انٹرنیٹ کے ذریعہ طلاق

سوال : کیا بعد عقد تناول طعام کا اہتمام عاقدہ (دلہن) کے ولی کے ذمہ شرعاً درست ہے ۔ جبکہ عاقد اور عاقدہ دونوں خاندان ایک ہی بستی میں سکونت رکھتے ہیں ؟
کیا ناکح بیک وقت فون ، موبائیل ، انٹرنیٹ کے ذریعہ تین طلاق دے سکتا ہے جبکہ عاقدہ (اہلیہ) اور اسکے ولی و گواہ روبرو موجود نہ ہوں اور عاقد کسی دور دراز مقام پر ہو یا وہیں بستی میں رہتا ہو، اہلیہ سے علحدہ رہتا ہو اور وہ طلاق بلا عذرِ شرعی ہو۔ کیا وہ طلاق شرعاً درست ہوگی ؟
طلاق دینے کا معروف طریقہ شریعت میں کیا ہے ؟ ان مسائل کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں عنایت فرمائیں تو عین نوازش ہوگی ۔
عبدالصمد، فلک نما
جواب : شادی کے دن لڑکی والوں کو کھانا دینے مجبور کرنا یا ان پر پابندی عائد کرنا درست نہیں۔ اگر ان میں استطاعت ہے اور خوشی سے طعام کا انتظام کر رہے ہیں تو کوئی قباحت نہیں۔
اگر ناکح اپنی منکوحہ کے غیاب میں اس کا نام لیکر طلاق دے یا طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کر کے الفاظ زبان سے بولے یا تحریر کردے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ ناکح کے اقرار کے بعد گواہوں کی ضرورت نہیں۔ لہذا فون انٹرنیٹ پر شوہر طلاق دے تو طلاق واقع ہوگی اور بلا عذر شرعی طلاق دے تو شوہر گنہگار ہوگا۔ طلاق واقع ہوجائے گی۔ طلاق دینا ضروری ہوجائے تو جس پاکی میں بیوی سے صحبت نہیں ہوئی اس میں ایک مرتبہ طلاق دینا احسن طریقہ ہے، اس کے بعد عدت (تین حیض) ختم ہوجائے تو دونوں میں علحدگی ہوجائے گی اور اگر اندرون عدت دونوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوکر ندامت ہو تو شوہر کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت ختم ہونے پر دونوں آپس میں دوبارہ بقرار مہر جدید عقد کرلے سکتے ہیں۔
بیت الخلاء کی نشست کا رخ
سوال : نئے مکان کی تعمیر میں جگہ کم ہونے سے بیت الخلاء کی نشست اس طرح بنانا پڑ رہا ہے کہ بوقت قضاء حاجت قبلہ کو پشت ہورہی ہے۔ اس طرح مجبوراً بیت الخلاء بنایا جائے تو شرعاً کیا حکم ہے کیونکہ جگہ کی قلت کے باعث اس کے علاوہ کوئی صورت ہی نہیں ہے ؟
محمد عبدالباسط، کنچن باغ
جواب : بوقت قضاء حاجت سمت قبلہ استقبال (رخ کرنا) استدبار (پشت کرنا) دونوں مکروہ تحریمی ہیں۔ اضطراری صورت یعنی شدید مجبوری کی حالت ہو تو استقبال یا استدبار مکروہ نہیں۔ لیکن اضطراری صورت ہو تو استدبار کو اختیار کرے کیونکہ استدبار کے مقابلہ میں استقبال زیادہ قبیح (سخت ناپسندیدہ و برا) ہے۔ و یکرہ تحریما استقبال القبلۃ و استدبارھا ولو فی البنیان ( نورالایضاح) مذکورہ عبارت کے حاشیہ ص : 3 میں ہے … فان الاستقبال والا ستدبار لایکرھان للضرورۃ و اذا اضطرالی احدھما ینبغی أن یختارالاستدبار لان الاستقبال اقبح فترکہ ادل علی التعظیم ۔ افادہ القسطلانی۔
مذکورہ در صورت میں حتی الامکان و حتی المقدور اس طرح تعمیر کی کوشش و تدبیر کی جائے کہ رخ یا پشت قبلہ کی سمت نہ ہو۔ بصورت مجبوری بجائے رخ کرنے کے پشت کر کے بیت الخلاء کی نشست بٹھائی جاسکتی ہے۔

بدگمانی
سوال : آج کل مسلم معاشرہ میں پیار و محبت، اُلفت و شفقت کے بجائے نفرت، عداوت، بغض و مخالفت عام ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے بدگمانی کے شکار ہیں اور مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو بدگمان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔آپ سے گزارش ہے کہ آپ اسلامی نقطہ نظر اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے عمل مبارک سے واضح فرمائیں تو عین نوازش و کرم ہوگا۔
کاشف علی ، سکندرآباد
جواب : اسلام نے مسلمانوں، اپنے دوستوں اور اپنے عزیزوں کے متعلق حسن ظن کا حکم دیا ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ دوسروں کے متعلق حسن ظن رکھتے تھے۔ اسی بناء پر آپ ﷺ کو کسی سے کوئی ایسی بات سننا گوارہ نہ تھی جس سے آپؐ کے دل میں اپنے کسی صحابی کے خلاف کوئی کدورت پیدا ہونے کا احتمال ہوتا (الترمذی ، 710:5 حدیث 3896) ۔ آپ ﷺ کا ہمیشہ اس آیہ کریمہ پر عمل رہا : ’’یایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم‘‘ (49 (الحجرات{{{{) : 12) ’’یعنی اے اہل ایمان (دوسروں کے متعلق) بہت بدگمانی کرنے سے بچو کہ بعض گمان محض گناہ ہیں‘‘۔ آپ ﷺ کا ارشاد تھا : ’’حسن ظن اچھی عبادت ہے‘‘ (ابوداؤد ، 366:5، حدیث 4993) ۔ ایک مرتبہ ایک شخص حاضر ہوکر کہنے لگا : ’’یا رسول اللہ! میری بیوی کے ہاں سیاہ رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے‘‘ (یعنی شک کا اظہار کیا) آپ ﷺ نے فرمایا : ’’کیا تیرے پاس ایک کوہان والے اونٹ ہیں‘‘؟ اس نے کہا ’’ہاں‘‘ فرمایا : ’’ان کا کیا رنگ ہے؟‘‘ کہا : ’’سرخ‘‘ فرمایا : ’’کیا ان میں مٹیالے رنگ کے بھی ہیں؟‘‘ کہا : ’’ہاں‘‘ فرمایا : ’’وہ کہاں سے آئے؟‘‘ اس نے کہا : ’’شاید کسی رگ نے اپنی طرف کھینچ لیا ہو‘‘ (یعنی کسی رشتہ دار کا رنگ لے لیا ہو) ، فرمایا : ’’اپنے ہاں بھی یہی سمجھ لو‘‘ (الترمذی ، 439:4 ، حدیث 2128) ، آپ ﷺ کا فرمان ہے : ’’تم خاص طور پر بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت ہی بُری بات ہے‘‘ (مسلم، البر، 4 : 1980) ۔ ’’بدگمانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے سے خواہ مخواہ بدظنی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کی لپیٹ میں آنے سے کوئی شخص بھی نہیں بچ سکتا۔ آپ ﷺ اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اسی بناء پر خود بھی بدگمانی سے بچتے اور دوسروں کو بھی بدگمانی سے بچنے کی تلقین فرماتے۔
اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ کا یہ فرمان تھا کہ ان موقعوں سے بھی بچو جن سے دوسروں کو بدگمانی کا موقع مل سکتا ہے۔ اسی بناء پر آپ ﷺ عورت کو تنہا سفر کرنے یا کسی اجنبی مرد کے ساتھ خلوت کرنے سے روکتے تھے۔ (البخاری ، 453:3، النکاح ، باب 111، 112)

دینی معاملات میں میانہ روی
سوال : شریعت مطھرہ میں عبادات کو کافی اہمیت ہے لیکن کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہم کو ساری مصروفیات ترک کر کے صرف اور صرف عبادت الہی میں مشغول ہونا چاہئے۔ اگر ہم ساری زندگی عبادت الہی میں ‘ سر بسجود رہیں تب بھی ہم اس کی عبادت کا حق ادا نہں کرسکتے۔ شادی بیاہ ‘ کاروبار کیا یہ اعمال دنیوی ہیں۔ سب چیزوں کو چھوڑ کر کیا ہمیں عبادت الہی کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوجانا چاہئے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں شرعی احکام سے رہنمائی فرمائیں ۔
اسحاق خان، نیو ملک پیٹ
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز میں میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین اور دینی مسائل کے بارے میں اتنے اہتمام کے باوجود آپؐ کو رہبانیت (ترک دنیا) کا اسلوب قطعی ناپسند تھا۔ اگر کسی صحابی نے اپنے طبعی میلان کی وجہ سے آپؐ سے اجازت مانگی بھی تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ۔ خود آپؐ کا جو طرز عمل تھا اسے آپؐ نے یوں بیان فرمایا : ’’ میں اللہ سے تم سب کی نسبت زیادہ ڈرنے والا ہوں ‘ مگر میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا‘ نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور اسی طرح عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ‘‘ پھر فرمایا : ’’ یہی میرا طریقہ (سنت) ہے۔ جس نے میرے طریقے کو چھوڑا وہ میری امت میں سے نہیں‘‘ (البخاری ‘ 411:3 ‘ کتاب النکاح ‘ باب 41 ‘ مطبوعہ لائیڈن) ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ و بن العاص نے آپؐ سے ’’ مسلسل اور ہمیشہ روزے ‘‘ رکھنے کی اجازت مانگی تو فرمایا : ’’ زیادہ سے زیادہ تم صوم داؤد ‘ یعنی ایک دن چھوڑ کر روزہ رکھ سکتے ہو‘‘ پھر فرمایا : ’’ تیرے بدن کا بھی حق ہے‘ تیرے گھر والوں کا بھی تجھ پر حق ہے‘‘ (کتاب مذکور ‘ 1 : 443 ‘ کتاب الصوم ‘ باب 56 ‘ 57 ) ۔ ایک اور موقع پر حضرت ابو ہریرہ ؓ اور بعض دیگر صحابہؓ نے عدم استطاعت نکاح کی وجہ سے اپنے آپ کو جسمانی طور پر ازدوای زندگی کے ناقابل بنانے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؐ نے سختی سے منع فرمادیا ( کتاب مذکور ‘ 3 : 413 تا 414 ) ۔ ایک صحابیؓ نے دنیا کے تمام بندھنوں سے الگ ہوکر ایک غار میں معتکف ہوکر عبادت الٰہی کرنے کی اجازت طلب کی تو فرمایا : ’’ میں یہودیت یا عیسائیت کی طرح رہبانیت کی تعلیم نہیں لے کر آیا‘ بلکہ مجھے تو آسان اور سہل دین ‘ دین ابراہیم ملا ہے ‘‘ (احمد بن حنبل : مسند 266:5 )
کتب حدیث و سیرت میں مذکور اس طرح کے بے شمار واقعات سے اس بات کی بخوبی شہادت ملتی ہے کہ آپؐ کو عیسائیت کے راہبوں اور بدھ مت کے بھکشوؤں کی طرح دنیا اور اس کے رشتوں سے قطع تعلق کرنا ہرگز گوارا نہ تھا ۔ آپؐ اسے ایک طرح کا عملی زندگی سے فرار اور قنوطیت سمجھتے تھے اور آپؐ کے نزدیک زندگی کی طرف یہ منفی رویہ کسی عالمگیر اور پائیدار مذہب(اور اس کے بانی) کے شایان شان نہیں تھا۔ اس کے بالمقابل آپؐ کے رویے میں امید و رجا کا پہلو بہت نمایاں تھا ۔ آپؐ کا مسلک یہ رہا کہ دنیا میں رہکر دنیا کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اگر آپؐ کا کام رہبانیت یعنی خود کو برائی سے بچانے تک محدود ہوتا تو آپؐ کو اپنی عملی زندگی میں اتنی مشکلات اور مصائب و آلام کا ہرگز سامنا نہ کرنا پڑتا۔

مٹی کومٹی میںملانا
سوال : صندوقی اور بغلی قبروں کے بجائے میت کو اس طرح دفن کرنا کہ میت کے جسم پر مٹی ڈالی جائے تو شرعاً کیا حکم ہے ؟ نیز تدفین کے لئے بہتر اور مسنون طریقہ کیا ہے ؟
محمد آفاق، ٹولی چوکی
جواب : شرعاً قبر بنانے کے دو طریقے ہیں۔ (1) لحد : اس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے پوری قبر کھودی جائے پھر اس کے اندر قبلہ کی طرف ایک گڑھا اس قدر کھودا جائے کہ میت سماسکے‘ پھر میت کو اس کے اندر کر کے کچھ اینٹ و برگوں سے سوراخ بند کردیں۔ (2) شق : اس کا طریقہ یہ ہے کہ قبر کی لمبائی میت کی لمبائی کے موافق ہو اور چوڑائی نصف قد کے برابر اور گہرائی سینہ برابر ہو اور قبر کو کڑیوں کے ذریعہ چھت کی طرح بند کردیا جائے اور اگر کچھ سوراخ رہ جائیں تو ان کو کچھ اینٹ یا برگوں سے بند کردیں تاکہ مٹی میت پر نہ گرے۔ نیز جن مقامات پر مٹی نرم ہو وہاں شق یعنی صندوقی قبر بنائیں۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے عالمگیری جلد اول ص : 166-165 ) بدائع الصنائع جلد اول ص : 318 )
نیز جو زمین انتہائی نرم و گیلی ہو تو وہاں میت کو تابوت میں رکھ کر دفن کرنا ہے۔ (در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد اول کتاب الجنائز)
مسلمان میت کا احترام زندہ کی طرح لازم ہے ‘ میت پر مٹی ڈالنا احترام میت کے خلاف ہونے کی وجہ منع ہے۔ (الحاوی الکبیر جلد 3 کتاب الجنائز ص : 168 ) ۔

نکاح میں دینداری کو ترجیح
سوال : میری آپ سے درخواست ہے کہ ان مسلمانوں کو تاکید کریں جو لوگ اپنے لڑکے کی شادی کیلئے ایسی لڑکی تلاش کرتے ہیں جو مالدار ہو اور حسن سے مالا مال ہو۔
نام …
جواب : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عورت سے نکاح چار وجوہات کی بناء کیا جاتا ہے۔ (1) اس کے حسب نسب کی بناء (2) اس کے حسن و جمال کی بناء (3) اس کے مال دولت کی بناء (4) اس کی دینداری کی بناء ۔ آپ صلی اللہ علیہ وصلم نے دیندار عورت کو ترجیح دیتے ہوئے فرمایا تم دیندار عورت سے نکاح کر کے دین اور دنیا میں کامیاب ہوجاؤ۔ حسن و جمال ‘ مال و دولت عارضی ہیں۔ دینداری دنیا و آخرت میں کام آنے والی ہے۔