اورحان پامک کی ایک تاریخی تقریر

ڈاکٹر سرور الہدیٰ
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
اورحان پامک کو ۱۹۹۶ کا نوبل ادبی اعزاز سے نوازا گیا۔ اس موقعے پر انعام کو قبول کرتے ہوئے انھوں نے جو تقریر کی تھی اس کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوا۔ انگریزی میں مائی فاردرز سوٹ کیس کے عنوان سے یہ تقریر منظر عام پر آئی۔ اردو میں اس کا ترجمہ ابا کا سوٹ کیس کے عنوان سے رسالہ آج نے فروری ۲۰۰۷ میں شائع کیا تھا۔ اس ترجمے کی خاص بات یہ ہے کہ اسے براہ راست ترکی زبان سے نمیرہ احمد نے اردو میں منتقل کیا۔ اس طرح پامک کی تقریر جو ترکی زبان میں تھی وہ براہ راست اردو میں منتقل ہوئی اور یہ سچائی ہے کہ ترکی اور اردو کے بہت سے الفاظ مشترک ہیں لہٰذا پامک کی تقریر کو اردو میں پڑھنا گویا بڑی حد تک ترکی زبان اور تہذیب کی فضا میں سانس لینا ہے۔ کل پرانے شماروں کے درمیان آج کا یہ شمارہ بغیر کسی شعوری کوشش کے سامنے آگیا۔ یہ تقریر میں نے پہلے بھی پڑھی تھی لیکن اسے دوبارہ پڑھتے ہوئے میں جن کیفیات اور احساسات سے گذرا وہ پہلی قرأت سے یقینا مختلف ضرور ہے۔ یہ کوئی تخلیقی فن پارہ نہیں ہے لیکن پامک نے اسے جس طرح پیش کیا ہے وہ کئی معنوں میں تخلیقی متن سے زیادہ اہمیت کا حامل نظر آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پامک کی یہ تقریر اردو کے بیشتر سنجیدہ قارئین کی نگاہ سے گذری ہوگی۔ پامک نے ایک تاریخی لمحے میں انعام لیتے ہوئے جس موضوع اور جس عنوان کا انتخاب کیا تھا، وہ خود اتنا اہم ہے کہ ہمیں یہ سوچنے پر آمادہ کرتا ہے کہ ادیب کی زندگی میں گھر کی فضا کتنی اہم ہوتی ہے۔ ادیب چاہے جتنا بڑا ہوجائے اس کی ادبی زندگی کا آغاز دراصل گھر سے ہوتا ہے اور گھر چاہے جیسا ہو وہ کسی نہ کسی شکل میں اس کی تعمیر و تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک معنی میں عزت تو اپنے گھر اور وطن سے شروع ہوتی ہے، سوٹ کیس سے سفر کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے یہ اور بات ہے کہ سوٹ کیس کو ہم مختلف اشیا کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اکثر کسی سامان کی طرف اشارہ کرنا ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ تو فلاں سوٹ کیس میں بند ہے۔ ابا کا سوٹ کیس پامک کے لیے ایک اسرار کی مانند ہے ان کے والد نے انتقال سے پہلے پامک سے کہا تھا کہ اسے میرے انتقال کے بعد کھول کر دیکھنا۔ پامک کو پتہ تھا کہ اس میں کچھ مسودے اور ڈائریاں ہیں جن میں ابا نے مختلف اوقات میں خیالات درج کیے ہیں۔ اورحان پامک نے سوٹ کیس کی تفصیلات بتائی ہیں۔ یہ کس چیز سے بنا ہوا ہے، اس کی شکل کیسی ہے اور ابا اسے کسی چھوٹے سفر پر لے جاتے تھے اور وہ اسے دفتر سے گھر بھی لانے میں استعمال کرتے تھے گویا اس سوٹ کیس کی عام زندگی میں بڑی اہمیت تھی مگر پامک کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہی سوٹ کیس ان کے لیے اتنا اہم ہوجائے گا بلکہ پریشانی کا سبب بھی بن جائے گا۔ پامک کے یہ الفاظ دیکھیے:

’’یہ سوٹ کیس میرے لیے ایسی نشانی کی طرح تھا جو ماضی اور بچپن کی بہت سی یادوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہو مگر اب میں اس کو چھو بھی نہیں سکتا تھا، کیوں؟ بلاشبہ اس میں چھپا کر رکھی ہوئی چیزوں کے اسرار انگیز وزن کی وجہ سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابا کے سوٹ کیس میں رکھی ہوئی چیزوں سے مجھے دور رکھنے والا یہ پہلا خوف تھا کہ میں جو کچھ پڑھوں گا وہ مجھے پسند نہیں آئے گا۔ چونکہ ابا یہ بات جانتے تھے اس لیے انھوں نے احتیاطاً یوں ظاہر کیا تھا جیسے ان تحریروں کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ زندگی کے پچیس سال لکھنے میں گذارنے کے بعد یہ دیکھنا میرے لیے غم انگیز تھا لیکن میں ادب کو کافی سنجیدگی سے نہ لینے پر ابا کے لیے غصہ بھی محسوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں ابا کا سوٹ کیس کھولنے سے خوف زدہ تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ میں اپنے آپ سے اس کا اعتراف بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اگر ابا کے سوٹ کیس اصل اور بڑا ادب برآمد ہوتا تو مجھے ابا کی ذات میں ایک بالکل مختلف شخص کے وجود کو تسلیم کرنا پڑتا۔ یہ ایک خوفناک بات تھی کیوں کہ اتنی عمر کا ہوجانے کے باوجود میں اپنے ابا کو صرف ابا کے طور پر قبول کرنا چاہتا تھا۔ کسی ادیب کے طور پر نہیں۔‘‘

اورحان پامک کے یہ خیالات ایک ادیب کے خیالات ہیں۔ جس کی نگاہ میں بڑے ادب کا ایک تصور ہے اور اسے اس بات کا خوف ہے کہ اس کے ابا نے ادب کے نام پر جو کچھ لکھا ہے وہ اس معیار سے ٹکرا سکتا ہے۔ ادیبوں کی زندگی میں ایسے مرحلے بہت آتے ہیں جب وہ اپنے گھر اور وطن کی محبت میں معیار سے سمجھوتا کرلیتے ہیں۔ ابا کا سوٹ کیس پامک کے لیے دنیوی اعتبار سے اشرفیوں سے بھرا ہوا نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس کے والد مجلسی آدمی ہیں، ان کے یہاں تنہائی کا وہ تصور نہیں جو عموماً تخلیق کاروں کے یہاں ہوا کرتا ہے۔ اورحان پامک نے اپنے والد کو ہمیشہ ایک زندہ دل انسان کی شکل میں دیکھا جس کے لیے زندگی تنہائی کا نام نہیں بلکہ دوستوں کے درمیان ہنسنے بولنے اور قہقہے لگانے کا نام ہے۔ جب پامک کو اپنے والد کی زندگی یاد آتی ہے تو اسے لگتا ہے کہ والد نے خود کو ایک ادیب کے طور پر کبھی دیکھنے کی کوشش نہیں کی اور وہ اسی لیے اپنی تحریروں کے تئیں کبھی سنجیدہ نہیں ہوئے، پھر اورحان پامک کو اس کا خیال آتا ہے کہ تنہا ہوئے بغیر بھی اچھا ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ پامک نے ابا کا سوٹ کیس سے ہٹ کر کچھ ایسے خیالات بھی پیش کیے ہیں جو فکری اور حسی طور پر بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ جو تحریریں ادیبوں نے اپنے تعلق سے یا اپنے تخلیقی عمل کے تعلق سے زمانے کو دی ہیں ان کا مطالعہ بڑا ہی دلچسپ ہوا کرتا ہے۔ پامک نے ایک ادیب کے ظاہر اور باطن کے تضاد اور اس کی ہم آہنگی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تخلیق کی جانب جس طرح اشارے کیے ہیں وہ مشکل ہی سے کہیں اور ملیں گے۔ پامک دور جدید کے تخلیق کار ہیں۔ انھیں دنیا کے مختلف مسائل کا علم ہے اور وہ ان وسائل سے بھی واقف ہیں جن سے ادب نہ صرف متاثر ہوتا ہے بلکہ بازار میں اس کی قیمت بھی لگتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ:

’’ میرے نزدیک ادیب انسان کے اندر چھپا ہوا دوسرا شخص ہوتا ہے جسے دریافت کرنے کے لیے اور اس کو وجود میں لانے والے عالم کو دریافت کرنے کے لیے اسے برسوں صبر کے ساتھ جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔ ادب کی بات کرتے ہوئے جو شئے سب سے پہلے میرے ذہن میں آتی ہے وہ کوئی ناول، شعر یا ادبی روایت نہیں بلکہ وہ شخص ہے جس نے خود کو اکیلے کمرے میں بند کر کے میز پر بیٹھ کر اپنا رخ اندر کی طرف پھیر لیا ہو اور اس گوشہ نشینی کے سائے میں لفظوں کی ایک نئی دنیا تخلیق کررہا ہو۔ ‘‘
اورحان پامک نے بار بار گوشہ نشینی کا ذکر کیا ہے اور دروں بینی کا۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ پامک کے ذہن میں یہ بات ہوگی کہ ادیب کو اس دنیا میں جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے وہ یہی ہے کہ اس سے اس کی تنہائی اور دروں بینی چھین لی جائے۔ اس کے بعد وہ ادیب بھی رہے گا، دانشور بھی کہلائے گا مگر ادب اور دانشوری کی روح باقی نہیں رہے گی اور وہ بازار ادب کا حصہ بن جائے گا۔ پامک نے خوش مزاجی کا بھی ذکر کیا ہے اور زندگی کو لطف و مسرت سے بسر کرنے کی بات بھی کہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے فیصلہ ہو کہ ادیب نے اپنی تنہائی اور داخلیت کا کتنا احترام کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی زندگی کے طور طریقے اور پھر اس کے لکھے ہوئے ادب سے اس کا فیصلہ ممکن ہے۔ پامک کی پوری تحریر یہ بتاتی ہے کہ لکھنا دراصل خود کو ایک کمرے میں بند کرلینا ہے۔ لیکن وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ جب آپ کمرے میں بند ہو کر کتابوں کو پڑھتے ہیں تو لفظوں کو ذریعے آپ اجتماعی تجربے سے گذر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ تنہائی لفظوں کے ساتھ بڑی آفاقی ہوجاتی ہے۔ پامک نے ابا کی لائبریری کا ذکر کیا ہے جس میں ایک ڈیڑھ ہزار کتابیں تھیں۔ پامک نے ان تمام کتابوں کے پڑھنے کا دعوی تو نہیں کیا ہے مگر اس بات کا اشارہ ضرور ملتا ہے کہ ان کی نگاہ سے لائبریری کی بیشتر کتابیں گذر چکی تھیں۔ پامک لکھتے ہیں:

ابا کے سوٹ کیس پر بے چینی سے نظر ڈالتے ہوئے مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ یہی ایک کام ہے جو میں نہیں کرپائوں گا۔ ابا کبھی کبھی اپنے کتب خانے کے سامنے کے دیوان پر لیٹ جاتے اپنے ہاتھ میں تھامی ہوئی کتاب یا رسالے کو رکھ کر کسی خواب میں چلے جاتے یا خود کو طویل عرصے کے لیے اپنے خیالوں میں گم کردیتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے نزدیک اصل ادب کا نقطۂ آغاز یہی ہے کہ کوئی شخص خود کو کتابوں کے ساتھ اپنے کمرے میں بند کرلے ۔ ۔ ۔ میرے نزدیک ادب وہ سب سے زیادہ قابل قدر ذخیرہ ہے جو انسانیت نے خود کو سمجھنے کی کوشش کے دوران جمع کیا ہے۔ قومیں، قبیلے اور معاشرے جوں جوں اپنے لکھنے والوں کے لفظوں پر توجہ دیتے ہیں اتنے ہی زیادہ ذکی، پرمایہ اور ترقی یافتہ ہوتے جاتے ہیں اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کتابوں کو جلا نا اور ادیبوں کو رسوا کرنا کسی قوم کو اس بات کی خبر دیتا ہے کہ ایک تاریک اور بے عقل دور اس پر مسلط ہونے کو ہے۔
اردو کے جن بڑے اور اہم ادیبوں کو بڑے اعزازات سے نوازا گیا انھوں نے انعام قبول کرتے وقت کوئی ایسی تقریر نہیں کی جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہو کہ وہ ادیب اپنی زبان، تہذیب اور ادب کے تئیں کس قدر حساس ہے۔ پامک کی تقریر پامک کی تقریر ہے لیکن جس شدت کے ساتھ وہ تخلیق اور تخلیقی عمل اور تخلیقی ترجیحات کو دیکھتے ہیں کاش اس کا کچھ حصہ ہمارے ادیبوں کے یہاں بھی منتقل ہوجائے۔ اسی لیے یہ بات بار بار پریشان کرتی ہے کہ کیا ہمارا تخلیقی ذہن چھوٹا ہوگیا ہے؟ کیا ہم زندگی، ادب اور کائنات کو ایک بڑے کینوس میں دیکھنے کے اہل نہیں ہیں ۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم نے جمہوریت کے نام پر کم تر کتابوں اور کم تر ادیبوں کو سب سے افضل اور برتر ثابت کرنے میں خود کو مضحکہ خیز بنا لیا ہے۔ پامک نے یہ بھی لکھا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ ابا کی لائبریری میں کون سی کتاب آسانی سے پڑھی جانے والی ہے اور کون سی کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ ابا کی لائبریری پامک کے لیے ا س طرح اہم ثابت ہوئی کہ انھیں ابتدا ہی میں یہ خیال آیا تھا کہ میں بھی اپنی ایک الگ دنیا بنائوں گا۔ پامک نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابا نے غیر ملکی سفر کے دوران پیرس اور امریکہ سے کتابیں لائی تھیں اور وہ کتابیں بھی ہیں جو انھوں نے استنبول میں خریدی تھیں۔ پامک کی اس تقریر میں بار بار پامک کے خیالات، ابا کی لائبریری سے ٹکراتے ہیں۔ ہمارے ادیبوں کو نہ تو لائبریری سے دلچسپی ہے اور نہ پرانی کتاب سے۔ سب کچھ انھیں غیب سے ملتا ہے اور غالب کا یہ شعر انھیں تقویت پہنچاتا ہے ؎

آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
پامک نے یہ بھی کہا تھا:
۱۹۷۰ کے عشرے میں جب میں ابا کے دیے ہوئے پیسوں سے استنبول کے پرانی کتابیں بیچنے والوں سے مٹتے ہوئے حروف والی گرد آلود، کونے مڑی کتابیں خریدتا تو ان پرانی کتابوں کی قابل رحم حالت سے اور سڑک کے کنارے مسجدوں کے احاطوں میں اور شکستہ ہوتی دیواروں کے سائے میں کتابیں بیچنے والے مفلس شکن آلود کتب فروشوں کی افسوس ناک پریشاں حالی سے بھی اتنا ہی متاثر ہوتا جتنا ان کتابوں سے۔ یہ زندگی اس شخص کی ہے جو دنیا کا اس وقت اہم ترین ادیب ہے لیکن ہم نے اس کے فکشن کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ان مضافات کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی جن سے پامک کی تخلیقی تعمیر و تشکیل ہوئی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ کتابوں کی دکان پر جانا کسر شان سمجھا جاتا ہے اور پرانی کتابوں کو الٹنا پلٹنا گویا ماـضی میں سفر کرنا ہے۔ اورحان پامک کی اس تقریر میں یہ احساس بار بار سر اٹھاتا ہے کہ میں مرکز میں نہیں ہوں۔ اور زندگی کا جوش و جذبہ استنبول اور ترکی میں اس طرح نہیں ہے۔ ایک عالمی ادب کا تصور بھی انھیں بار بار استنبول اور ترکی کے بارے میں نئے سرے سے غور کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ جملہ کس قدر بامعنی ہے کہ:
دراصل میں جس ادب کے بارے میں سوچتا تھا وہ عالمی نہیں بلکہ مغربی تھا۔ اور ہم ترکی کے رہنے والے اس سے باہر تھے۔ ابا کا کتب خانہ بھی اس بات کی شہادت دیتا تھا۔
پامک کی اس تقریر کے کئی حصے ہیں اور ان تمام حصوں میں ایک داخلی ربط ہے۔ ادب کے اور ادیب کے کچھ ایسے مسائل اس تقریر کے ذریعہ سامنے آتے ہیں جو ہمارا بھی مقدر ہے۔ پامک نے ان مسائل کو حل کرنے کی بظاہر تو ترغیب نہیں دی ہے لیکن تیسری دنیا کے لکھنے والوں کے سامنے کچھ چیلنجز ضرور پیش کیے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم اتنا سمٹ کر اور محدود طریقے پر سوچتے ہیں کہ نہ تو ہماری تخلیق کا فکری دائرہ بڑھتا ہے اور نہ ہم فکری سطح پر خود کو تازہ دم رکھ پاتے ہیں۔