اوراق ماضی ایک مطالعہ

 

میرا کالم سید امتیاز الدین
شاہد حسین زبیری صاحب نے آج سے کم و بیش دو مہینے پہلے مجھے فون پر بتایا کہ انہوں نے پرنس مکرم جاہ کے ساتھ گزارے ہوئے شب روز کی یادوں کو قلمبند کیا ہے اور اس کتاب یا دستاویز کو اوراق ماضی کے نام سے شائع کیا ہے ۔ شاہد حسین زبیری نے خواہش ظاہر کی کہ کتاب کی رسم اجراء کے موقع پر میں ایک تبصرہ پڑھوں ۔ میں ٹھہرا ایک عام آدمی ‘ شاہی خاندان کے افراد سے میری کبھی دور کی بھی جان پہچان نہیں رہی ‘ جب ہم بالکل بچے تھے اور کبھی سرشام تفریح کیلئے عابد روڈ کی طرف آتے اور اتفاق سے اُسی وقت حضور نظام کی سواری گزرنے والی ہوتی تو پولیس والے سیٹیاں بجاکر ٹریفک روک دیتے ۔ تھوڑی دیر بعد ایک سیاہ رنگ کی گاڑی گزرتی جس کے ساتھ اور گاڑیوں کا قافلہ بھی ہوتا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کوئی ہمت نہیں کرتا تھا کہ شاہ دکن کو عثمان علی خان یا نظام کہہ کر پکارے ۔ سب انہیں اعلیٰ حضرت کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔ زمانہ کبھی یکساں نہیں رہتا ۔ نواب میر عثمان علی خان شاہ دکن سے راج پرمکھ بنے اور اس کے بعد کنگ کوٹھی کے مکیں ہوکر رہ گئے ۔ کچھ نہ ہونے کے بعد بھی تادم زیست بلکہ آج تک بھی ان کی اہمیت بدستور باقی ہے ۔ اپنے عہد حکومت میں جو کارنامے انہوں نے انجام دیئے وہ تو دکن کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہیں لیکن جو کارہائے نمایاں انہوں نے صرف نواب میر عثمان علی خان کی حیثیت سے انجام دیئے وہ بھی تاریخی نوعیت کے حامل ہیں اور دلوں کی حکمرانی کیلئے کافی ہیں ۔ پرنس مکرم جاہ کی رگوں میں بھی وہی آصف جاہی خون دوڑ رہا ہے اور ان اعلیٰ خاندانی روایات کی پاسداری موجود ہے جو ان کا سب سے قابل قدر ورثہ ہے ۔ کئی لوگوں کو پرنس کا فیض صحبت نصیب ہوا ہوگا لیکن مجھے خوشی ہے کہ شاہد حسین زبیری نے آنکھیں میری باقی اُن کا کے مصداق شہزادے کے ساتھ گزارے ہوئے بہت سے یادگار لمحوں کی باتیں لکھی ہیں جن سے پرنس کی خاندانی شرافت اور شاہانہ عالی ظرفی کا پتہ چلتا ہے ۔ شاہد حسین زبیری نہ خلعت سے سرفراز ہوں گے نہ منصب و جاگیر سے نوازے جائیں گے لیکن ایک مخلص رفیق کار انعام و اکرام کا طلب گار نہیں ہوتا ‘ محبت خود اپنا انعام ہوتی ہے ۔

کتاب کے ابتدائی 67 صفحات خاندان آصفیہ اور نظام سابق کے دور کے معلوماتی اور دلچسپ واقعات اور تصاویر سے مزین ہیں ۔ ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جنگ آزادی کے دنوں میں بھی نظام ہفتم نے درشہوار کے ذریعہ سے عطیئے دیئے تھے ۔ یہ بات تو یوں بھی مشہور ہے کہ نیشنل ڈیفنس فنڈ میں 5ٹن سونا دیا تھا جب وزیراعظم لال بہادر شاستری نے ان سے اپیل کی تھی ۔ لال بہادر شاستری کی سادگی اور ایمان داری سے وہ اتنے متاثر ہوئے تھے کہ ان کے ناگہانی انتقال پر انہوں نے ان کی بیوہ کو 2500روپئے کا ماہانہ وظیفہ جاری کیا تھا جسے شریمتی لال بہادر شاستری نے شکریہ کے ساتھ لینے سے انکار کردیا تھا ۔ نظامس آرتھوپیڈک ہاسپٹل اور نیلوفر ہاسپٹل بھی اعلیٰ حضرت نے اس وقت قائم کیا جب وہ حکمراں نہیں تھے ۔ یوں تو ان کے خاندان کے لئے بھی کئی ٹرسٹ قائم تھے لیکن غریب اور مستحق طالب علموں کیلئے بھی ٹرسٹ قائم تھا جس سے ہزاروں طلبہ فائدہ اٹھاچکے ہیں ۔
شاہد حسین زبیری نے حضور نظام کی شعرگوئی کا ایک قصہ بھی لکھا ہے ‘ قصہ یوں ہے کہ اعلیٰ حضرت کا ایک مصرعہ ہوگیا تھا ۔
رات دروازہ کھلا رہ گیا مئے خانے کا
دوسرا مصرعہ سوجھ نہیں رہا تھا ‘ وہ بے چینی سے ٹہل رہے تھے ‘ ان کے سیکورٹی گارڈ نے دوسرا مصرعہ لگادیا ۔ ’’ چھپ کے جو پیتے تھے مئے اُن کا نصیبہ جاگا ‘‘ ۔ اب پورا شعر یوں ہوگیا :
چھپ کے جو پیتے تھے مئے ان کا نصیبہ جاگا
رات دروازہ کھلا رہ گیا مئے خانے کا
تعلیمی پس منظر کے تحت زبیری صاحب نے پرنس مکرم جاہ کے اساتذہ اور ہم جماعت دوستوں کا پس منظر دیاہے ۔ عجیب بات ہے کہ شاہد حسین صاحب اپنی نوجوانی کے دنوں میں چاندہ کے مقام پر پرنس مکرم جاہ سے مل چکے تھے اور دونوں میں اچھی خاصی جان پہچان ہوچکی تھی لیکن جب شاہد حسین بسلسلہ ملازمت انٹرویو کے لئے گئے تو وہاں انہوں نے اس ملاقات کا کوئی حوالہ نہیں دیا ۔ شاہد حسین نے کئی انتظامی اُمور کا دلچسپ انداز میں تذکرہ کیا ہے جس سے پرنس کے سوچنے کے انداز کا بھی پتہ چلتا ہے اور خود شاہد حسین زبیری کے طریقہ کار اور معاملات کو سلجھانے کے انداز کا پتہ بھی چلتا ہے ۔ اس حصے میں مصنف کی ایک منظوم تہنیتی نظم بھی آگئی ہے جو بطور قصیدہ مکرم جاہ اسکول میں ترانے کی طرح پڑھی جاتی ہے ۔ شاہد حسین شہسواری جانتے ہیں جو اس ملازمت میں بہت کام آئی لیکن گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں کے مصداق ان کو مخالفتوں کا سامنا بھی ہوا اور استعفے بھی دینے پڑے ۔
شاہد حسین نے جذبہ انسانیت کے عنوان سے ایک مختصرباب لکھا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرنس اپنے اسٹاف کے ساتھ ہمدردی کا برتاؤ کرتے ہیں اور آڑے وقت ہر ممکنہ امداد کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے ۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پرنس مکرم جاہ اور پرنسس اسریٰ میں طلاق ہوچکی ہے لیکن شاہد حسین زبیری نے خود پرنس مکرم جاہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ پرنسس اسریٰ آج بھی پرنس مکرم جاہ کے نکاح میں ہیں ۔ ہاں رجسٹرڈ میریج ختم ہوچکی ہے ۔ پرنس اور ان کے صاحبزادے اور صاحبزادی کے ساتھ باہمی سلوک کا بھی خاصہ تفصیلی جائزہ لیا ہے جس سے شفقت کا شاہانہ انداز دیکھنے کو ملتا ہے ۔

پرنس کے اوصاف حمیدہ کا ذکر بھی مصنف نے بہت اچھے طریقے سے کیا ہے ۔ وہ خود مئے نوشی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے محل میں ہونے والی دعوتوں میں شراب سے تواضع کی جاتی ہے ۔ اپنے سے بزرگ حضرات سے وہ ٹوپی پہن کر ملتے ہیں ۔ ان کے ایک رفیق کار کرامت اللہ صاحب نے انہیں شطرنج کا بورڈ دیا تھا جسے انہوں نے نہایت جتن سے ان کے انتقال کے بعد بھی سنبھال کر رکھا تھا ۔ بریگیڈر توفیق کے فرزند شہریار کو چوٹ لگی تھی ۔ پرنس نے صرف ان کے علاج کیلئے ڈاکٹروں کو پابند کیا بلکہ خود بھی انہیں دیکھنے کیلئے گئے ۔ خود شاہد حسین صاحب کی شادی کے موقع پر پرنس نے انہیں بیش قیمت تحائف دیئے اور عنایات کا سلسلہ مختلف موقعوں پر جاری رہا ۔

نواب مکرم جاہ بہادر کی قدر و منزلت کے تحت جو باب لکھا گیا ہے اس میں حیدرآباد کی بعض اہم شخصیات کا حوالہ دیا گیا ہے جو پرنس کی نہایت عزت کرتی ہیں ۔ راجکماری اندرا دھن راج گیر نے اپنی کتاب Memories of the Deccan کا انتساب پرنس کے نام کیا ۔ رکن الدین احمد صاحب سے شاہد حسین زبیری بہت چھوٹے تھے لیکن رکن الدین صاحب ان سے بھی کھڑے ہوکر ملتے تھے کیونکہ ان کا تعلق پرنس کے اسٹاف سے تھا ۔ نواب شاہ عالم خان صاحب بھی پرنس مکرم جاہ کی اتنی عزت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ پرنس تعمیر ملت کے جلسہ میں تقریر کررہے تھے تو بحیثیت صدر مجلس استقبالیہ نواب شاہ عالم خان شروع سے آخر تک احتراماً کھڑے رہے ۔ بانی روزنامہ ’’سیاست‘‘ نواب عابد علی خان مرحوم اپنے فرزند کی شادی کا رقعہ پرنس کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے گئے تو رقعہ کے ساتھ ایک نہایت مودبانہ خط بھی رکھا جس سے خانوادہ آصفی سے اُن کی عقیدت ظاہر ہوتی ہے ۔ یہی ادب و احترام موجودہ ایڈیٹر زاہد علی خان صاحب بھی ملحوظ رکھتے ہیں اور پرنس کے تعلق سے خبریں ’’سیاست‘‘ میں نمایاں طور پر شائع کی جاتی ہیں ۔

شاہد حسین صاحب نے کئی انتظامی اُمور کی تفصیل لکھی ہے ۔ انہوں نے دوران ملازمت شاید تین مرتبہ استعفیٰ دیئے ہیں اور تین مرتبہ بازمامور ہوئے ہیں ۔ سرکاری ملازمتوں میں ایسا نہیں ہوتا ‘ کبھی کبھی تو یہ عتاب خسروی اور الطاف خسروی کا معاملہ ہوتا ہے ۔ بہرحال کتاب طویل بھی ہے اور دلچسپ بھی ۔ میں نے اس مختصر سے مضمون میں محض چند باتیں لکھی ہیں ۔ میرا آپ سب سے مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ کتاب خریدیئے اور پڑھیئے ۔شاہد حسین صاحب کا طرز تحریر بیانیہ ہے جو اس قسم کی کتابوں کیلئے بہت موزوں ہے ۔ ان کی زبان سلیس ہے ‘ وہ غیر ضروری رنگ آمیزی نہیں کرتے ۔ ان کا حافظ بہت اچھا ہے ‘ جب کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں تو کوئی چھوٹی سے چھوٹی بات نہیں چھوڑتے ‘ کہیں تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ۔ شاہی ماحول میں کام کرتے وقت حریفانہ چشمک ‘ سرکار عالی کا قُرب حاصل کرنے کی جستجو میں رقابت ‘ نیچا دکھانے کی کوشش میں سو طرح کی سازشیں ‘ یہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن شاہد حسین نے اپنے تمام ساتھیوں کا ذکر خیر ہی کیا ہے اور کتاب ابراہام لنکن کے الفاظ میں With Malice Towards none and Friendship for all کا نمونہ ہے ۔ صرف ایک آدھ جگہ لکھا ہے کہ ظہیر احمد صاحب شاہد حسین کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ مصنف نے واقعات کو جس ترتیب اور سلیقے سے بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کا خاکہ بہت عرصے سے اس کے ذہن میں تھا ۔ اور ان کے ایک مشاق ادیب یا قصہگو کی صلاحیتیں بدرجہ اُتم موجود ہیں ۔ میں شاہد حسین زبیری صاحب کواس کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد دیتا ہوں ۔