انسانی حقوق کی تنظیمیں خاموش کیوں ہیں؟

تلنگانہ /اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
انسانی حقوق کی تنظیمیں نہ جانے کہاں ہیں۔ ان کے تمام رہنما جو تقریباً مجاہدین تھے، انھیں خاموشی کے ساتھ چپ کرادیا گیا۔ جس کے بعد پولیس انکاؤنٹر، ظلم و زیادتیاں اور مسلم نوجوانوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے والی طاقتیں شور مچانے لگیں۔ اب انسانی حقوق کی خود ساختہ تنظیمیں پھس پھس کرکے اپنے وجود کا احساس دلارہے ہیں۔ مگر مسلمانوں کے قتل کے ذمہ داروں کو کوئی سزا نہیں ہورہی ہے۔ حیدرآباد میں گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران فائرنگ اور انکاؤنٹر کے واقعات میں سیمی کے کارکنوں کو ہلاک کردیا گیا۔ پولیس ملازمین بھی مارے گئے۔ جب ایک واقعہ میں پولیس ملازمین ہلاک ہوئے تو اس کا انتقام دیگر مسلم نوجوانوں کا فرضی انکاؤنٹر کے ذریعہ قتل کیا گیا۔ قانون اور پولیس کا یہ انتقام افسوسناک حد تک ہندوستان کے امن کو درہم برہم کرنے کی چنگاری بن سکتا ہے۔ پانچ مسلم نوجوانوں کے قتل کے بعد یہ توقع رکھنا بے کار ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلم نمائندہ تنظیمیں کسی مؤثر احتجاج کے ذریعہ حکومتوں کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دینے میں کامیاب ہوں گی۔ اُمت مسلمہ کا احوال بیان کرتے ہوئے ہر دردمند فرد کو رونا آتا ہوگا۔ دنیا بھر میں مسلم نوجوانوں میں شدت سے یہ احساس جاگ رہا ہے کہ مسلمانوں کو ستایا جارہا ہے، انھیں نشانہ بنایا جارہا ہے اس لئے ہتھیار اُٹھالیا جائے، ظلم کا ہاتھ کچل دیا جائے، ظالم کی کھوپڑی اُڑادی جائے۔ تلنگانہ میں ہوئے انکاؤنٹر نے مسلم نوجوان نسل کے ذہنوں کو یہی سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر مسلمانوں کا لہو بے حد ارزاں کیوں ہے؟ ماضی میں جب بھی دہشت گردی کے حوالے سے مسلم نوجوانوں کو پھانسا گیا ہے عدالتوں نے پولیس کی نااہلی اور ثبوت کی عدم فراہمی پر نوجوانوں کو بری کردیا ہے۔ یہاں بھی محمد وقارالدین اور دیگر چار مسلم نوجوانوں محمد حنیف، امجد علی، ریاض خان تمام حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں اور اظہار خاں یوپی کو بھی عدالت کی جانب سے برات ملنے والی تھی

لیکن پولیس نے اپنی ناکامیوں اور مسلم نوجوانوں سے تعصب پسندی رکھتے ہوئے انتقام لیا۔ ان تمام 5 نوجوانوں پر الزام ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم تحریک غلبہ اسلام چلارہے تھے اور ان کا اصل نشانہ پولیس آفیسرس کا خاتمہ تھا۔ ان نوجوانوں کو حیدرآباد میں پولیس پر سلسلہ وار حملوں کے بعد 2010 ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ یہاں سے انھیں 2011 ء میں ورنگل سنٹرل جیل منتقل کیا گیا۔ ان نوجوانوں کا مبینہ انکاؤنٹر اُس وقت ہوا جب اِنھیں عدالت میں پیش کرنے لایا جارہا تھا۔ ہتھکڑیوں سے بندھے ان نوجوانوں پر پولیس نے جو الزامات عائد کئے ہیں اور انکاؤنٹر کو درست قرار دینے کے لئے جس طرح کی کہانی گھڑی ہے اس پر ہر سمجھدار شخص نے شبہ ظاہر کیا ہے۔ اس انکاؤنٹر کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلمانوں کا گروپ حکومت پر دباؤ ڈال کر خاطیوں کو گرفتار کرواتا۔ حکومت سے استعفیٰ کے لئے مجبور کراتا۔ حکمراں پارٹی کے مسلم قائدین اور وزراء کو استعفیٰ کے لئے زور دیتا۔ یہ سب کچھ نہیں ہوا اور مسلمانوں کے قائدین اپنے اپنے ذمہ کے بیانات دے کر چپ ہوگئے۔ انکاؤنٹر کے بعد پولیس نے جو کہانی گھڑی اس میں کئی خامیاں ہیں ان کی نشاندہی کرکے شدید احتجاج کیا جاسکتا تھا۔ حکومت کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے کہ وہ اس انکاؤنٹر کی مدافعت کرے۔ پولیس یہ کہتی ہے کہ وقارالدین نے پولیس کی گاڑی روک کر ضرورت سے فارغ ہونے کے لئے گاڑی سے اُترا تھا۔ واپسی میں اس نے ایک پولیس ملازم کے بندوق چھین لینے کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ جب اس کے ہاتھ ہتھکڑیوں سے جکڑے ہوئے تھے تو کس طرح بندوق چھین سکتا ہے۔ پولیس نے ہی جو تصویر جاری کی ہے

اس میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ وقارالدین کے سیدھے ہاتھ کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہے اور یہ کار کی سیٹ سے بندھی ہوئی ہے۔ آخر وقار نے پولیس پر فائرنگ کرنے کے لئے کس ہاتھ کا استعمال کیا ہوگا؟ اس نوجوان کو پولیس نے بالکل قریب سے گولی مار دی۔ اس کے ساتھ دیگر چار نے بھی پولیس کی بندوقیں چھین لینے کی کوشش کی تھی جبکہ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ جب گاڑی سے صرف ایک نوجوان نیچے اُترا تھا تو ماباقی چار نوجوان بس میں ہی تھے۔ آخر یہ لوگ پولیس سے ہتھیار کس طرح چھین لینے کی کوشش کرتے جبکہ ایک نوجوان کے ساتھ دو پولیس ملازم پہرہ دے رہے تھے۔ ان قیدیوں کی نگرانی کے لئے 3 موٹر گاڑیاں اور 17 پولیس ملازمین تھے۔ آخر ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا شخص کس طرح مسلح گارڈس پر حاوی ہونے کی کوشش کرسکتا ہے۔ پولیس نے ان نوجوانوں پر الزام لگایا کہ انھوں نے ویان میں ہی پولیس ملازمین کو ہلاک کرکے فرار ہونے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ایک مہلوک نوجوان حنیف ڈاکٹر تھا۔ اس پر ہتھیار رکھنے کے الزامات تھے جن کو بعدازاں خارج کردیا گیا۔ تاہم وقارالدین کو پناہ دینے کا الزام تھا۔ لیکن پولیس نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ان تمام مسلم نوجوانوں کا انکاؤنٹر کرکے مسلم معاشرہ کو خوف زدہ کرنے یا پھر دیگر حساس مسلم نوجوانوں کو شدت پسندی و دہشت گردی کی طرف ڈھکیلنے کے لئے یہ کارروائی کی ہے۔ پولیس نے اپنی حرکتوں کے ذریعہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے افسانے کو برقرار رکھنے کا کام کیا ہے۔ یونانی و آیورویدک ڈاکٹر کو بے قصور مار دیا گیا۔ دیگر نوجوانوں کو بھی مکہ مسجد بم دھماکہ کیس میں ناحق پھانسا گیا جبکہ مئی 2007 ء کے اس کیس میں تمام 70 ملزمین کو عدالت نے رہا کرکے ان نوجوانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھانسنے کے لئے معاوضہ بھی دینے کا حکم دیا تھا۔ مکہ مسجد دھماکہ کیس کے اصل ملزم ہندو واہنی کے سوامی اسیمہ آنند کی پونے میں گرفتاری کے بعد یہ تمام نوجوان رہا ہوئے تھے مگر وقارالدین اور دیگر کو رہا کرنے میں پولیس اور قانون کے درمیان مقدمہ بازی کا کھیل چلتا رہا تھا۔ جب عدالت ان نوجوانوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کرنے والی تھی تو پولیس کے چند تعصب پسند عہدیداروں نے انھیں زندہ چھوڑنے کو اپنی ناکامی سمجھ کر ان کے قتل سے اپنا ہاتھ رنگ لئے۔

اب اس واقعہ کو ہر زاویئے سے دیکھا جائے تو یہ قتل ہی لگ رہا ہے تو حکومت اور عدلیہ کو اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ عدالتی تحقیقات اور مجرمین کو سزا دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے مگر یہ یقین نہیں ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف ہوگا۔ مسلمانوں کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ آیا ان کی نوجوان نسل کو یوں ہی پولیس کے انکاؤنٹر کا شکار ہونے کے لئے چھوڑ دیا جائے کیوں کہ آج نئی نسل اس اضطراب کا شکار ہے کہ ہندوستان میں خاص کر فرقہ پرستوں کی حکومتوں میں مسلمانوں کا مستقبل کتنا تشویشناک ہوگا۔ سیاسی استحکام، اقتصادی قوت اور منصفانہ نظام کی آرزو رکھنے والے مسلمانوں کو اس وقت فرقہ وارانہ نظریہ کا شکار بنایا جارہا اس لئے اپنی منزل کی سمت کا تعین کرنے اور مقاصد کے حصول کے لئے جامع منصوبہ بندی نہ بنانے کے نتائج بھی مسلمانوں کے جان و مال، معاشرتی، اقتصادی خوشحالی اور سیاسی استحکام کی راہ کو بگاڑ دینے والے کامیاب ہوں گے۔ مسلمانوں کو تباہ کرنے کے معاملہ میں کئی عناصر اپنا اپنا کام کررہے ہیں۔ جس میں پولیس کا رول واضح ہے۔
kbaig92@gmail.com