انسان کا حافظہ

میرا کالم             سید امتیاز الدین
ہمارا خیال ہے کہ جہاں ایک نارمل آدمی کا حافظہ اچھا ہونا چاہئے وہیں اس کو ہر بات ہمیشہ یاد بھی نہیں رہنا چاہئے ۔ مثال کے طور پر تین دن پہلے آپ نے ناشتے میں کیا کھایا تھا ، ایک ہفتہ پہلے آپ دفتر کیا لباس پہن کر گئے تھے وغیرہ ۔ اگر ہر چھوٹی بات یاد رہنے لگے توزندگی اجیرن ہوجائے۔ اس لئے قدرتی طور پر بعض باتیں یاد رہتی ہیں اور بعض باتیں ذہن سے  نکل جاتی ہیں۔ ہم نے نہایت قوی حافظے والے حضرات کو بھی دیکھا ہے اور نہایت کمزور حافظہ کے بزرگوں کو بھی ۔ ہمارے ایک بزرگ جب بھی ہم سے ملتے ، ہم انہیں نہایت ادب سے سلام کرتے ۔ جواب میں وہ ہم سے ہمارے والد کا نام پوچھتے۔ ہم اُن کو اپنے والد کا نام بتاتے۔ وہ ایک طویل اچھا کہتے۔ اُن کا اگلا سوال یہ ہوتا کہ ہم کس اسکول میں پڑھتے ہیں اور کس جماعت کے طالب علم ہیں۔ دس منٹ میں وہ ہماری فراہم کردہ معلومات بھول جاتے اور پھر وہی سوالات دہراتے ۔ ہم کو عافیت اس میں نظر آتی کہ ہم ان کو الوداعی سلام کر کے رخصت ہوجائیں۔
ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کا حافظہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ وہ اپنے مر یضوں کے نام اور اُن کی بیماریوں کو خوب یاد رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کو اپنے مستقل مریضوں کی تشخیص میں مدد ملتی ہے ۔ اس لئے اکثر لوگوں کو اپنے فیملی ڈاکٹر سے  جلد فائدہ ہوتا ہے ۔

ادیبوں شاعروں کا حافظہ نسبتاً کمزور ہوتا ہے ۔ اُن کو اپنے کلام کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا۔ ایک بہت بڑے عالم تھے جن کو اردو عربی فارسی پر عبور تھا۔ وہ بہت اچھے شاعر بھی تھے ۔ انہوں نے ایک نہایت عمدہ لغت یعنی ڈکشنری بھی تیار کی تھی ۔ ہزاروں لاکھوں الفاظ کے معنی، ان کا صحیح استعمال ، تذکر و تانیث پر انہیں عبور تھا لیکن چھوٹی چھوٹی باتیں انہیں یاد نہیں رہتی تھیں۔ ایک بار وہ کہیں باہر سے گھر لوٹے اور بجائے اپنے گھر میں داخل ہونے کے پڑوس کے گھر میں داخل ہوگئے ۔ انہوں نے اپنی شیروانی اتاری تو دیکھا کہ وہ کھونٹی جس پر اپنی شیروانی ٹانگتے تھے ، اپنی جگہ پر نہیں ہے ۔ انہوں نے چیخ کر اپنی بیگم کو آواز دی ’’ارے میری کھونٹی کہاں گئی‘‘۔ جواب میں ایک خوف زدہ خاتون دوڑتی ہوئی آئیں’’کیسی کھونٹی ، کہاں کی کھونٹی ، تم کون ہو نالائق آدمی ، تم دوسروں کے گھر میں آئے کیسے ، فوراً باہر جاؤ ورنہ میں محلے والوں کو آواز دوں گی‘‘۔ سراسیمگی کے عالم میں اردو کے یہ مشہور ادیب اپنی شیروانی ہاتھ میں لئے ہوئے ننگے پاؤں باہر آگئے اور اپنا اصلی گھر تلاش کرنے لگے۔

اردو کے بہت بڑے شاعر حضرت جوش ملیح آبادی کا حافظہ بھی بہت کمزور تھا ۔ آزادی کے بعد جوش صاحب کو حکومت کے سرکاری رسالے آج کل کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور وہ کئی سال تک اس رسالے کے ایڈیٹر رہے۔ ا یک بار وہ اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ گھر سے اُن کی بیگم کا فون آیا ۔ اُن کی بیگم نے کہا کہ میرے ایک قریبی عزیز کا کوئی کام دہلی کے کسی دفتر میں اڑا ہوا ہے ۔ کسی بڑے آدمی سے جان پہچان نکال کران کا کام کرادو۔ جوش صاحب ، بیوی سے بہت ڈرتے تھے۔ فوراً حامی بھرلی اور اپنی بیگم کے رشتہ دار کا انتظار کرنے لگے جو کچھ ہی دیر میں آنے والے تھے ۔ پانچ دس منٹ کے بعد ایک صاحب ایک کاغذ ہاتھ میں لئے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے ۔ جوش صاحب کرسی سے کھڑے ہوئے آگے بڑھے اور اُن صاحب سے بغلگیر ہوگئے ۔ پھر کیا، تشریف رکھئے اور خود ان کے بازو بیٹھ گئے ۔ پھر بڑی بے تکلفی سے بیوی بچوں کی خیریت پوچھنے لگے ۔ دوسری طرف وہ صاحب جن کی خیر خیریت جوش صاحب اتنے خلوص سے پوچھ رہے تھے ، بے حد پریشان تھے ۔ انہوں نے ہاتھ جوڑ کر جوش صاحب سے کہا’’حضور نے شاید مجھے پہچانا نہیں ۔ میں آپ کی پیشی کا چپراسی ہوں۔ دس سال سے آپ کے کمرے کے داخلے پر بیٹھتا ہوں۔ صبح و شام آپ کو سلام کرتا ہوں۔ میں آٹھ دن کیلئے گاؤں جانا چاہتا ہوں۔ یہ میری رخصت کی درخواست ہے۔ جوش صاحب نے اُن کی درخواست منظور کردی پھر چپراسی سے کہنے لگے ۔ ’’دیکھو تھوڑی دیر میں ہماری بیگم کے کوئی عزیز آئیں گے۔ اُن کو اچھے طریقے سے لاکر ہم سے ملاؤ۔ کہیں ہم اُنہیںچپراسی نہ سمجھ بیٹھیں۔

اوپر ہم نے کمزور حافظے کی مثالیں دی ہیں لیکن کچھی نہایت قوی حافظہ بھی مصیبتیں پیدا کردیتا ہے ۔ ہماری جان پہچان میں کسی لڑکی کے رشتے کی بات چل رہی تھی ۔ لڑکی کے والد نے خیر و برکت کیلئے اپنے بڑے بھائی یعنی لڑکی کے تایا کو بھی بلوالیا تھا ۔ موصوف نے لڑکے والوںکے سامنے لڑکی کی تعریفوںکے پل باندھ دیئے ۔ کہنے لگے ’’اس لڑکی کی کس کس خوبی کی تعریف کروں۔ امورِ خانہ داری میں طاق ، پکوان میں ماہر ، پڑھائی میں شروع سے آخر تک فرسٹ کلاس ۔ سونے پر سہاگہ نہایت خوش بخت ۔ جس دن یہ بچی پیدا ہوئی اسی دن مجھے سرکاری ملازمت ملی۔ کل ہی میں 35 سال کی بے داغ سرویس کے بعد ریٹائر ہوا ہوں اور آج اس کے رشتے کی بات چیت ہورہی ہے۔ یہ سننا ہی تھا کہ لڑکی والوں پر بجلی گر پڑی اورلڑکی والوں کے ہوش اُڑگئے۔ تایا صاحب کی بے دا غ سرویس پر کسی نے دھیان نہیں دیا ۔ سب کو اسی انکشاف سے دھکہ پہنچا کہ لڑکی کی عمر 35 سال ہے۔
اکثر شعراء کو بھی خود ا پنا کلام یاد نہیں رہتا ۔ ایک مشاعرے میں کوئی شاعر اپنا کلام سنا رہے تھے ۔ ایک غزل کے دو شعر سنانے کے بعد باقی اشعار بھول گئے ۔ دوسری غزل کے تین شعر سنانے کے بعد باقی اشعار پھر بھول گئے ۔ مجمع میں سے آواز آئی ’’کیا یہ کلام آپ ہی کا ہے ؟ ‘‘ شاید اسی لئے اکثر شعراء یا تو مجموعہ کلام ساتھ رکھتے ہیں یا پھر کاغذ پر اپنی نظم یا غزل لکھ کر لاتے ہیں۔ بعض لوگ اپنے اچھے حافظے کو بے کار کاموں کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ آج سے تیس چالیس سال پہلے ہماری ملاقات ایک ایسے صاحب سے ہوئی تھی جو فلموں کی چلتی پھرتی انسائیکلو پیڈیا تھے ۔ انہوں نے پہلی ناطق فلم عالم آراء کے بعد جتنی فلمیں آئی تھیں سب کی سب پہلے دن دیکھیں اور ایسے رجسٹر تیار کئے تھے جن میں ہر فلم کے بارے میں تمام معلومات جیسے اس فلم کا ڈائرکٹر کون تھا ، کہانی کس نے لکھی تھی ، میوزک کس نے دی تھی ۔ ہیرو ہیروئن کون تھے وغیرہ ۔ جب بھی کوئی ان سے فلموں کے تعلق سے کوئی سوال پوچھتا تو وہ نہایت فخر سے اس کو جواب دیتے ۔ ہم کو ایسا حافظہ غیر ضروری معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک طرح کا علم غیر نافع ہے ۔
ہم نے اپنی زندگی میں ایک عجیب و غریب دماغی صلاحیت کی خاتون کو دیکھا ہے جن کا نام شکنتلا دیوی تھا ۔ ضرب ، تقسیم ، جمع ، تفریق کا مشکل سے مشکل سوال آپ انہیں دیں ، وہ اسے صرف ایک نظر دیکھ کر اس کا جواب لکھ دیتی تھیں۔ امریکہ میں ان کا مقابلہ اس وقت کے مروجہ کمپیوٹر سے کیا گیا تو وہ کمپیوٹر سے آگے نکل گئیں ۔ یہ ایک خداداد صلاحیت تھی جو ہر کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی۔

بعض لوگ پیدائشی طور پر  غائب دماغ ہوتے ہیں۔ انگریزی کے مشہور ادیب ای ایم فارسٹر کی کتاب A Passage to India ہندوستان میں بہت مقبول ہے ۔ اُن کے والد ایک نہایت غایب دماغ شخص تھے ۔ جب وہ اپنے بیٹے کی نام رکھائی کیلئے اسے چرچ لے گئے تو پادری نے لڑکے کا نام پوچھا ۔ فارسٹر کے باپ نے نام بتایا ای ایم فارسٹر پادری نے باپ کا نام پوچھا ۔ ای ایم فارسٹر کے والد نے پھر یہی نام دہرادیا۔ اس طرح باپ اور بیٹے کا ایک ہی نام پڑ گیا۔
کبھی کبھی حافظہ عین موقع پر دغا دے جاتا ہے ۔ ہم خود اس کے شکار ہوچکے ہیں۔ ہم ایک جلسے کی نظامت کر رہے تھے ۔ جلسے کے مہمانِ خصوصی پروفیسر علی محمد خسرو تھے ۔ اُن کو اسٹیج پر بلانے سے پہلے ہم نے ایک لمبی چوڑی تقریر کردی ۔ اُن کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے لیکن آخر میں انہیں شہ نشین پر بلانے سے پہلے ان کا نام لینا ضروری تھا اور نام تھا کہ یکلخت ذہن سے محو ہوگیا تھا ۔ ہم پسینہ پسینہ ہوئے جارہے تھے کہ اچانک ہماری نظر اسٹیج پرلگے ہوئے بیانر پر پڑی جس پر اُن کا نام لکھا تھا ۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایک شرمندگی سے نجات ملی۔

قصہ مختصر انسان نے کمپیوٹر دنیا بننے کے ہزاروں لاکھوں سال بعد بنایا لیکن قدرت نے انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک انوکھا کمپیوٹر دماغ کی شکل میں اس کے اندر رکھ دیا ۔ انسان کے دماغ کی ساخت اور اس کے عجیب و غریب کارنامے آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئے ۔ انسانی دماغ کیا کچھ کرسکتا ہے ، یہ آج کی ترقی یافتہ دنیا خود بتلا رہی ہے۔ اگر دماغ کی کارکردگی میں فرق آجائے تو کیسی کیسی شخصیات بجھی ہوئی شمع بن کر رہ جاتی ہیں۔ ال زایمر Alzheimer کا شکار لوگ یادداشت کھو بیٹھتے ہیں اور ز ندہ رہنے کے باوجود وہ زندگی اور اپنے آس پاس کی دنیا سے دور ہوجاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اچھی نیند اور دماغی سکون دماغی صحت کیلئے ضروری ہے ۔ بہرحال تناؤ بھری زندگی گزارنے سے حتی الامکان بچنا چاہئے ۔ بچوں کو ٹی وی اور موبائیل فون اور انٹرنیٹ سے دور رکھنا چاہئے۔
حافظہ ایک نعمت ہے اس کی جتنی قدر کی جائے کم ہے ۔ قرآن شریف کے حفاظ کا حافظہ بھی زبردست ہوتا ہے ۔ ہمارے محلے میں دو لڑکے تھے ، ان کے والد نے پانچویں چھٹی جماعت کے بعد اپنے بچوں کو اس اسکول سے اٹھالیا اور چار پانچ سال کے لئے حفظ قرآن مجید کے مدرسے میں شریک کردیا۔ حفظ کی تکمیل کے بعد دوبارہ اسکول میں شریک کرادیا ۔ قرآن شریف کے حفظ کی برکت سے اُن کی دماغی حالت اور حافظہ اتنا اچھا ہوگیا کہ ایک لڑ کا انجنیئر بن گیا اور دوسرا ڈاکٹر۔ یہ ہمارا چشم دید واقعہ ہے ۔
چلتے چلتے ہم ایک بات اور بتادیں کسی نے ہم کو بتایا تھاکہ جانوروں میں ہاتھی کا حافظہ بہت قوی ہوتا ہے  ہم کو آج تک ییہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہاتھی کو یاد رکھنے کی کیا باتیں ہوتی ہوں گی۔