اندھے شیر کو عینک کون پہنائے گا ؟

میرا کالم مجتبیٰ حسین
اطلاع آئی ہے کہ پچھلے دنوں جے پور کے چڑیا گھر میں ایک 20 سالہ ببر اور ایک 19 سالہ شیر کی آنکھوں کا کامیاب آپریشن کیا گیا اور اہم بات یہ ہے کہ اس آپریشن کو علاج حیوانات کے ماہرین امراض چشم نے انجام دیا ہے ورنہ اس سے پہلے دہلی کے چڑیا گھر میں جب ایک ببر کی بینائی خراب ہوئی تھی تو اس کے آپریشن کے لئے ایک ایسے ماہر امراض چشم کی خدمات حاصل کی گئیں جو انسانوں کی آنکھوں کے خصوصی معالج ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ببر کی آنکھوں کا آپریشن کرتے وقت انسانوں کی آنکھوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر پر کیا گذری ہوگی ، اس کے بارے میں سوچتے ہیں تو جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ پھر ایسا کرتے ہوئے ہمیں نہ جانے کیوں اپنے کرم فرما ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کا خیال آگیا جو حیدرآباد کے ممتام ماہر امراض چشم ہیں اور ہم جیسے غیر ممتاز انسانوں کی آنکھوں کا بھی علاج کرتے رہتے ہیں ۔ یہ جو ہم دنیا کو بُری نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ سب ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کا ہی فیض ہے ۔ یہاں ہم یہ وضاحت بھی کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر شیام سندر پرشاد تو صرف ہماری نظر ٹھیک کردیتے ہیں ۔ اب اس نظر کو ’’بُری نظر‘‘ ،،ترچھی نظر‘‘ ’’ٹیڑھی نظر‘‘ ’’کڑی نظر‘‘ اور ’’تیکھی نظر‘‘ بنانا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اس معاملے میں ماہرین امراض چشم کے علاج کا کوئی دخل نہیں ہوتا ، وہ ہمیں صرف نظر عطا کردیتے ہیں جسے ہم حسب توفیق اور حسب موقع ٹیڑھی ، ترچھی ، سیدھی ، بُری اور اچھی وغیرہ بنالیتے ہیں ۔ بعض لوگ آنکھوں کے ڈاکٹر سے بڑی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں اوراس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ آنکھوں کا ڈاکٹر نہ صرف کمزور بینائی رکھنے والی آنکھوں کو تیز نظر عطا کرے گا بلکہ وہ خوشگوار اور حسین منظر بھی فراہم کرے گا جسے یہ آنکھیں دیکھ سکیں ۔ نظر فراہم کرنے کی ذمہ داری یقیناً ڈاکٹر کی ہوتی ہے لیکن حسین و خوشگوار منظر فراہم کرنے کا معاملہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ہوتا ہے ۔ لوگ چاہتے ہیں کہ آنکھوں کا ڈاکٹر وہ سب کچھ کرے جس کے کرنے کا وہ اہل نہیں ۔ ہمیں اس وقت اپنے ایک بزرگ دوست یاد آگئے جو شراب بہت پیتے تھے اور کثرت شراب نوشی کی وجہ سے ان کی بینائی خراب ہونے لگی تھی ۔ ایک دن ان کے ڈاکٹر نے وارننگ دینے کے انداز میں کہا ’’جناب! اب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے ۔ یا توآپ اپنے اندھے ہوجانے کو ہنسی خوشی قبول کرلیں یا پھر شراب بالکل ترک کردیں ۔ اس کے سوائے کوئی تیسری صورت ممکن نہیں ہے‘‘ ۔ اس پر ہمارے بزرگ دوست نے جو اس وقت قطعاً نشے میں نہیں تھے ،کچھ دیر کے لئے سوچا پھر بولے ’’ڈاکٹر صاحب ! میرا خیال ہے کہ پچھلے پچھتر برسوں میں میں نے بہت دنیا دیکھ لی ہے ۔ اب مجھ میں اسے مزید دیکھتے رہنے کی سکت نہیں ہے ۔ لہذا آپ مجھے بشوق اندھا بنادیں ۔ میں شراب کے سہارے باقی زندگی جیسے تیسے گذارلوں گا‘‘ ۔ ڈاکٹر نے حیرت سے کہا ’’آپ پہلے مریض ہیں جو میرے پاس اپنے اندھے پن سے نجات حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ اندھے پن کو اختیار کرنے کے لئے آئے ہیں ، آپ بھی عجیب آدمی ہیں‘‘ ۔ اس پر ہمارے بزرگ دوست نے کہا تھا ’’جناب! یہاں معاملہ بصارت کا نہیں بلکہ بصیرت کا ہے‘‘ ۔

بہرحال اس کالم کو لکھتے ہوئے ہمیں ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کا خیال اس لئے آیا کہ اب پانی خود آنکھوں کے ڈاکٹروں کے سروں سے بھی اونچا ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہماری چشم تصور نے یہ دیکھا کہ ایک خونخوار اور خوفناک شیر ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کے سامنے بیٹھا ہے اور سامنے دیوار پر ایک بڑا سا پوسٹر آویزاں ہے جس میں بکری اور کتّا دونوں کی جلی تصویریں ہیں ۔ ان کے نیچے کچھ کم جلی تصویریں بلی اور خرگوش کی ہیں ۔ اور نیچے جائیں تو بھینس ، گینڈے ، گھوڑے اور گدھے بھی موجود ہیں ۔ ایسے میں ڈاکٹر صاحب ایک ہاتھ میں بجلی کا ہنٹر لئے کھڑے ہیں جسے وہ بار بار گھما کر زمین پر مارتے جارہے ہیں اور بہ آواز بلند شیر کوحکم دے رہے ہیں کہ وہ بکری اور کتے کی جوڑی والی تصویر میں اپنے پسندیدہ جانور پر پنجہ مارے ۔ پھر علی الترتیب بلی اور خرگوش یا گدھے اور گینڈے کو سامنے رکھ کراپنی پسند کا اظہار کرے ۔ ظاہر ہے کہ شیر ہماری طرح پڑھا لکھا تونہیں ہوتا کہ حروف تہجی کو پڑھ کر اپنی بینائی کا ثبوت دے ۔ یوں بھی شیر کی بینائی کا ٹسٹ اسی طرح لیا جاسکتا ہے ورنہ ڈاکٹر کو کیسے معلوم ہوگا کہ شیر کی بینائی اچھی ہے یا خراب ہوچکی ہے ۔ جب ہماری چشم تصور نے ڈاکٹر شیام سندر پرشاد کو اس حال میں دیکھا تو ان کی جرأت اور دلیری پر ہمیں یقیناً رشک آیا کہ ایسا دلیر اور شیردل ڈاکٹر کہاں پیدا ہوگا جس نے ایک خطرناک اور خونخوار شیر کو بھیگی بلی بنا کر اپنے سامنے بٹھا رکھا ہے ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب موصوف سے ہمیں جو تعلق خاطر ہے اور عقیدت ہے اس کے پیش نظر ہمیں یہ خوف بھی رہا کہ کہیں یہ شیر ڈاکٹر پر حملہ نہ کردے ۔ اگر جانوروں اور وہ بھی خونخوار جانوروں کا علاج کرنے کے لئے انسانوں کے ڈاکٹروں کی خدمات سے استفادہ کرنے کا رواج عام ہوجائے تو ہمیں یقین ہے کہ آنکھوں کے ڈاکٹروں کا پیشہ سب سے خطرناک پیشہ سمجھا جائے گا ۔ اس لئے کہ کسی شیر کی بصارت کا حال جاننا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ بکری اور کتے کے پوسٹروں کی مدد سے شیر کی بینائی کاحال معلوم ہوجائے ۔ لیکن شیر کو عینک کیسے لگائی جائے گی اور اسے کون لگائے گا ۔ عینک کا نمبر کیسے معلوم کیاجائے ۔ بائی فوکل عینک لگائی جائے گی یا دور کی نظر کی عینک اور پاس کی نظر کی عینک الگ الگ ہوگی ۔ آپ شیر کی بینائی کی جانچ کی بات کرتے ہیں ، یہاں تو انسانوں کی بصارت کا تعین بھی مشکل ہے ۔ ہمارے ایک دوست کی بینائی کی خرابی کا حال ان کے احباب کو اس وقت معلوم ہوا جب وہ ہمارے ساتھ ایک پارک میں سیر کررہے تھے کہ زوردار ہوا چلی جس کے باعث ان کی ٹوپی اُڑ کر زمین پر گری اور ہوا کے زور سے زمین پر لڑھکنے لگی ۔ یہ اسے پکڑنے کے لئے پیچھے بھاگتے رہے ۔ بڑی دیرتک وہ بھاگتے رہے اور ہم ان کی واپسی کے انتظار میں چپ چاپ کھڑے رہے ۔ بالآخر جب وہ واپس آئے تو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ٹوپی کی جگہ ایک عدد بلی ہے جسے وہ اپنے سر پر بٹھانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ۔

بہرحال ایسی پریشانیوں کے باوجود یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اب انسانوں کے ڈاکٹر جانوروں کا علاج بھی کریں گے ۔ ہمیں سچ مچ نہیں معلوم کہ شیر کا نارمل بلڈ پریشر کتنا ہوتا ہے ۔ بلی کو شوگر کی بیماری کیوں نہیں ہوتی ۔ مینڈک کو زکام ہوجائے تو کیا طریقۂ علاج اپنایا جائے ۔ گدھے کی بائی پاس سرجری کرنے کی نوبت کب آتی ہے ۔ ہاتھی کا بلڈ پریشر ناپنے کے لئے بلڈ پریشر کے آلے کی پٹی ہاتھی کے پاؤں میں باندھی جائے یا اس مقصد کے لئے اس کی سونڈ کو زحمت دی جائے ۔ ایسے بے شمار سوالات ہیں جو ہمارے ذہن میں پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔ اگر ان کا جواب تلاش کرلیا جائے تو طب کے شعبے میں یقیناً ترقی ہوگی ۔

شیر کی بصارت پر ہمیں اپنے ایک شکاری دوست کی یاد آگئی ۔ نوجوانی میں وہ ہمیں اکثر شکار پر لے جایا کرتے تھے ۔ ایک بار شکار پر گئے تو گھنے جنگل میں ایک ڈاک بنگلے میں قیام کیا۔ چوکیدار نے بتایا کہ نواحی علاقے میں ایک شیر رہتا ہے جس کی بینائی کمزور ہوگئی ہے اور ثقلِ بصارت کی وجہ سے وہ غفلت اور ناسمجھی میں خود شیروں اور انسانوں پر حملہ کردیتا ہے ۔ شام کا وقت تھا ، ہمارے شکاری دوست نے کہاکہ ہم ڈاک بنگلے میں ہی رُکے رہیں ۔ اتنی دیر میں وہ آس پاس اس اندھے شیر کو دیکھ آتے ہیں ۔ اگر مل جائے تو اس کا خاتمہ بالخیر کردیں گے کیونکہ انسانوں پر بھی حملہ کرنے لگا ہے ۔ کچھ دیر بعد ہم ڈاک بنگلے کی بالکنی میں کھڑے تھے کہ بندوق کے چلنے کی آواز آئی ۔ پھر دیکھا کہ ہمارے دوست دیوانہ وار ڈاک بنگلے کی طرف بھاگتے ہوئے آرہے ہیں ۔ ہم نے زور سے پکار کر پوچھا کیا تم نے شیر کو ہلاک کردیا ہے ۔ اس پر انھوں نے بھاگتے بھاگتے کہا ’’فوراً نیچے آکر ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولو ، میں زندہ شیر کو ساتھ لے کر ڈاک بنگلے میں آرہا ہوں‘‘ ۔ کچھ دیر بعد ہم نے دیکھا کہ ان کے پیچھے پیچھے شیر بھی بے تحاشہ بھاگتا چلا آرہا ہے ۔

بینائی کے بارے میں کچھ لکھنے پر آئیں تو ہم بے شمار قصے اور واقعات لکھ سکتے ہیں ۔ اگر ماہرینِ امراضِ چشم انسانوں کے علاوہ حیوانوں کی آنکھوں کا علاج بھی کرنا چاہتے ہیں تو بسر و چشم ضرور کریں ۔ چشم ماروشن ، دلِ ماشاد ۔ لیکن ہماری آنکھوں میں اب بھی بعض خامیاں ، اتنی لمبی زندگی گزارنے کے باوجود موجود ہیں ۔ جیسے ہماری آنکھ کا پانی مرگیا ہے ، اسے بحال کریں ۔ ہماری آنکھ میں رحم اور محبت کی رمق کیوں نہیں دکھائی دیتی ۔ لوگ ہم پر آنکھیں کیوں نکالتے ہیں اور یہ کہ ہم ان کی آنکھوں میں کیوں نہیں بھاتے ۔ ہماری آنکھوں کا نہ سہی ان کی آنکھوں کا علاج تو ہو ۔ انسانوں اور حیوانوں کے بیچ علاج کے معاملے میں آپسی تعاون تو یہ بھی ہونا چاہئے کہ جانوروں کے اعضا انسانوں میں لگادیئے جائیں ۔ کیا یہ ممکن ہے شیر کا دل ہمارے سینے میں لگادیا جائے ۔ پھر چیتے کا جگر ، ہرن کی آنکھیں ، بلبل کا گلہ ، گھوڑے کی ٹانگیں ، بلی کے پنجے ، گینڈے کی کھال بھی ہمیں درکار ہے ۔ یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ صدیوں سے انسان اپنے ذاتی اعضاء کی مدد سے انسانیت کی بلندی کو نہ چھوسکا بلکہ اب تو زوال کی منزل آنے لگی ہے ۔ لومڑی کی چالاکی ، گائے کی شرافت ، شیر کی خودداری ، اونٹ کا توکل ، عقاب کی آنکھیں ، ہاتھی کی توانائی وغیرہ جیسی چیزیں انسان کو میسر آجائیں تو شاید انسان میں تھوڑی سی انسانیت پیدا ہوجائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں حیوانوں میں جتنی انسانیت پائی جاتی ہے اتنی انسانیت تو خود انسان میں دکھائی نہیں دیتی ۔