انجمن تلفّظِ اردو کا فوری قیام نہایت ضروری

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پچھلی صدی کی چھٹی دہائی کے اواخر میں حیدرآباد میں ایک انجمن قائم ہوئی تھی جس کا نام ’’انجمن تحفظ اردو‘‘ تھا ۔ اس وقت ارد وکی صورتحال اچھی تھی اور گاہے بہ گاہے اس کا تحفظ بھی ہورہا تھا ۔ رہی اردو الفاظ کے تلفظ کی بات تو اس معاملہ میں بھی صورتحال اتنی سنگین نہیں تھی جتنی کہ آج کل دکھائی دیتی ہے ۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں جب بھی اس انجمن کا نام ہماری زبان پر آتا تھا تو پھسل کر ’’تحفظ اردو‘‘ کی بجائے ’’تلفّظِ اردو‘‘ ادا ہوجاتا تھا ۔ ہوسکتا ہے ہمارے لاشعور میں یہ بات رہی ہو کہ مستقبل میں جب اردو کے تحفظ کے امکانات معدوم ہوتے جائیں گے تو فطری طور پر اردو الفاظ کا تلفّظ بھی بگڑ جائے گا اور اردو والے اس نوبت کو پہنچ جائیں گے کہ ایک ’’انجمن تحفظِ تلفّظِ اردو‘‘ بھی قائم کربیٹھیں ۔ بخدا آج ہمیں ایسی ایک انجمن کی شدید ضرورت لاحق ہوتی نظر آرہی ہے ۔ ماہنامہ ’’اردو دنیا‘‘ کے ایک شمارہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ایک ریسرچ اسکالر منظر علی کا ایک اہم مضمون ’’ٹی وی چینلوں میں اردوکا اہم کردار‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس میں ریسرچ اسکالر موصوف نے مختلف ہندی چینلوں سے نشر ہونے والی زبان کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعدیہ مژدہ سنایا ہے کہ ہندی پروگراموں میں اردو الفاظ کا نہ صرف بکثرت بلکہ بے دریغ استعمال ہونے لگا ہے ۔

یہی نہیں ہندی چینلوں کے پروگراموںکے نام تک اردو لفظیات پر مبنی ہوتے ہیں جیسے ’’خاص خبریں‘‘ ’’خبروں کی خبر‘‘ ’’جرم‘‘’’واردات‘‘ ’’آپ کی عدالت‘‘ ’’روبرو‘‘ ’’رات باقی‘‘ اور ’’گستاخی معاف‘‘ وغیرہ ۔ اردو ہی نہیں بلکہ ان چینلوں پر عربی کے خالص الفاظ بھی دھڑلے سے استعمال کئے جانے لگے ہیں جیسے ’’راحت‘‘ ’’دعوی‘‘ ’’وراثت‘‘ ’’بدلہ یا بدل‘‘ اور ’’الوداع‘‘ وغیرہ ۔ الوداع ایک ایسا لفظ ہے جس کا ہندی میں کوئی متبادل نظر نہیں آتا ۔ اس لئے اسے غلط املا کے ساتھ ساتھ ہندی لفظ بنالیا گیا ہے جیسے ’’ودائی کرنا‘‘ (رخصت کرنا) ’’ودائی سمارہ‘‘ (الوداعی تقریب) وغیرہ ۔ ریسرچ اسکالر منظر علی کا کہنا ہے کہ اردو الفاظ تو یقیناً بکثرت استعمال ہورہے ہیں لیکن ان کے تلفظ کے معاملہ میں سخن گسترانہ بات کچھ اتنی بڑھتی چلی جارہی ہے کہ بالآخر بات کا بتنگڑ بننے لگا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک ای ٹی وی (اردو) اور دور درشن (اردو) کے پروگراموں کا تعلق ہے یہاں تلفظ کا معاملہ بڑی حد تک گوارا اور تشفی بخش دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن ہندی چینلوں پر اردو الفاظ کا تلفظ مضحکہ خیز حد تک ناگوار بن جاتا ہے جیسے خبر کو کھبر ، نسخہ کو نسکھا ، حفاظت کو ہپھاجت ، فیصد کو پھیسد کے علاوہ وسیم جعفر کا نام وسیم زاپھر اور ہمارے مشہور و معروف دوست اصغر وجاہت کا نام ’’اسگر وضاحت‘‘ بن جاتا ہے ۔ پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کا تلفظ کبھی صحیح ادا کرتے ہیں اور کبھی غلط ۔ اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ شعوری طور پر یہ لوگ کوشش تو ضرور کرتے ہیں کہ تلفظ کی ادائیگی صحیح ہو لیکن اردو زبان سے نابلد رہنے کی وجہ سے ان سے اس طرح کی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔

غرض منظر علی نے تلفظ کی ایسی ہی کئی دلچسپ مثالیں پیش کی ہیں ۔ جی تو چاہتا ہے کہ ہم ایسی ہی مزید مثالیں پیش کریں لیکن ہمارے کالم کی کوتاہ دامنی ان مثالوں کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ پھر ہم بھی تو اس معاملہ میں اپنی ناچیز رائے کو پیش کرنے کے لئے بے چین ہیں ۔ نصف صدی پہلے اگر ہماری زبان پر ’’انجمن تحفظ اردو‘‘ کا نام پھسل کر ’’انجمن تلفّظِ اردو‘‘ کی صورت میں ادا ہوتا تھا تو اس کا ایک مطلب غالباً یہ بھی نکلتا ہے کہ ہماری زبان بہت پہلے سے ایسی پیشین گوئی کرنے کے قابل ہوگئی تھی کہ ایک دن اردو پر وہ کڑا وقت بھی آئے گا جب اس زبان کا تحفظ تو دور کی بات ہے اس کے لفظوں کا تلفّظ تک خطرہ میں پڑجائے گا ۔ چنانچہ یہ بات آج صد فیصد صحیح ثابت ہورہی ہے ۔ پچیس تیس برس پہلے کی بات ہے ، آل انڈیا ریڈیو کے شہرہ آفاق نیوز ریڈر دیوکی نندن پانڈے سے ہمارے بے تکلفانہ مراسم تھے ۔ وہ اگرچہ اردو رسم خط سے بالکل واقف نہیں تھے لیکن اردو تہذیب کے پروردہ تھے ۔ بات چیت میں جب وہ اردو کے الفاظ (بشمول ثقیل الفاظ) بولتے تھے تو ایسی عمدگی اور روانی کے ساتھ تلفّظ ادا کرتے تھے کہ یوں لگتا تھا جیسے کو کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان کے اکیلے وارث ہیں۔ فارسی کے شعروں اور عربی کے محاوروں پر بھی اپنا ہاتھ اور زبان صاف کرتے رہتے تھے اور ہم ان کی عربی دانی پر عش عش اور فارسی دانی پر فش فش کرتے رہ جاتے تھے ۔ مجاز ، فراق گورکھپوری اور کئی اور شاعروں اور ادیبوں کی صحبتوں کے فیض یاب تھے ۔ وہ آل انڈیا ریڈیو سے ہندی خبریں پڑھتے تھے اور شخصی طور پر ہندی خبروں میں نہایت سنسکرت آمیز ثقیل الفاظ کے استعمال کے خلاف تھے لیکن سرکار کی لسانی پالیسی کے آگے وہ کیا کرسکتے تھے ۔ ریڈیو کے معمول کے مطابق وہ اپنی خبریں اس جملے سے شروع کرتے تھے ’’یہ آکاش وانی ہے ۔ اب آپ دیوکی نندن پانڈے سے ہندی میں سماچار سنئے‘‘ ۔ مشہور ہے کہ ایک بار انہوں نے یہ جملہ اس طرح ادا کیا تھا ’’یہ آکاش وانی ہے ۔ اب آپ سماچاروں میں ہندی سنئے‘‘ ۔ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ جملہ شرارتاً ادا کیا تھا مگر یہ غلط جملہ کتنا صحیح تھا اس کا اندازہ اس جملہ کی ذہانت اور بندش سے لگایا جاسکتا ہے ۔ آج ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر سینکڑوں اردو الفاظ غلط تلفظ کے ساتھ ادا کئے جارہے ہیں لیکن کوئی ٹوکنے والا نہیں ہے ۔

ابھی پچیس تیس برس پہلے کی بات ہے اردو معاشرہ اتنا سرگرم اور حساس تھا کہ کسی لفظ کا غلط تلفظ سننا تو بہت دور کی بات ہے ، اگر ایک شاعر کا شعر کسی دوسرے شاعرسے منسوب ہوجاتا تھا تو یہ معاشرہ بپھر جاتا تھا ۔اس وقت ہمیں دو چشم دید اور گوش شنید واقعات یاد آرہے ہیں ۔ 70 ء کی دہائی کی بات ہے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو افسانہ پر ایک بین الاقوامی سمینار کی افتتاحی تقریب جاری تھی ۔ ایک نہایت بارسوخ مرکزی وزیر نے اپنی تقریر میں ایک شاعر کا شعر کسی دوسرے شاعر سے منسوب کردیا ۔ باقر مہدی جو اپنی بیباکی کے لئے بدنامی کی حد تک شہرت رکھتے تھے ، اس تقریب میں موجود تھے ۔ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا ’’جناب! آپ یہ شعر غلط شاعر سے منسوب کررہے ہیں ۔ تصحیح فرمالیجئے‘‘ ۔ اس پر وزیر موصوف نے کہا ’’میں آپ سے بعد میں بات کروں گا‘‘ اس پر باقر مہدی نے اپنے مخصوص لہجہ میں کہا ’’آپ مجھ سے کیوں کر بات کرسکتے ہیں کیونکہ آپ نے مجھ سے نہ تو کوئی وقت مانگا ہے اور نہ ہی میں نے آپ کو کوئی وقت دیا ہے‘‘ ۔ دوسرا واقعہ بھی کم و بیش اسی عرصہ اور نوعیت کا ہے ۔ بمبئی میں ایک ادبی تقریب آراستہ تھی ۔ مہاراشٹرا کے ایک مقتدر وزیر نے جن کا طوطی سارے ملک میں بولتا تھا ،اپنی تقریر میں کوئی اردو شعر غلط پڑھ دیا تو حسب اندیشہ عزیز قیسی اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے ’’آپ شعر غلط پڑھ رہے ہیں اسے یوں پڑھئے‘‘ ۔ وزیر موصوف نے کہا ’’آپ کو تصحیح کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا‘‘ ۔ اس پر عزیز قیسی نے کہا ’’مگر میں نے تو تصحیح کردی ہے‘‘ ۔ وزیر موصوف نے برہم ہو کر کہا ’’اس وقت آپ غالباً نشہ میں ہیں ۔ آپ سے بعد میں بات ہوگی‘‘ ۔ عزیز قیسی نے جواب دیا ’’میرا نشہ اگر ہے بھی تو کچھ دیر بعد اتر جائے گا مگر آپ اقتدار کے نشہ میں ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور یہ نشہ ایسا ہے جو خود سے نہیں اترتا بلکہ اسے اتارنا پڑتا ہے‘‘ ۔ یہ وہ دور تھا جب اردو معاشرہ اتنا حساس ہوا کرتا تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی خم ٹھونک کر سینہ سپر ہوجایا کرتا تھا ۔

سنا ہے کہ پچھلے دنوں حیدرآباد میں ایک تنظیم کی طرف سے شعر و ادب اور رقص و موسیقی کی ایک محفل آراستہ ہوئی تھی جس میں نامی گرامی فلمی اداکاروں نے ہمارے دو اہم اردو شاعروں کا کلام تلفظ کی بے حد فاش غلطیوں کے ساتھ پڑھا لیکن کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا کیونکہ یہ محفل ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد ہوئی تھی ۔ اس محفل کا خاکہ کچھ اس طرح کا تھا کہ پہلے تو کوئی فلمی اداکار شاعر کا کلام پڑھتا تھا (چاہے وہ اردو جانتا ہو یا نہ جانتا ہو) بعد میں کوئی گلوکارہ اسے گاتی تھی یا موسیقار اسے ساز پر بجاتا تھا ۔ آخر میں یہی کلام کسی رقاصہ کی مدد سے اسٹیج پر ناچا جاتا تھا ۔ اتفاق سے اس محفل میں دونوں شاعروں کے فرزندگان بھی موجود تھے ۔ ایک شاعر کے فرزند دلبند نے تو احتجاجی بیان دیا البتہ دوسرے شاعر کے فرزند مند بند نے وضاحتی بیان دیتے ہوئے یہ تسلیم تو کیا کہ شعر خوانی میں تلفظ کی فاش غلطیاں رہ گئی تھیں لیکن یہ بھی کہا کہ بعد میں گلوکارہ نے اپنی سحر آگیں آواز اور رقاصہ نے اپنے چٹپٹے اور لذیذ رقص کی مدد سے تلفظ کی ان غلطیوں کو ڈھانپ لیا یا یوں سمجھئے کہ ان غلطیوں کی تصحیح کرلی ۔ اس معصومانہ وضاحت پر ہمیں ہنسی آگئی کہ اب رقص اور موسیقی کو آج کے اردو معاشرہ میں رسم خط کا درجہ حاصل ہوتا جارہا ہے ۔ تاہم تلفظ کی غلطیوں کو رقص و موسیقی کی مدد سے ڈھانپنے کے نادر خیال سے ہی ہمیں وحشت ہونے لگی ہے ۔ کیوں نہ ہو ذرا دیکھئے کہ غالب نے اپنے ایک شعر میں ’’ڈھانپنے‘‘ کے عمل کو کیسی فیصلہ کن بلاغت کے ساتھ باندھا ہے ۔

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگ وجود تھا
اردو معاشرہ پر اب ایسا ہی نزع کا عالم طاری ہوتا جارہا ہے ۔ یاد رکھئے کہ جب کسی زبان کے الفاظ کا تلفظ بگڑنے لگتا ہے یا اس کا رسم خط اس سے چھین لیا جاتا ہے تو وہ زبان یتیم و یسیر ہو کر بالآخر تاریخ کے صفحات میں گم ہوجاتی ہے۔ خوب یاد آیا 1972ء میں ہم نے ایک انشائیہ ’’اردو کا آخری قاری‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا جس میں ہم نے پیشین گوئی کی تھی کہ اکیسویں صدی کے آتے آتے اردو ختم ہوجائے گی (اگرچہ بعد میں پبلک کے بے حد اصرار پر ہم اس پیشین گوئی سے دستبردار بھی ہوگئے تھے) ۔ ’’شب خون‘‘ کے خبر نامہ کے تازہ شمارہ میں ہمارے دانشور دوست اور اردو فکشن کے اہم نقاد سکندر احمد کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے ازراہ عنایت ہمارے مذکورہ بالا انشائیہ کا حوالہ دیتے ہوئے اور ہمارے انشائیہ کے خلاف تردیدی بیان جاری کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’اردو زبان سمٹ نہیں رہی ہے اور نہ سمٹے گی کیونکہ اردو کا سب سے بُرا دور گزر چکا ہے‘‘ ۔ سکندر احمد ہمارے عزیز دوست ہیں ۔ بے شک ہم نے اردو زبان کے انجام کے بارے میں اپنی پیشین گوئی واپس لے لی ہے لیکن ذرا دیکھئے کہ اکیسویں صدی میں جو اردو لُٹ لٹا کر اور اپنی جان بچا کر آئی ہے اس کا تلفظ کیسا ہے اور اس کے رسم خط کا کیا حال ہے ؟ اس کی تعلیم کا کیا بندوبست ہے ؟ اس کی جس کسمپرسی اور زبوں حالی کا ہم نے اپنے کالم میں ذکر کیا ہے اس کے پس منظر میں ہمیں یوں لگ رہا ہے جیسے سکندر احمد کا یہ پرامید انٹرویو ہمارے کالم کی تلخی اور یاسیت کو ’’ڈھانپنے‘‘ کی کامیاب کوشش ہے ۔

سب سے آخر میں ہم ٹیلی ویژن اور دیگر پروگراموں میں اردو کے ساتھ ہونے والی لسانی چھیڑ چھاڑ کے بارے میں بی بی سی کے معروف براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے تاثرات پیش کرنا چاہیں گے ۔ وہ فرماتے ہیں ’’یہ لوگ زبان کے قاتل ہیں ۔ ان کی گرفت ہونی چاہئے ۔ اگر کوئی زبان کے ساتھ بدسلوکی کرے تو اس کو سزا ملنی چاہئے ۔ یہ زبان کا زوال اور انحطاط ہے ۔ زبان تقدس مانگتی ہے ۔ احترام چاہتی ہے ۔ زبان کوئی کھیل نہیں ہے‘‘ ۔ ایک زمانہ تھا جب اردو میں چیزوں کے افشا اور آشکار ہونے کا چلن عام تھا مگر اب ’’ڈھانپنے‘‘ اور چھپانے کا رواج بڑھتا جارہا ہے ۔ معاف کیجئے ہمیں یہاں پھر غالب کا وہی شعر یاد آرہا ہے جو ڈھانپنے کے معاملہ میں ’’حرف آخر‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اب رہنے بھی دیجئے ۔ (ایک پرانی تحریر)