انشاء اللہ طلاق دیدوں گا

سوال :  ایک اہم مسئلہ میں آپ سے شرعی رہنمائی مطلوب ہے۔ امید کہ آپ جلد جواب عنایت فرمائیں گے ۔
ہمارے قریبی رشتہ داروں میں ایک اہم مسئلہ درپیش ہوا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اختلافات ہوئے، بچی اپنے میکہ آگئی اور کئی دن تک دونوں میں صلح صفائی کی کوششیں ہوئیں۔ حال میں ایک میٹنگ ہوئی، لڑکا اور اس کے ماں باپ اور برادران لڑکی کے والد کے گھر آئے، گفتگو کے دوران تنازعہ بڑھ گیا۔ لڑکا غصہ میں بے قابو ہوگیا اور اس نے غصہ میں کہا کہ میں انشاء اللہ تمہاری بیٹی کو طلاق دے دوں گا، اس پر ساری مجلس پر سکتہ طاری ہوگیا ۔ کیا اس جملہ سے طلاق ہوگئی ، کیا لڑکے پر طلاق دیدینا ضروری ہوگیا ؟ براہ کرم جلد جواب دیں۔
نام …
جواب :  طلاق کے واقع ہونے کیلئے طلاق کا لفظ زمانہ ماضی یا حال کے صیغہ سے ادا کرنا ضروری ہے ، مستقبل کا صیغہ استعمال کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی یعنی میں نے طلاق دیا یا طلاق دیتا ہوں کہنے سے طلاق واقع ہوتی ہے، طلاق دیدوں گا (مستقبل کے صیغے کے ساتھ) کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ بھجۃ المشتاق لاحکام الطلاق صفحہ : 13 میں ہے : قال فی الفتح ولا یقع باطلقک الا اذا غلب فی الحال اھ قال فی الخلاصۃ و فی المحیط لو قال بالعربیۃ اطلق لایکون طلاقا الا اذا غلب استعمالہ فی الحال فیکون طلاقا۔
پس صورت مسئول عنہا میں لڑکے نے ’’ انشاء اللہ تمہاری بیٹی کو طلاق دیدوں گا ‘‘ کہا ہے تو اس سے مستقبل میں طلاق دینے کا عزم معلوم ہوتا ہے، لہذا اس طرح کہنے سے ازروئے شرع کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ ان دونوں میں رشتہ نکاح برقرار ہے۔
تعزیت کرنا / پرسہ دینا
سوال :  کسی کا انتقال ہوجائے تو لوگ ان کے پاس جاکر پرسہ دیتے ہیں، ان سے ملتے ہیں ، معانقہ کرتے ہیں ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ شریعت میں پرسہ دینے کا طریقہ کیا ہے ۔ لوگ جس طرح گلے ملتے ہیں اس طرح پرسہ کے  وقت ملنا ضروری ہے یا نہیں ؟
سید عبدالقدیر، تالاب کٹہ
جواب :  تعزیت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میت کے قریبی رشتہ داروں کو جو تکلیف میں ہوتے ہیں صبر کی تلقین کرنا تسلی دینا اور دلاسہ دینا اور یہ شرعاً مستحب ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من عزی أخاہ بمصیبۃ کساہ اللہ من حلل الکرامۃ یوم القیامۃ ۔ ترجمہ : جو شخص اپنے بھائی کو کسی مصیبت میں دلاسہ دے تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن عزت و کرامت کے لباس سے سرفراز فرمائے گا۔
تعزیت میں دو چیزیں ملحوظ ہوتی ہیں، مرحوم کے رشتہ داروں کو صبر کی تلقید کرنا ‘ دلاسے دینا اور دوسرا مرحوم کی مغفرت کے لئے دعائیں کرنا : یہی تعزیت ہے۔ معانقہ ضروری نہیں، تاہم  تعزیت کے وقت مصافحہ کرنا در حقیقت ان سے ہمدردی کا اظہار کرنا ہوتا ہے ۔ اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ ردالمحتار جلد 2 صفحہ : 260 مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : والتعزیۃ ان یقول : اعظم اللہ اجرک ‘ وأحسن عزاء ک و غفرلمیتک۔
استنجاء کیلئے ڈھیلے کا استعمال
سوال :   اگر استنجاء کے لئے پانی اور ڈھیلا دونوں ہوں تو ہمیں استعمال کے لئے زیادہ اہمیت کس کو دینا چاہئے ۔ کیا پانی موجود نہیں رہنے کی صورت میں ہمیں ڈھیلا استعمال کرنا چاہئے ؟
محمد ثقلین، مراد نگر
جواب :   استنجاء سے اصل مقصود نجاست کا دور کرنا ہے۔ طہارت کے لئے پانی کا استعمال پسندیدہ ہے۔ ڈھیلا اور پانی کا استعمال افضل ہے۔
نور الایضاح ص : 28 میں ہے۔ ’’ و ان یستنجی بجر منق و نحوہ والغسل بالماء احب والافضل الجمع بین الماء والحجر‘‘ ۔ اور جو لوگ طہارت کے لئے ڈھیلا اور پانی دونوں کا استعمال کرتے ہیں ان کی قرآن مجید میں تعریف آئی ہے ۔ ’’ فیہ رجال یحبون ان یتطھروا واللہ یحب المطھرین ‘‘ (التوبہ 108/9 )
(اس میں ایسے چند لوگ ہیں جو خوب پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاکی کا اہتمام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے)
یہ آیت شریفہ مسجد قباء کی تعریف میں نازل ہوئی جس میں وہاں رہنے والے انصار صحابہ کی صفائی و ستھرائی کی تعریف کی گئی ۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تم کیسے طہارت حاصل کرتے  ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم طہارت میں پتھر اور پانی کا استعمال کرتے ہیں۔ تو آ پ نے دیگر صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔ ’’ فقالوا کنا نتبع الجمارۃ بالماء فقال ھو ذاک فعلیکموہ (تفسیر جلالین ص : 167 )
زکوۃ کی رقم سے مسجد کی تعمیر کرنا
غیر مسلم کا مسجد کی تعمیر میں عطیہ دینا
سوال :  ہم روزنامہ سیاست کے کالم ’’ ہمارے مسائل اور شرعی احکام‘‘ کے ذریعہ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد کی تعمیر و ترمیم اور توسیع میں زکوۃ کے پیسے استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں؟
– 2  اگر نہیں کرسکتے ہیں تو کیا زکوۃ کی رقم سے مسجد کے احاطہ میں امام و مؤذن کے قیام کیلئے کمرے اور کرایے پر دینے کیلئے ملگیات بناسکتے ہیں یا نہیں ؟
– 3 اگر بناسکتے ہیں تو ان ملگیات کی آمدنی کو مسجد کے کاموں میں لگاسکتے ہیں یا نہیں؟
– 4 مسجد کی تعمیر و توسیع کی خبر محلہ میں عام ہوئی تو غیر مسلم ہندو بھائی بھی اس کارخیر میں تعاون کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا ان غیر مسلم ہندو بھائیوں سے مالی امداد لی جاسکتی ہے اور ان پیسوں کو مسجد کی تعمیر میں لگاسکتے ہیں یا نہیں ؟
– 5  ہم نے بعض دیندار بزرگوں سے سنا ہے کہ غیر مسلم سے لئے گئے پیسوں کو مسجد کی تعمیر میں نہیں لگاسکتے، البتہ ان پیسوں کو بیت الخلاء اور طہارت خانوں کی تعمیر کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے ؟
مختار خان، مبین احمد، اقبال
جواب :   زکوۃ کی رقم کا کسی غیر سید محتاج و مسکین شخص کو مالک بنانا ضروری ہے اور مقررہ رقم کی منتقلی صاحب نصاب کی ملکیت سے ، کسی محتاج و ضرورت مند کی ملکیت میں نہ ہو تو ازروئے شرع زکوۃ ادا نہیں ہوتی ۔ در مختار برحاشیہ رد المحتار جلد دوم صفحہ : 280 کتاب الزکاۃ میں ہے : (ھی) لغۃً : الطھارۃ والنماء ، و شرعاً (تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر) ولو معتوھا (غیرھاشمی ولا مولاہ مع قطع المنفعۃ یمن الملک من کل وجہ للہ تعالیٰ) چونکہ مسجد و مدرسہ کی تعمیر، فلاح و بہبود کے کام مثلاً یتیم خانہ کی تعمیر میں کسی فقیر و محتاج کو مال زکوۃ کا مالک نہیں بنایا جاتا اس لئے اس میں زکوۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی۔ اس کتاب کے صفحہ 377 میں ہے: یشترط ان یکون الصرف (تملیکا) لا اباحۃ کما مر (لا) یصرف (الی بناء) نحو (مسجد و) لا الی (کفن میت و قضاء دینہ)۔
پس صورت مسئول عنہا میں زکوۃ کی رقم سے مسجد کی تعمیر و ترمیم اور توسیع کرنا اور امام و مؤذن کے لئے مکان و کمرہ جات بنانا یا آمدنی مسجد کیلئے ملگیات بنانا ازروئے شرع جائز نہیں۔
– 2 غیر مسلمین کی رقم مسجد کی تعمیر میں براہ راست صرف نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ماکان للمشرکین أن یعمر وا مساجد اللہ مشرکین کیلئے روا نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مساجد آباد کریں (سورۃ التوبہ 17 ) اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے مفسرین و فقہاء نے بیان کیا کہ غیر مسلمین کے مال سے مسجد کی تعمیر کرنا ممنوع ہے ۔ تفسیر احمدی مطبوعہ بمبئی صفحہ 453 میں ہے : فان اراد کافرأن یبنی مساجد اویعمرھا یمنع منہ و ھوا المفھوم من النص وان لم یدل علیہ روایۃ۔ البتہ کوئی غیر مسلم اپنی رقم کسی مسلمان کو ہبہ کردے اور وہ مسلمان خود اس رقم کو مسجد کی تعمیر میں خرچ کرے تو شرعاً جائز ہے۔ لہذا براہ راست غیر مسلم کی رقم مسجد یا مسجد کی ضروریات بیت الخلاء وغیرہ کی تعمیر میں خرچ کرنا درست نہیں۔
صبح کا سونا
سوال :  مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلم نوجوان کاہل و سست ہوگئے ہیں، وہ رات دیر گئے دوست و احباب کے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں، دیر سے سوتے ہیں، نتیجے میں دیر سے اٹھتے ہیں، کئی نوجوان لڑکے تعلیم یافتہ ہیں، کمانے کے قابل ہیں لیکن وہ سستی و عفلت میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ، کماتے دھماتے نہیں، دکان عموماً دیر سے کھولتے ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنمایانہ ارشادات سے رہبری فرمائیں۔
مختار احمد، مہدی پٹنم
جواب :  صبح سویرے جلد اٹھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا اور صبح خیزی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح سویرے اٹھنے والوں کے حق میں دعاء خیر فرمائی ہے۔ ’’  اے اللہ ! میری امت کو صبح کے اٹھنے میں برکت دے ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ رزق کی تقسیم صبح سویرے ہوتی ہے۔ حضرت صخر ایک تجارت پیشہ صحابی تھے ، وہ ہمیشہ اپنا سامان تجارت صبح سویرے روانہ کرتے اور فرماتے ہیں کہ اس کی برکت سے مال کی اتنی کثرت ہے کہ رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ (ابو داود، 3 ، 8 ، کتاب الجہاد 26-6 ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات صبح سویرے ہی لشکر روانہ فرماتے اور سفر بھی و دیگر اہم کاموں کو رات کے آخری حصے میں انجام دینے کی ترغیب فرماتے۔
لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ فجر کی نماز کے ساتھ ہی اپنے کام و کاج کاروبار و تجارت و دیگر اہم امور کی انجام دہی میں مشغول ہوجائیں۔ رات میں زیادہ دیر تک بلا وجہ جاگنا پسندیدہ نہیں ہے، اس سے فجر کی نماز جو کہ فرض ہے چھوٹ جانے کا ندیشہ رہتا ہے اور  رزق کی تقسیم کے وقت وہ خواب غفلت میں رہتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں جلد سونے اور صبح جلد اٹھنے کی ترغیب دی ہے اور بعد نماز عشاء باہمی گفتگو و قصہ گوئی سے منع فرمایا ۔ پس فجر کی نماز ترک کرنا اور صبح دیر گئے تک سونا منحوسی ہے۔
شادی کرنے یا نہ کرنے سے متعلق متضاد بیانات کا حکم
سوال :   میرے قریبی رشتہ دار ہیں، ان کی لڑکی کی شادی کا مسئلہ تھا۔ پیامات آئے اور ایک لڑکا پسند آیا رشتہ طئے ہوگیا ، بعد میں ایک لڑکے نے فون کیا اور کہا کہ کہ وہ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے ، اس سے کہا گیا کہ اس کی شادی طئے ہوچکی ہے ۔ اس پر نظرثانی نہیں ہوسکتی، تو لڑکے نے کہا کہ وہ اس لڑکی سے چار ماہ قبل شادی کرچکا ہے۔ جب اس لڑکے سے ملاقات کی گئی، اس کو سمجھایا گیا تو اس نے کہا کہ اس نے شادی نہیں کی ہے۔ ایسی صورت میں اس کی کس بات کو قبول کیا جائے کہ اس نے شادی کی ہے یا نہیں ؟
نام مخفی
جواب :  اس بارے میں لڑکی سے حلفی بیان لیا جائے، لڑکی ، لڑکے کے جس بیان کی تصدیق کرے اس پر عمل کیا جائے۔ رد المحتار جلد 4 کتاب الاقرار میں ہے : وظاھرہ ان المقر اذا ادعی الاقرار کا ذباً یحلف المقرلہ او وارثہ علی المفتی بہ۔