امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

قاری محمد مبشر احمد رضوی القادری

خلیفہ رسول، ابوحفص حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت عام الفیل کے تیرہ برس بعد محرم کی چاند رات کو ہوئی۔ (مدارج النبوۃ، جلد دوم، صفحہ ۹۱۵)
آپ کا لقب فاروق ہے۔ واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک یہودی اور ایک منافق کے درمیان زمین کی سیرابی پر جھگڑا ہوا اور معاملہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش ہوا۔ آپﷺ نے واقعہ کو سماعت فرمانے کے بعد یہودی کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا۔ منافق نے وہ فیصلہ نہ مانا اور یہودی سے کہا کہ ’’چلو عمر کے پاس دوبارہ فیصلہ کرائیں‘‘۔ فریقین نے حضرت فاروق اعظم کی خدمت میں اپنا مدعا پیش کیا، جب کہ یہودی نے کہا کہ ’’آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تنازعہ کا فیصلہ پہلے ہی صادر فرمادیا ہے، لیکن اس شخص نے نہیں مانا اور مجھے آپ کے پاس لے آیا ہے‘‘۔ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ ’’اب میں ایسا فیصلہ کروں گا کہ اس شخص کو انکار کا موقع نہ ملے‘‘۔ چنانچہ آپ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور تلوار لاکر اس منافق کا سر قلم کردیا اور فرمایا کہ ’’جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہ مانے، اس کا میرے یہاں یہی انجام ہے‘‘۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ واقعہ سنا تو فرمایا کہ ’’عمر، حق و باطل میں فرق پیدا کرنے والے ’’فاروق‘‘ ہیں‘‘۔
دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ سنہ ۶ نبوی میں بعمر ۲۷سال مشرف بہ ایمان ہوئے تو مسجد حرام میں علی الاعلان نماز ادا کی گئی۔ تب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو فاروق کہا۔
خزائن العرفان میں صدر الافاضل حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو اس وقت ۳۳ مرد اور چھ عورتیں مشرف بہ اسلام ہوچکی تھیں، آپ کا نمبر چالیسواں تھا، اس لئے آپ کو ’’متمم الاربعین‘‘ کہتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہ الہی میں دست دعا دراز فرمایا اور عرض کیا: ’’اے اللہ! تو عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام کے ذریعہ اسلام کو عزت و سربلندی اور قوت و غلبہ عطا فرما‘‘۔ چنانچہ دعائے رسول بارگاہ احدیت میں قبول ہوئی اور حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ حضرت خباب رضی اللہ تعالی عنہ کے ہمراہ دار ارقم پہنچ کر کلمہ طیبہ پڑھا اور داخل اسلام ہو گئے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے کے مطابق قرآن پاک کی بہت سی آیات نازل ہوئیں۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے‘‘۔ یہ حدیث شریف اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ نبوت و رسالت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اور آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی و رسول نہیں آسکتا۔ (جامع ترمذی، جلد دوم، صفحہ۲۰۹)
حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان عمر سے ڈرتا ہے‘‘ (صواعق محرقہ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’عمر میرے ساتھ ہے اور میں عمر کے ساتھ ہوں، عمر جہاں بھی ہوں حق کے ساتھ ہیں‘‘۔ (نورالابصار۔۶۵)

عمرو بن حارث سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اچانک آپ نے خطبہ ترک کردیا اور دو تین مرتبہ بآواز بلند ’’یاساریۃ الجبل‘‘ (اے ساریہ! پہاڑ کا خیال کرو)‘‘ فرمایا۔ پھر خطبہ شروع کیا۔ بعض صحابہ کرام نے کہا کہ امیر المؤمنین کو کیا ہو گیا ہے، جو خطبہ چھورکر ’’یاساریۃ الجبل‘‘ کہہ رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ، جو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے بے تکلف تھے، فرمایا کہ ’’خلاف توقع آپ نے خطبہ کی حالت میں ’’یاساریۃ الجبل‘‘ اونچی آواز سے فرمایا، یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘ تو امیر المؤمنین نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! جب میں نے ساریہ اور اس کے لشکر کو پہاڑ کے پاس لڑتے ہوئے دیکھا کہ ان کے آگے پیچھے دشمن جمع ہو رہے ہیں تو میں نے بے اختیار کہا: اے ساریہ پہاڑ کا خیال کرو، تاکہ مسلمانوں کا لشکر پہاڑ کی طرف متوجہ ہو‘‘۔ چنانچہ چند دن کے بعد سالار لشکر اسلام حضرت ساریہ کا قاصد پیغام لے کر آیا اور بتایا کہ جمعہ کے دن دشمن کا سامنا ہوا اور لڑائی شروع ہوئی اور وقت نماز اچانک ہم نے بلند آواز ’’یاساریۃ الجبل‘‘ کی آواز تین مرتبہ سنی اور ہم پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئے۔ دشمن پر غلبہ پایا اور اللہ تعالی نے ہمارے مخالف کو شکست فاش دی۔
غور طلب بات یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے منبر پر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں اور نہاوند کے میدان میں لڑی جانے والی جنگ کا مشاہدہ بھی فرما رہے ہیں۔ لشکر اسلام کے سپہ سالار کو دشمن کے خطرے سے خبردار بھی کر رہے ہیں اور آپ کی آواز بھی وہاں سنی جا رہی ہے۔ ان تمام امور سے یہ معلوم ہوا کہ خاصان خدا سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت دس سال چھ ماہ رہا۔ آپ نے اپنے دور خلافت میں ایک ہزار چھتیس شہر، ان کے قصبات اور دیہاتوں کو فتح کیا اور چار ہزار مساجد تعمیر فرمائیں۔

تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ بیمار ہوئے تو اطباء نے صحت یابی کے لئے شہید تجویز کیا۔ بیت المال میں شہد تھا، لیکن قلب متقی مسلمانوں کی اجازت کے بغیر اس کے استعمال کے لئے راضی نہ تھا۔ چنانچہ آپ بخار کی حالت میں مسجد تشریف لائے اور مسلمانوں سے اجازت لے کر شہد کا استعمال فرمایا۔
مدینہ طیبہ میں مغیرہ بن شعبہ کا ایک مجوسی غلام تھا، جس کا نام فیروز ابو کونیت ابولولو تھی۔ اس نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے مل کر کہا کہ مغیرہ نے میرے ذمہ زیادہ خراج مقرر کیا ہے، لہذا آپ مغیرہ سے کہہ کر میرے خراج میں کمی کروادیں۔ آپ نے فیروز سے کہا کہ تم اللہ سے ڈرو اور اپنے مالک کی فرماں برداری کرو۔ اس کے بعد فیروز نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا اور دوسرے دن جب کہ آپ مسجد نبوی میں نماز فجر کی امامت کے لئے آگے بڑھ کر نماز شروع کرچکے تو ابولولو نے آپ پر خنجر سے چھ وار کئے، جس سے آپ نڈھال ہوکر زمین پر گرپڑے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ ۲۶؍ ذالحجہ ۲۳ھ کو زخمی ہوئے اور یکم محرم الحرام کو بعمر ۶۳سال آپ نے شہادت پائی۔ مزار مبارک گنبد خضراء مدینہ منورہ میں ہے۔