انتخابات میں دولت مند قائدین کی دوڑ

اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو منصفانہ اور آزادانہ بنانے کے لئے ضابطہ اخلاق کو نافذ کیا ہے اس کے لئے قواعد و شرائط کے مطابق پارٹیوں کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کی دولت اور آمدنی کا صحیح حساب کتاب کے ساتھ حلفنامہ داخل کرے ۔ تلنگامہ میں 30 اپریل کو ہونے والے انتخابات کے لئے جتنے بھی امیدواروں نے حلفنامہ داخل کیا ہے ان میں سب سے زیادہ امیر ترین امیدوار ٹی آر ایس کے ویشویشور ریڈی ہیں جن کی دولت 5 سو کروڑ سے زائد ہے ۔ یہ حلفنامہ میں ایمانداری سے درج کردہ دولت ہے جبکہ غیر معلنہ دولت کا کوئی حساب نہیں ہوگا ۔ ٹی آر ایس کے امیدواروں کے علاوہ دیگر پارٹیوں کے امیدواروں نے بھی اپنے حلفنامہ میں دولت اور اثاثہ جات کا اعلان کیا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ٹی آر ایس صدر چندر شیکھر راؤ نے اپنے حلفنامہ میں اپنی دولت صرف 8.65 کروڑ روپئے بتائی ہے اور حیران کن سچائی یہ ہے کہ ان کی پارٹی کا انتخابی نشان ’’کار‘‘ ہونے کے باوجود چندر شیکھر راؤ کسی موٹر کار کے مالک نہیں ہیں ۔ ان کے ارکان خاندان میں سے بھی کسی کے پاس موٹر کار نہیں ہے ۔ پسماندہ تلنگانہ کا پسماندہ لیڈر کس طرح ہوتا ہے وہ ٹی آر ایس کے قائدین کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ جہاں پر یہ لوگ اپنی پسماندگی کا ثبوت دے چکے ہیں ان کی پارٹی کے امیدواروں نے دل کھول کر بتادیا ہے کہ ان کی دولت کتنی ہے ۔ ڈاکٹر ریڈیز لیاب کے مالک ویشویشور ریڈی کی دولت 528 کروڑ سے زائد ہے ۔

اگرچیکہ تلنگانہ میں صرف تلنگانہ کے رہنے والوں کو امیدوار بنایا جانا چاہئے مگر ان میں ایسے امیدواروں کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے جو سیما آندھرا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ٹی آر ایس نے بھی دولت مند لیڈروں کو ٹکٹ دیا ہے ۔ پداپلی سے کانگریس کے امیدوار جی ویویکانند کو بھی دولت مند ترین امیدوار کہا جارہا ہے ۔ ان میں سب سے غریب ترین امیدوار کریمنگر کے پونم پربھاکر ہیں جو کریمنگر کے موجودہ ایم پی ہیں اور دوبارہ انتخاب بھی لڑرہے ہیں ۔ ان کے پاس کوئی غیر منقولہ جائیداد نہیں ہے ۔ البتہ منقولہ جائیداد میں بینک بیلنس ، نقد رقم اور زیورات کی جملہ لاگت 16.71 لاکھ روپے ہیں ۔ ان کی بیوی کی ملکیت 21.35 لاکھ روپے ہے ۔ سابق ڈی جی پی دنیش ریڈی بھی وائی ایس آر کانگریس پارٹی سے ملکاجگری لوک سبھا حلقہ سے مقابلہ کررہے ہیں ۔ ان کی دولت بھی 21.6 لاکھ روپئے سے زائد نہیں ہے ۔ 9 اپریل کو پرچہ نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ کے ساتھ ہی تلنگانہ کے تمام اضلاع میں سینکڑوں امیدواروںنے پرچہ نامزدگی داحل کرکے اپنی امیدواری کا اعلان کیا ہے ۔ 17 لوک سبھا اور 119 اسمبلی حلقوں کے لئے 30 اپریل کو ہونے والی رائے دہی ایک نئی تاریخ رقم کرے گی کیوں کہ تلنگانہ کو نئی ریاست کا درجہ مل رہا ہے اور اس نئی ریاست کا پہلا چیف منسٹر کون ہوگا یہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ جمعرات کو ہونے والی پرچہ جات کی تنقیح کے بعد جو بھی امیدوار میدان میں ہوں گے ان کی قسمت کا فیصلہ تلنگانہ کے رائے دہندے کریں گے ۔ بہوجن سماج پارٹی نے اگرچیکہ اس علاقہ کی پارٹی نہیں ہے ، تقریباً لوک سبھا کے 10 اور اسمبلی کے 68 امیدوار کھڑا کئے ہیں ۔

پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لئے آخر تک جد و جہد کرتے ہوئے کئی لیڈروں نے کامیابی حاصل کی تو کئی لیڈروں کو مایوسی ہوئی ۔ کانگریس کے کئی سینئر قائدین کو ٹکٹ نہیں دیا گیا تو ان کی ناراضگی واضح ہورہی ہے ۔ تلگودیشم ۔ بی جے پی اتحاد کے سوا تمام سیاسی پارٹیوں نے اس مرتبہ تنہا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ٹی آر ایس اور کانگریس جیسی پارٹیوں میں تلنگانہ کے قیام کے بعد ٹکٹ کی تقسیم ایک نازک مسئلہ تھا لیکن ان پارٹیوں کے سربراہوں نے زیادہ تر کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے ۔ وائی ایس آر کانگریس نے صرف 88 اسمبلی اور 13 لوک سبھا حلقوں سے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ لمحہ آخر میں تلگودیشم کے مرد آہن کو ناراض کردیا گیا ۔ ماتیاپلی ہنمنت راؤ تلگودیشم کے اہم لیڈر اور ٹی آر ایس سربراہ کے سی آر کے کٹر حریف تھے لیکن تلگودیشم نے ٹکٹ نہیں دیا تو وہ اپنے کٹر حریف چندر شیکھر راؤ کو دوست بنانے میں کامیاب ہوگئے اور انھیں اعلی سطحی کی ملکاجگری لوک سبھا نشست کا ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ انتخابات کو صاف ستھرا اور منصفانہ بنانے کے لئے الیکشن کمیشن نے بہتر انتظامات کئے ہیں ۔ پولیس کی مدد سے غیر قانونی رقومات کا پتہ چلاتے ہوئے اب تک 90 کروڑ روپے ضبط کئے گئے اور 70 کیلوگرام سونا بھی قبضہ میں لیا گیا ۔ اس بڑے پیمانہ پر رقمی منتقلی کے باوجود امیدواروں کے پاس اتنی بھاری مقدار میں دولت ہے کہ وہ رائے دہندوں کو خوش کرتے ہوئے اندھا دھند دولت لٹارہے ہیں ۔ فی کس 5 ہزار روپے میں ووٹ خریدے جانے کی بھی اطلاعات ہیں ۔ دیہی علاقوں میں اگر ایک خاندان میں 6 یا 7 ارکان ہوں تو انھیں ایک پارٹی سے 35 تا 50 ہزار مل رہے ہیں ۔ اسی طرح تمام پارٹیوں کے امیدواروں سے ملنے والی رقم سے یہ خاندان خوشحال بن گئے ہیں۔ کئی جھونپڑیوں میں ایک وقت کی روٹی مشکل تھی اور وہاں کلر ٹی وی آگیا ہے ۔

الیکشن کمیشن نے بڑے پیمانے پر غیر قانونی دولت ضبط کی ہے اس کے باوجود رائے دہندوں کو خوش کرنے دولت پانی کی طرح بہائی جارہی ہے ۔ 2009 کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے ریاست میں صرف 37 کروڑ روپے غیر قانونی رقم ضبط کی تھی ، پانچ سال کے اندر امیدواروں کی غیر قانونی دولت میں دوگنا اضافہ ہوا یعنی 90 کروڑ روپے کی ضبط شدہ رقم سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ انتخابات کھربوں روپے کا کھیل بن رہے ہیں ۔ تلنگانہ میں نئی ریاست کی نئی حکومت بنانے کا سہرا کس پارٹی کے سر جائے گا ، اس پر تجسس بڑھتا جارہا ہے ۔ 30 اپریل کو رائے دہی کے بعد ، اوپینین پول اور رائے دہندوں کے موڈ سے اندازہ ہوگا کہ عوام نے کس کے سر سہرا باندھنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ کانگریس چونکہ نئی ریاست کے قیام کا سہرا اپنے سر لینا چاہتی ہے اس لئے اس نے اپنے موجودہ قائدین کو ہی ترجیح دی ہے ۔ صدر کانگریس سونیا گاندھی کی بھی یہی کوشش ہے کہ تلنگانہ میں ان کی پارٹی کی حکومت ہو ۔ علاقہ تلنگانہ میں وہ اپنے پارٹی قائدین کے ساتھ اعلی سطحی انتخابی مہم چلانے کی حکمت عملی بناچکی ہیں ۔ 2 جون کو منقسم ہونے والی ریاست آندھرا پردیش میں کانگریس کی قسمت کو مضبوط بنانے کے لئے یہ انتخابات ایک بہترین موقع ہے ۔ تلنگانہ میں اگر سونیا گاندھی کا طوفانی دورہ اور طوفانی انتخابی مہم ہوتی ہے تو پھر یقیناً عوام کی رائے کو بدلنے میں مدد ملے گی ۔ کانگریس کے حق میں عوام کا ووٹ پڑتا ہے تو پہلی ریاست کی پہلی حکومت کانگریس ہی بنائے گی ۔ ٹی آر ایس یا دیگر پارٹیوں کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ ان کے امکانات کم ہیں ۔ تلگودیشم نے بی جے پی سے اتحاد کیا ہے تو اسے بھی اچھے ووٹ ملنے کی پیش قیاسی ہورہی ہے مگر حکومت بنانے کا جہاں تک سوال ہے یہ فیصلہ صرف عوام کے ہاتھوں میں ہی محفوظ ہے ۔ تاہم ٹی آر ایس اور کانگریس ہی دو ایسی پارٹیاں ہیں جو تلنگانہ کے نام پر عوام سے ووٹ مانگنے کا حق رکھتی ہیں ۔ بی جے پی کو بھی ووٹ مانگنے کا حق ہے مگر اس نے تلگودیشم سے اتحاد کیا ہے تو سیما آندھرا کی پارٹی کا ساتھ دینے پر تلنگانہ کے عوام بی جے پی کو حکومت بنانے کی حد تک ووٹ دیں گے یا نہیں واضح نہیں ہے ۔کچھ پارٹیاں کھلے عام اتحاد کرچکی ہیں تو کچھ خفیہ معاہدے کرلیتے ہیں۔ بعض قائدین کا حال اس شعر کی طرح ہے ۔

ملے ہیں دشمنوں میں دوست سارے
دلوں میں کفر ہے لب پر اذاں ہے
تلنگانہ تحریک کو کامیاب بنانے والوں میں طلباء برادری کا سب سے اہم رول رہا ہے لیکن انتخابات میں تمام پارٹیوں نے خاص کر ٹی آر ایس اور کانگریس نے تلنگانہ طلباء کو ہی فراموش کردیا ہے ۔ اے آئی سی سی صدر سونیا گاندھی کے سیاسی سکریٹری احمد پٹیل نے تلنگانہ طلباء قائدین کو پارٹی ٹکٹ دینے کے معاملہ میں ریاستی پردیش کانگریس صدر پونالہ لکشمیا سے مشاورت کی تھی بعد ازاں پونالہ لکشمیا نے تلنگانہ جے اے سی قائدین کی نمائندگی پر ٹکٹ دینے کافیصلہ کیا تھا لیکن اچانک ایم کرشنا ، جی نرسیا اور ڈی مدھو ریڈی کو علی الترتیب سکندرآباد کنٹونمنٹ ، تھرو گوتھری اور نرسم پیٹ کا ٹکٹ دینے سے انکار کردیا گیا ۔ بعد ازاں ان کے علاوہ دیگر ناموں پر غور کیا جانے والا تھا بہرحال ان انتخابات میں تلنگانہ عوام کو اہم فیصلے کرنے ہیں کہ انھیں کس قسم کی قیادت چاہئے ۔ میدان میں ہر قسم کی قیادت موجود ہے ۔ ان میں آزمودہ پارٹیاں بھی ہیں اور نیم آزمودہ لیڈران بھی ہیں اور نووارد قیادت بھی منہ لٹکائے کھڑی ہے ۔ پرانے شہر سے لیکر پورے تلنگانہ میں مسلم قیادت نے اس مرتبہ زیادہ ہی توقع وابستہ کرلی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس کے ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوجائے یا اسمبلی کے کچھ حلقے ہاتھ سے نکل جائیں ۔ یہ رائے دہندوں کے ہاتھ کے کمال پر منحصر ہے ۔
kbaig92@gmail.com