انیس عائشہ

وقت کم ہے
نسیم جاگو ، کمر کو باندھو ، اٹھاؤ بستر کہ وقت کم ہے
یہ نظم کسی وقت گلی کوچوں میں گائی جاتی تھی ۔ فقیروں کی زبان زد تھی ۔ ٹرینوں میں ، میلوں میں گائی جاتی تھی ۔ اب ایک بھولی بسری چیز بن گئی ہے ۔ لیکن سوچیں تو دل دہل جائے ۔ واقعی وقت کہاں ہے ؟ عمر عزیز کو کس کس طرح خرچ کرڈالا ۔ نسیم آگے کہتے ہیں ’’کچھ ایسے سوتے ہیں سونے والے کہ جاگنا حشر تک قسم ہے‘‘ ۔ یہ تاکید تو ہر دور کے لئے ہے ۔ بچپن ، جب بقول سرسید احمد خان اسکول سے لوٹنے کی خوشی اور امید میں ، بچہ جلدی جانے کو تیار ہوجاتا ہے ۔ جوانی ، جب اپنے سوا کوئی چیز اہم نہیں معلوم ہوتی اپنی ذات ہی ساری دنیا کا محور معلوم ہوتی ہے اور پھر ڈھلتی عمر ، سچ پوچھو تو زندگی کا ہر دور مختصر ہوتا ہے ۔ گزرتا ہی جاتا ہے ، پھسلتا ہی جاتا ہے ۔ جیسے برف کی دکان ہو کہ برف پگھلتا ہی جارہا ہے اور کم ہورہا ہے ۔ کوئی چیز کام آنے والی نہیں ہے سوائے اپنے اعمال کے ۔ قریب قریب یہی مضمون نظیر اکبر آبادی نے بیان کیا ہے جہاں انسانی زندگی کی تمثیل بیان کی گئی ہے کہ کس طرح بنجارہ جب ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مقام کرتا ہے تو پیچھے ٹوٹا ہوا چولھا ، ادھ جلی لکڑیاں ، پھٹے پرانے کپڑوں کے ٹکڑے پڑے رہ جاتے ہیں ، دوسرے مقام کو جاتا ہے اسے بھی چھوڑتا ہے ۔ بنجارہ کا نام سنتے ہی سفر ، مسلسل کوشش ، عارضی مقام اور بے سر و سامانی کا تصور سامنے آتا ہے ۔ پھر جب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دنیا  ۔ یہ دل فریب دنیا جس سے بہت محبت ہوجاتی ہے اس کو بہرحال چھوڑنا ہے تو کچھ دیر کے لئے دل اچاٹ ہوجاتا ہے ۔ موت کا تصور آتا ہے اور لگتا ہے کہ یہ سارا ساز و سامان یہ سجاوٹ یہ لگاوٹ سب ہیچ ہیں ۔ عجیب سی بے چینی پیدا ہوجاتی ہے ۔ نظیر اکبرآبادی ایک نقشہ سا یوںپیش کرتے ہیں   ؎
جب چلتے چلتے رستے میں یہ گَون تری ڈھل جاوے گی
اک بَدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی
یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی
دھی پوت جنوائی ، بیٹا کیا ! بنجارن کام نہ آوے گی
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
بات آگے بڑھتی ہے تو لگتا ہے یہ نصیحت اور خبردار کرنے کا سبق تو قرآن کریم نے دے رکھا ہے جس کی توضیح اللہ کے رسولؐ نے کی ہے اور اللہ کے نیک بندوں نے اس پیغام کو بار بار دہرایا ہے۔
دراصل ہماری عقل اور نفس کے درمیان ہمیشہ جنگ ہوتی رہتی ہے ۔ یہ تو غلط ہے کہ ہمیشہ نفس ہی کی جیت ہوتی ہے کیونکہ اس خیال سے انسانی فطرت کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ دراصل زندگی کی رونق اس یقین پر قائم ہے کہ ہمیں ہمارے اچھے کاموں کا پھل ملے گا ۔ نفع حاصل ہوگا ۔ یہی وہ یقین ہے جو پائلٹ کو فضا کی وسعتوں میں لے جاتا ہے ۔ کیپٹن سے سمندر کی طوفانی موجوں میں جہاز چلواتا ہے ۔ ایک باپ ، ایک شوہر ، ایک بیٹے کو گھر بار ، عزیز و اقارب اور آرام چھوڑ کر دور دراز مقام پر جانے پر مطمئن رکھتا ہے ۔ کسان کو سخت سردی میں اندھیرے میں کھیت پر پہنچادیتا ہے ۔ یہی یقین ہے جس کے گرد زندگی گھومتی ہے ۔ لیکن ایک یقین اور بھی ہے اگر اس تک پہنچ ہوجائے تو دنیا اور آخرت سنور جائے ۔ یہ یقین اس بڑے نفع کا ہے جس کی خبر انبیاء نے دی ۔ پھر اللہ کے آخری نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ابدی پیغام لاکر اس یقین کو پختہ تر کردیا ۔ ہمیں باشعور بنادیا اور آخری خطبہ پر وعدہ لیا کہ ان کا پیغام ہم تک پہنچ گیا ہے اور ہم اس کو دوسروں تک پہنچاتے رہیں گے ۔ ہم عقل و دل کی پختگی کے ساتھ پیدا کئے گئے ہیں ۔ ہمارے راہبر  نے خود عمل کرکے اخلاق ، عمل ، عفو و درگزر کے ایسے ایسے طریقے بتادئے ہیں کہ کوئی لاکھ کوشش کرے ایک رخنہ بھی نہیں نکال سکتا ۔ یہ تو ہمارا نفس ہے ، خواہشات ہیں جو ہمیں کمر سے پکڑ پکڑ کر کھینچتی ہیں اور ہم بہانے تراشنے لگ جاتے ہیں ۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ ابھی کل ہی تو ہم پڑھ رہے تھے سوچ رہے تھے ، کہہ رہے تھے کہ ہم اب تو باقی زندگی اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پر گذاریں گے اور آج نماز و روزہ کی پابندی کے باوجود بے قابو ہوگئے ۔ مسلمان کا عمل عبادت ہے  ۔ہمارا وجود تو کفر و باطل کے سامنے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ایسا وجود جس کو اس کے خالق کے سوا کوئی خرید نہ سکے جبکہ مقاصد اس کو دنیا کی زیب و زینت سے بالاتر کرچکے ہوں ۔ ابھی تو ہمارا یہ حال ہے کہ بقول علامہ اقبال
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
ہمارے سامنے احکامات ہیں ، تسلیاں ہیں ، لطف و کرم ہے ۔ وعدے ہیں ، اللہ جانتا ہے کہ انسانی طاقت محدود ہے ۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ جب میں کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کرو ۔ لیکن جس چیز سے منع کروں اس کو یکسر ترک کردو (بخاری ۔ مسلم) شرک ، غصہ ، کینہ ، حسد ، خود پسندی ، بدلہ وغیرہ سے ہمیں روکا جارہا ہے ۔ لیکن ہم بے فکری سے جئے جارہے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے بس ہم دنیا کے لئے ہیں اور دنیا ہمارے لئے حالانکہ ؎
ہے دنیا چار دن کی اور ہیں سو کام کرنے کے
ہمیں جینا بھی ہے ، مرنے کی تیاری بھی کرنی ہے
ہماری تخلیق کا مقصد ہی اللہ کے حکم کی تعمیل ہے ، اگر اس کی تکمیل نہ کرپائیں تو نقص رہ جائے گا ۔ وہ راستہ اپنائیں جو مسافر کی جبین کے سارے سجدے اس طرح چھین لیتا ہے کہ سوائے اس چوکھٹ کے سر کہیں جھکتا ہی نہیں ۔