امیر و غریب کے درمیان بڑھتا فرق

 

تلنگانہ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے وعدہ و اعلان کیاکہ ریاست میں غریبوں کو ڈبل بیڈ روم کے مکانات کی اسکیم جاری رہے گی۔ اجی جناب اس اسکیم کو پہلے شروع تو کیجئے بعدازاں جاری رکھنا۔ اپنی حکومت اور وزراء کی کارکردگی سے متعلق جو سروے رپورٹ آئی ہے اس کے تحت وزیر آئی ٹی کے حلقہ میں امکنہ اسکیم رینگ رہی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کے ٹی راما راؤ کا جذبہ قابل ستائش ہے کہ وہ تلنگانہ کے آخری غریب تک مکان کا سہارا لے جانے میں کامیاب کوشش کریں گے۔ کے ٹی راما راؤ کو اپنی حکومت کے مستقبل کے بارے میں کافی فکر لاحق ہوگئی ہے تو انھیں سب سے پہلے تلنگانہ میں غریب اور امیر کے درمیان جو بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے اسے دور کریں۔ تلنگانہ کے شہروں کے مقابل دیہی علاقوں میں غریب اور امیر کا فرق کم ہے کیوں کہ دیہات میں رہنے والی آبادی کا انحصار زراعت پر ہے اور زرعی شعبہ نہ صرف تلنگانہ میں بلکہ ہندوستان میں شدید بحران کا شکار ہے۔ نئی دولت شہروں میں پیدا ہورہی ہے مگر دیہاتوں میں اناج اور ترکاری پیدا نہیں ہورہی ہے۔ شہروں میں یہ اشیاء مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ شہروں میں دولت کا ارتکاز ہے اس لئے دیہی لوگ بھی شہروں کا رُخ کررہے ہیں۔ شہروں میں مزدور طبقے کی سپلائی بے انتہا ہے۔ تلنگانہ اپنے قیام کے مقصد کے حصول میں پیچھے ہوگیا ہے۔ یعنی دیہی آبادی کی غربت میں اضافہ اور شہروں میں امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق افسوسناک ہے۔ اس سچائی کے درمیان حکومت میں انھیں جگہ نہ ملنے والوں کی ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ عوام غربت کا شکار ہیں تو سیاسی قائدین عہدوں سے محرومی کے باعث ناراض ہیں۔ چیف منسٹر نے ان ناراض قائدین کو خوش کرنے کے لئے تمام اضلاع میں کارپوریشنوں اور دیگر اداروں میں صدورنشینوں کے عہدوں پر تقررات عمل میں لائیں گے۔ ان لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جنھیں گزشتہ 3 سال سے سرکاری عہدوں کے نہ ملنے کا غم تھا۔ چیف منسٹر کے ساتھ جن قائدین نے تلنگانہ کا خواب دیکھا تھا مگر ان میں سے صرف چیف منسٹر کو اس خواب کی تعبیر ملی دیگر اس خواب کی تعبیر سے محروم رہے۔ ان کے حق میں سرکاری عہدے دور دور تک نہیں تھے۔ غالباً اسی ناراضگی کو محسوس کرتے ہوئے یا سال 2019 ء کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو ناراضگیوں سے بچانے کے لئے چیف منسٹر نئے عہدے قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان سیاسی بے روزگاروں کو خوش رکھا جاسکے۔ چیف منسٹر کو اپنے سیاسی بے روزگاروں کی فکر ہے مگر ان بے روزگار نوجوانوں کی فکر نہیں ہے جنھوں نے تلنگانہ تحریک میں حصہ لیا تھا۔ تلنگانہ تحریک میں بڑے بول بولنے والوں کو اپنے حشر کا احساس نہیں ہے۔ اپنے تحریک کے ساتھیوں کو عہدوں سے محروم رکھ کر چیف منسٹر اس ریاست کے سب سے طاقتور لیڈر بن چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے اطراف ناقدین اور ناراض قائدین کا گروپ مضبوط کرلیا ہے اس لئے ان کے مخالفین ان پر اندھا دھند طور پر الزام عائد کررہے ہیں کہ چیف منسٹر خود غرضی کی آخری حدوں کو پار کرچکے ہیں اور تلنگانہ راشٹرا سمیتی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ریاست میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اسوسمنٹ ریجن ناکام ہوچکا ہے۔ سابق یو پی اے حکومت نے اس شعبہ کے لئے بھاری سرمایہ کاری کا نشانہ مقرر کیا تھا۔ کے ٹی آر نے آئی ٹی آئی آر پراجکٹ کو سبوتاج کردیا ہے۔ ان کے والد نے ریاست کی ترقی کے لئے 10 سالہ ایکشن پلان بنایا ہے۔ ریاست کی ترقی کے لئے کسی بھی حکومت کے لئے 5 سال کی کارکردگی ہی کافی ہوتی ہے مگر ان بر سوں میں ٹی آر ایس حکومت نے انتخابی وعدے پورے نہیں کئے۔ اب چیف منسٹر 10 سالہ ایکشن پلان کی بات کررہے ہیں۔ دونوں شہروں کو ترقی دینے کے لئے 30 سال کا جامع منصوبہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس طرح حکومت پر نظر رکھنے والے انسانوں کی فطرت ہی الگ ہوتی ہے۔ سو طرح سے رفوگری کرو مگر چاک داماں سے کچھ دھاگے نکل ہی آتے ہیں۔

 

چیف منسٹر اپنی حکومت کے منصوبے لاکھ اچھے بنائیں انھیں خراب قرار دینے والے کئی ہوتے ہیں۔ چیف منسٹر اپنی ریاست کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے آرہے ہیں اور اس کے ساتھ اس ریاست کو فرقہ پرستوں کے حوالے کرنے کی غلطیوں کا بھی ارتکاب کرچکے ہیں۔ تلنگانہ میں ہندوتوا طاقتوں کا اثر بڑھ چکا ہے تب ہی ریاست کے کونے کونے میں آر ایس ایس اور اس کی محاذی تنظیموں کے کارکنوں کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں۔ نظام آباد کے ایک موضع میں سرکاری کالج کے مسلم پرنسپل کی جوتے کے ساتھ پرچم کشائی کو مسئلہ بناکر پرنسپل کی توہین کرنے کا واقعہ اور اس پر حکومت کی خاموشی افسوسناک ہے۔ اے بی وی پی کے کارکنوں نے مسلم پرنسپل کو صرف ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا۔ چیف منسٹر کو آر ایس ایس یا مرکز کی بی جے پی حکومت سے قربت حاصل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کے مسلمانوں کو مختلف عنوانات سے تنگ کیا جانے لگا۔ چیف منسٹر کو اپنے آس پاس کیا ہورہا ہے اور اس کے ریاست پر کیا اثرات پڑرہے ہیں یا پڑسکتے ہیں اس کا اندازہ کرنا فکر کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ کوئی فکر نہ کریں تو پھر فرقہ پرست طاقتیں اس ریاست میں قیامت کا سا ہنگامہ برپا کریں گی۔ بی جے پی سے قربت کے بعد وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ یعنی ریاست میں فرقہ پرستوں کو قوی ہونے کا موقع مل گیا۔ یوم آزادی کے موقع پر ہر شہر اور ہر گاؤں میں اہم افراد کی جانب سے پرچم کشائی کی جاتی ہے اور جوتے یا چپل پہن کر ترنگا لہرانے یا نہ لہرانے کا کوئی تنازعہ آج تک پیدا نہیں ہوا مگر نظام آباد میں بی جے پی کی طلباء تنظیم اے بی وی پی اور آر ایس ایس کارکنوں نے پرچم کشائی کے دوران جوتا پہنے رکھنے پر اعتراض کیا گیا۔ یہ ایک بدبختانہ واقعہ ہے۔ چیف منسٹر کو اس واقعہ کے خلاف سخت قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ فرقہ پرستوں کے حوصلے بلند نہ ہوسکیں۔ توجہ کے طالب معاملات اور واقعات پر غور کرنا چیف منسٹر کے لئے ضروری ہے۔ آس پاس کیا ہورہا ہے وہ ضرور غور کریں۔ خبر لیجئے تو فرقہ پرستوں کو ان کے منصوبوں میں ناکام بنایا جاسکے گا۔ چیف منسٹر کو بی جے پی کی تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کی زمین کو مسلمانوں کے لئے تنگ کرنے کی سازش رچی گئی تو تلنگانہ راشٹرا سمیتی کا سیاسی مستقبل فرقہ پرستوں کی مسلم دشمن کارروائیوں کے باعث تاریکی کا شکار ہوسکتا ہے۔