تاخیر کررہا تھا ۔ مرزا راجا جے سنگھ صوبہ دار نے جاگیرات سپرد کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے دیوان کی شکایت اورنگ زیب کے پاس روانہ کی جس پر اورنگ زیب نے حاجی شفیع خان کو صوبۂ دکن سے ہٹانے کے احکام دئے ۔ ساقی مستعد خان ’’ماثر عالمگیری‘‘ میں لکھتا ہے کہ بہادر خان کو صوبہ دار دکن کے عہدے سے ہٹادینے کے بعد جب وہ دربار میں پہنچا تو اسے قانون کی خلاف ورزیوں اور ظلم و زیادتی کے ساتھ زمینداروں سے پیش کش کی وصولی پر سزا دی گئی ۔ اسے منصب  ، خطابات ، مال اور جائیداد سے محروم کردیا گیا اور ہاتھی بھی ضبط کرلئے گئے ۔

جہاں اورنگ زیب کی جانب سے سرکاری احکام کی خلاف ورزی کرنے ، مفوضہ فرائض کی ادائی میں غفلت و کوتاہی برتنے اور رعایا کے ساتھ سخت رویہ روا رکھنے والے عہدیداروں کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں ، وہیں پریشان حال کاشت کاروں اور کسانوں کے واجب الاداد محاصل معاف کروانے والے عہدہ داروں کی تعریف و ستائش کی جاتی تھی ۔
امانت خان خوافی اورنگ زیب کے عہد کا ممتاز ترین دیوان تھا ۔ خافی خان نظام الملک نے اپنی کتاب ’’منتخب اللباب‘‘ میں اس کے کیریر ، کام کرنے کے انداز اور دیانت داری کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے ۔ خانی خان نظام الملک کے بیان کے مطابق امانت خان خوافی متدین ، رعایا کا خیر خواہ اور بے آزار شخص تھا ۔ وہ رفاہ عام کے کاموں کو اپنی ذاتی ترقیوں اور محاصل کی وصولی پر ترجیح دیتا تھا ۔ وہ پریشان حال زمین داروں اور کاشت کاروں کے واجب الادا بقایوں کے لئے آسان قسطیں مقرر کرتا یا محاصل معاف کروادیتا تھا ،جس کی وجہ سے سرکاری خزانے میں لاکھوں کی کمی ہوجاتی تھی ۔ وہ بہت سادہ اور غریبوں جیسی زندگی بسر کرتا تھا اور اس کی خدمت کے لئے گھر پر کوئی خدمت گزار بھی نہیں تھا ۔ منتخب اللباب میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ ایک دن اورنگ زیب کے دربار میں امانت اور دیانت داری کی باتیں چھڑگئیں ۔ بادشاہ نے امانت خان کی تعریف کی ۔ اس نے دست بستہ عرض کیا ’’مجھ سے بڑھ کر خیانت کرنے والا کوئی دوسرا نہ ہوگا کہ میں ہر سال اپنے آقا ولی نعمت کا لاکھوں روپیہ باقی دار عاملوں اور رعایا کو معاف کردیتا ہوں اور خطا بخش بادشاہ سے عفو کی امید رکھتا ہوں‘‘ ۔ اورنگ زیب نے کہا ’’ہم نے معاف کیا ۔ ہم جانتے ہیں کہ تم ہمارے لئے دنیا اور آخرت کے خزانے بھررہے ہو‘‘ ۔