انعامات کی اہمیت کم کیوں ہوگئی ؟

کلدیپ نیر
میرا منشا یوم جمہوریہ پر انعامات سے سرفراز کئے جانے والے افراد کی توہین کرنا نہیں ہے ۔ اپنے متعلقہ میدانوں میں نمایاں حیثیت پانے والے چند کو چھوڑ کر انہوں نے برسراقتدار پارٹی سے جو اس بار بی جے پی ہے دور دراز کے ہی سہی رسوخ کی وجہ سے اعزاز پایا ہے ۔ کانگریس پارٹی کا سابقہ نظام بھی اعزاز کے لئے خود اپنے ہی لوگوں کو آگے بڑھانے کا قصوروار گردانا گیاہے ۔ تاہم یہ آئین سازوں کی سوچ کے برعکس ہے ۔ انہوں نے انعامات پر پابندی لگادی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب گاندھیائی جے پرکاش کے زیر قیادت عوامی تحریک کے بعد جنتا پارٹی آئی تو انہوں نے اس روایت کو ختم کردیا ۔ انعامات کی تقلید کرنے والے شخص ہندوستان کے اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو تھے ۔ وہ ادب ، اقتصادیات اور سائنس کے میدانوں میں کمال کا مظاہرہ کرنے والوں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا چاہتے تھے ۔ اس کے لئے کوئی رقم نہیں دی جاتی کیونکہ انعام خود اتنا بیش قیمت ہے کہ اسے مالی فائدے کے پیمانے پر نہیں تولا جاسکتا ۔
نہرو نہیں جانتے تھے کہ انعامات کی سیاست سے جوڑا جائے ۔ انہیں گمان بھی نہیں تھا کہ ایک دن انعامات مستحقین کے انتخاب کے لئے ہونے والی تمام تر مشق سیاست کی نذر ہوجائے گی ۔ حکومت برسراقتدار پارٹی کے خدمت گزاروں اور خوشامد کرنے والوں کا انتخاب کرے گی ۔

مجھے یاد آرہا ہے کہ بنیادی طور پر یوم جمہوریہ کے انعام کی شروعات تقریباً پچاس سال پہلے ہوئی تھی وہ وزارت امور خارجہ کے تحت تھی جس کے سربراہ نہرو تھے ۔ اس کے بعد کام وزارت داخلہ کے سپرد کردیا گیا جس نے اس کی ذمہ داری ایک ڈپٹی سکریٹری کو سونپ دی ۔ لیکن ان کے مصروفیات بہت زیادہ تھیں ۔ انہوں نے یہ ذمہ داری وزارت سے منسلک انفارمیشن شہر کو منتقل کردی ۔ اور اس طرح یہ کام میرے ہاتھ میں آگیا کیونکہ میں اس وقت وزارت داخلہ میں افسر معلومات تھا ۔
طریق انتخاب تحکمانہ تھا ۔ وزیراعظم اور دیگر وزراء ایک یا زیادہ نام تجویز کرتے تھے جنہیں میں افسر معلومات کی حیثیت سے ایک فائل میں لکھ لیتا تھا ۔ یوم جمہوریہ سے ٹھیک ایک ماہ پہلے مجھے ان ناموں میں سے ایک مختصر فہرست تیار کرنی پڑتی تھی ۔ اس کا مجھے اعتراف ہے کہ فہرست مرتب کرتے ہوئے میں کسی اصول پر عمل نہیں کرتا تھا اور فہرست ڈپٹی سکریٹری انچارج کو پہنچادیتا تھا ۔ جہاں سے وہ داخلہ سکریٹری اور سب سے بعد میں وزیراعظم کے پاس پہنچتی تھی ، میری ارسال کردہ فہرست میں چند ہی تبدیلیاں ہوتی تھیں ۔
لیکن مشکل ترین کام توصیف نامے لکھنے کا تھا جس کے لئے مجھے اپنے سامنے لغت اور راجیٹ کا تھیارس رکھنا پڑتا تھا ۔ بعض افراد کے معاملے میں مجھے ان کے ذاتی کوائف نامے سے رہنمائی ملتی تھی ۔ زیادہ تر ان میں محض متعلقہ شخص کے بارے میں مبہم تفصیل ہوتی تھی آیا کہ وہ کوئی سائنسداں ، ماہراقتصادیات یا ماہر تعلیم ہے ۔ اس سے مجھے بنیادی مدد تو مل جاتی تھی لیکن اس کی بنیاد پر توصیف نامہ تیار کرنا واقعی مشکل تھا ۔
یہ پورا عمل اتنا بے ہنگم تھا کہ حکومت سے کہنے کے لئے عدالت عظمی کو مداخلت کرنی پڑتی کہ وہ ایک سلیکشن کمیٹی تشکیل کرے  جس میں حزب مخالف کے لیڈر کو ایک رکن کی حیثیت سے شامل کیا جائے ۔ کمیٹی کی تشکیل ہوجانے کے بعد ذرا نظم قائم ہوا ۔ پھر بھی توصیف ناموں کی تیاری میرے ہی ذمہ رہی ۔
مسودہ گزٹ نوٹیفیکیشن راشٹرپتی بھون سے جاری ہونا تھا ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بار محترمہ لزارس کے نام کی سفارش صدر جمہوریہ نے کی تھی ۔ ہم وزارت داخلہ کے لوگ اس پر خوش ہوئے کہ مشہور ماہر تعلیم محترمہ لزارس کا نام تجویز ہوا ہے اور اسی کے مطابق سرکاری نوٹیفیکشن بھی منظرعام پر آیا ۔

لیکن جب صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد نے نوٹیفیکشن دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ان کا تجویز کردہ نام تو ایک نرس کا تھا ۔ آندھرا پردیش میں کرنول سے حیدرآباد کے سفر کے دوران دمہ کا دورہ پڑنے پر اس نرس نے موصوف کی دیکھ بھال کی تھی  ۔اس پر ہم سب کو پشیمانی ہوئی کہ انعام غلط شخص کو جارہا ہے  لیکن ہم کچھ نہیں کرسکے کیونکہ نام کا اعلان عام ہوچکا تھا ۔ اس سال لزارس نام کے دو افراد کو انعامات دئے گئے ۔
دو سال پہلے جب کانگریس حکومت اقتدار میں تھی تو امریکہ کے ہوٹل مالک سنت سنگھ چیٹوال کو ان کے خلاف بعض فوجداری مقدمات کے چلتے رہنے کے باوجود پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا ۔ وزارت داخلہ میں اس پر ہنگامہ ہوا لیکن ان کے انتخاب کے جواز میں یہ دلیل دی گئی کہ وہ بیرون ملک ہندوستان کے مقصد کو فروغ دینے والے معروف ہندوستانی ہیں ۔ لیکن ایسے بھی کئی معاملات ہیں کہ معروف افراد نے اس بنیاد پر انعام قبول کرنے سے انکار کردیا کہ انتخاب کنندگان ان کے علم وفن کی پرکھ کے مطلوبہ اہلیت نہیں رکھتے تھے ۔

ان باتوں سے ملنے والا سبق یہ ہے کہ کیا انعام دیا جانا ضروری ہے ۔ تجربہ یہ رہا ہے کہ برسراقتدار پارٹی انہی افراد کا اعتراف کرتی ہے جو یا تو پارٹی کے رکن ہوں یا اس سے کسی طرح وابستہ ہوں ۔ پارٹی سے قربت رکھنے والے افراد کو انعام سے نوازنے سے اس کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔
مثال کے طور پر سچن تنڈولکر کا معاملہ ہی لے لیجئے اس میں شک نہیں کہ وہ دنیا میں شاید ڈان بریڈمین کے بعد بہترین بلے باز ہیں لیکن ایسے میں جبکہ ہاکی کے شہنشاہ دھیان چند کے نام پر اعزاز کے لئے غور بھی نہ کیا گیا ہو ، کیا انہیں بھارت رتن دیا جانا چاہئے تھا ؟ جب داستانوی حیثیت کے ملکھا سنگھ کا انتخاب پدم ایوارڈ کے لئے ہوا تو انہوں نے ایک مسئلہ اٹھایا ۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے پدم ایوارڈ لینے سے انکار کردیا کہ وہ بھارت رتن سے کم کوئی اعزاز لینا نہیں چاہیں گے کیونکہ ان کے بیٹے کو پدم ایوارڈ ان سے پہلے دیا جاچکا تھا ۔
دانشوروں کے حلقے میں سے رومیلا تھاپر نے انعام واپس کرتے ہوئے ایک اور نکتہ اٹھایا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے کام کی تعیین قدر ان کے معاصر ہم پیشہ افراد سے کرائی جانی چاہئے نہ کہ وزارت داخلہ میں بیٹھے افسر شاہوں سے ۔ ممتاز ستار نواز ولایت علی خاں نے اسے توہین قرار دیتے ہوئے پدم شری اور پدم بھوشن دونوں انعامات لینے سے انکار کردیا تھا  ۔ان کی دلیل یہ تھی کہ وہ ایسا انعام قبول کریں گے جو ان سے کمتر اور ان کے خیال میں کم صلاحیت والے افراد کو دیئے جاچکے تھے ۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں غلط وقت پر ، غلط شخص کو ، غلط انعام دینے کی کہانی ہمیشہ دہرائی جاتی رہی ہے اور اس سے اسی دلیل پر تاکید ہوتی ہے کہ انعامات اور صلاحیتو میں کوئی مطابقت نہیں ہوتی ۔ یہ الزام رفع ہونے والا اس لئے نہیں ہے کہ انعام یافتگان کا انتخاب حکومت کے نامزد کردہ افراد کرتے ہیں ۔ آپ مجلس انتخاب میں حزب مخالف کے لیڈر کو شامل کرسکتے ہیں لیکن وہ فرد اقلیت میں ہی ہوگا ۔ انعامات کی اہمیت کے موضوع پر ملک میں بحث ہونی چاہئے ۔ شاید ان کی وہ افادیت ختم ہوچکی ہے جو ملک کی آزادی سے پہلے تھی ۔