اندھیروں کو روشنیوں میں تبدیل کرنے کے منصوبے

تلنگانہ ؍اے پی ڈائری خیراﷲ بیگ
تلنگانہ ریاست میں ٹی آر ایس نے اقتدار سنبھال لیا ہے ۔ نئی حکومت کا کام کاج اور چیف منسٹر کے چندرشیکھرراؤ کی ترجیحات کو بھی عوام سن رہے ہیں ، دیکھ رہے ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت کے منصوبوں میں تلنگانہ عوام کو روشن مستقبل دکھائی دے رہا ہے تو آندھراپردیش میں چندرابابو نائیڈو زیرقیادت حکومت 8 جون کو حلف لے گی ۔ سیما آندھرا میں نئی حکومت کی ترجیحات اور منصوبوں کے بارے میں بہت جلد علم ہوگا ۔ اس وقت تلنگانہ کے عوام کی ساری توجہ کے سی آر پر مرکوز ہے ۔ انھوں نے حیدرآباد کو عالمی درجہ کا شہر بنانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے تو شہری بھی اس عالمی درجہ کے شہر کو بہت جلد حقیقت میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔ نئی حکومت 9جون سے اسمبلی سیشن طلب کررہی ہے

جہاں تلنگانہ عوام کیلئے روزگار میں اضافہ ، مہنگائی میں کمی ، صحت اور تعلیم کی سہولتوں میں اضافہ ، یتیموں ، بیواؤں ، بیکسوں ، بوڑھوں کے دکھوں کا مداوا ، بے گھروں کے لئے گھر ، اندھیروں کو روشنیوں میں تبدیل کرنے کے متعدد منصوبے بنائے جائیں گے لیکن کسانوں کو قرضے معاف کرنے کے وعدہ سے انحراف پر ٹی آر ایس حکومت کے خلاف تلنگانہ کسانوں کی پہلی اور شدید ناراضگی دیکھی جارہی ہے ۔ ہر حالت میں تلنگانہ ریاست کے قیام کیلئے اپنے خواب کی تعبیر عوام کے سامنے پیش کرنے والے کے سی آر کو دیگر خوابوں کی تعبیر کے لئے سخت آزمائشوں سے گذرنا پڑے گا ۔ تلنگانہ کے قیام سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران عوام کے لئے بہترین خوشخبریوں کے علاوہ وہ سب کچھ کر گذرنے کے اعلانات کئے گئے تھے کہ عوام کی اکثریت نے ٹی آر ایس کو ووٹ دیا تھا اب انھیں اس فیصلہ کے عوض کیا ملے گا یہ غیرواضح ہے ۔ کسانوں کی ناراضگی نئی حکومت کے لئے نیک شگون نہیں ہے ۔ ریاست میں برقی کٹوتی اور شہریوں کو درپیش کئی مسائل کی یکسوئی ایک بڑی آزمائش ہے ۔ کے سی آر کو آگے آگے پتہ چلے گا کہ ریاست کے حصول کیلئے احتجاج کرنا آسان ہے

حکومت چلانا مشکل کیوں کہ اپنی تو نیند اڑگئی تیرے فسانے میں کے مصداق کے سی آر کیلئے حکومت کا فسانہ بہت زیادہ آسان بھی نہیں ہوگا ۔ اگر یہ حکومت تلنگانہ عوام کے اکثریتی مینڈیٹ کے باوجود بے بس ہوتی ہے تو اسے عوام کو جوابدہ ہونا ہوگا ۔ نئی حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے ابھی کوئی قطعی اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ آگے آگے دیکھئے بس ہوتا ہے کیا کے مطابق چندرشیکھر راؤ اور ان کی کابینہ کا مقابلہ آندھرا پردیش کی چندرابابو نائیڈو کابینہ سے کیا جانے لگے تو اس میں فرق تو واضح ہوگا ۔ تلنگانہ میں 24 اضلاع بنانے کا ارادہ رکھنے والے کے سی آر اپنی حکومت کے نظم و نسق کو موثر ڈھنگ سے چلانے کا جذبہ تو دکھا رہے ہیں تاکہ ان کی حکومت ہر ایک ضلع کی مجموعی ترقی کے لئے جدوجہد کرسکے مگر 24 اضلاع کا نظم و نسق جب ابتری کا شکار ہوگا وہ ناقابل قیاس ہوگا کیوں کہ نئے ضلع کے لوگ ناانصافی کی شکایت کریں گے ، کے سی آر تو کہہ رہے ہیں کہ ہر ایک ضلع میں نمس کے خطوط پر ایک دواخانہ ہوگا ، ہر پرائمری ہیلت سنٹرس میں 30 بستر ہوں گے اور ہر علاقہ کے ہاسپٹلس میں 100 بستر کو لازمی بنایا جائے گا ۔

تمام سرکاری دواخانوں میں خانگی ہاسپٹلس سے زیادہ بہتر سہولتیں ہوں گی ۔ اس طرح کے اعلانات کو سن کر عوام کے دل باغ باغ ضرور ہورہے ہیں ۔ ان کو عملی جامہ پہنانے تک عوام کے کتنے دل ٹوٹیں گے اور کتنے دل مایوس ہوں گے یہ حکومت کی کارکردگی پر منحصر ہے ۔ چندرشیکھر راؤ یہ اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی پہلی حکومت ریاستی مشاورتی کونسل تشکیل دے گی جو عوامی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نمائندوں پر مشتمل ہوگی ۔ ان میں ایڈیٹرس اور دانشور بھی شامل ہوں گے ۔ یہ کونسل حکومت کی تمام اسکیمات اور پروگراموں کا جائزہ لیں گے اور حکومت کو مشورہ دیں گے۔ کے سی آر نے اپنی حکومت کی اولین ترجیح بیان کرتے ہوئے کہاکہ تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دی جائے گی ۔ آئندہ دو سال میں کے جی تا پی جی تک تمام بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کا اعلان واقعی قابل ستائش ہے ۔

تمام زاویوں سے تلنگانہ کو ایک مثالی ریاست بنانے کا عہد کرنے والے کے سی آر کو تلنگانہ عوام سے کئے گئے تمام وعدوں کو پورا کرنا ہوگا ۔ آئندہ 5 سال کے دوران ٹی آر ایس حکومت پسماندہ طبقات ، ذاتوں ، قبائیلیوں اور بچھڑے طبقات ، اقلیتوں کی بہبود کے لئے ایک لاکھ کروڑ روپئے خرچ کرے گی جبکہ تلنگانہ کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو برقی سربراہی موثر بنانے سے حکومت قاصر ہے ۔ ریاست میں برقی کی طلب پیداوار سے زیادہ ہے، اس خامی کو دور کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہیں۔ موجودہ طورپھر ریاست آندھراپردیش میں برقی پیداوار کی صلاحیت 16,465 میگا واٹ ہے ۔ آندھراپردیش میں ری آرگنائزیشن ایکٹ 2014 ء کے مطابق تلنگانہ کے حصہ میں 8,337 میگاواٹ برقی آئے گی جبکہ سال 2014-15 کے لئے برقی طلب کا تقاضہ 7,260 میگاواٹ ہے جبکہ برقی سربراہی صرف 4,500 میگاواٹ ہی ہورہی ہے

جس کے نتیجہ میں 2,760 میگاواٹ برقی کی کمی ہے ۔ برقی پیدا کرنے کیلئے فی الحال 3 بڑے پراجکٹس ہنوز کاغذ کی زینت بنے ہوئے ہیں ان میں تلنگانہ کاکتیہ تھرمل پاور پلانٹ ضلع ورنگل بھی ہے جس کی برقی پیداوار کی گنجائش 600 میگاواٹ ہے ۔ دو برقی پراجکٹس سیما آندھرا میں تیار ہورہے ہیں ۔ ریاست کی تقسیم کے بعد برقی کی سربراہی شدید متاثر رہی ہے ۔ تلنگانہ میں تو برقی کا بحران مزید شدت اختیار کرجائے گا اور شہر میں آئی ٹی شعبہ برقی کے بغیر مفلوج ہوکر رہ جائے گا ۔ سابق حکومتوں نے عوام کو مختلف اسکیمات فراہم کرکے اپنا اقتدار مضبوط کرلیا تھا ۔ وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی اسکیمات کو زبردست مقبولیت حاصل ہے ۔ اب تلنگانہ اور آندھرا کی نئی حکومتیں ان اسکیمات کو ختم کرتی ہیں تو یہ آغاز سے قبل ہی حکومت کے زوال کی جانب پہلا قدم کہلائے گا ۔ ا س لئے سابق حکمراں کی اسکیمات کومن وعن برقرار رکھتے ہوئے ان میں مزید وسعت دی جائے تو عوام کو سکون و خوشی نصیب ہوگی ۔ صدر تلگودیشم چندرابابو نائیڈو نے واضح طورپر کہدیا ہیکہ ان کی حکومت وائی ایس آر کی اسکیمات کو برخاست نہیں کرے گی ۔ چندرابابو نائیڈو نے اس سے قبل یہ بھی کہا تھا کہ کوئی مقبول عام اسکیم پر عمل نہیں کیا جائے گا مگر اس بیان کے فوری بعد عوام کے شدید ردعمل کو دیکھ کر چندرابابو نائیڈو نے بھی اپنا موقف تبدیل کرکے کہا کہ ان کی حکومت سابق حکمرانوں کی اسکیمات کو جاری رکھے گی ۔ نئی حکومتوں کے لئے پرانی اسکیمات پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔

تلگودیشم سیما آندھرا قائدین کو چاہئے کہ وہ پرانی اسکیمات ختم کرکے نئی اسکیمات لائی جائیں یہ فی الحال جوکھم کا فیصلہ ہوگا ۔ نئی ریاست کو اپنے نئے دارالحکومت کی تلاش اور صدر مقام بنانے کے کام انجام دینے کے علاوہ عوام کی اکثریت کو خوش رکھنے کی کوشش کرنی ہے ۔ 8 جون کو حلف لینے کے بعد نائیڈو کے مستقبل کے منصوبے بھی عیاں ہوں گے ۔ چندرابابو نائیڈو کو تلنگانہ سے بھی محبت رکھنی ہے ۔ اپنے علاقہ کے عوام کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کی نئی حکومت سے خوشگوار تعلقات پیدا کرنے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ چندرابابو نائیڈو کا ویژن زمانہ سے کئی سال آگے ہوتا ہے ۔ اس لئے ان کی فکر کو انقلابی فکر کا نام دیا جاتا ہے ۔ کیوں کہ انھیں آنے والے وقت میں آندھرا کے ساتھ ساتھ تلنگانہ اور دیگر ریاستوں میں بھی تلگودیشم کو مضبوط بنانے کے منصوبوں کو قطعیت دینی ہے ۔ تلنگانہ کے روشن خیال قائدین اپنے معاملوں میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یا پھر ان کی روشن خیالی وقت سے سمجھوتہ کرکے خود کو اپنے خیالوں اور خوابوں کی جنت میں بند کرلیتے ہیں تو ریاست کی حکمرانی اور رہنمائی کا فریضہ بھی فراموش ہوگا ۔ بہرحال دونوں ریاستوں کی نئی حکومتوں کی پالیسیاں اور کارکردگی رفتہ رفتہ عوام پر عیاں ہوگی ۔ دونوں حکومتیں اپنی سرگرمیوں کے ذریعہ عام آدمی کے ذہن میں خیر کے افکار کی آبیاری کرتے ہیں تو یہ خوشی کی بات ہوگی ۔
kbaig92@gmail.com