امیت شاہ کا خوف

کوئی گلشن میں یہ بتادے مجھے
کیوں لگی آگ آشیانے میں
امیت شاہ کا خوف
ہندوستان کے سیاسی مستقبل کیلئے اہم سمجھے جانے والے بہار اسمبلی کے انتخابات کا عمل اب اختتامی مراحل میں پہونچ چکا ہے ۔ آج چوتھے مرحلہ کی رائے دہی بھی ہوچکی ہے اور اب صرف ایک مرحلہ کی پولنگ باقی ہے ۔ بی جے پی بہار میں انتخابات میں کامیابی اور بہار میں حکومت بنانے کیلئے بے چین نظر آتی ہے ۔ اس نے بہار انتخابات میں کامیابی کیلئے سارا زور لگا دیا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ ابتدائی مراحل کی مایوس کن رپورٹ کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل بہار کے دورے کرتے ہوئے انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں۔ شائد ہی کوئی دن ایسا گذر رہا ہے جب مودی بہار نہ جا رہے ہوں اور رائے دہندوں کو لالو ۔ نتیش ۔ کانگریس اتحاد سے خبردار نہ کر رہے ہوں۔ حالات کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کے صدر امیت شاہ بھی ایسا لگتا ہے کہ بہار میں شکست کے خوف سے دوچار ہوگئے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ بوکھلاہٹ میں ایسے ریمارکس کر رہے ہیں جن کا نہ بہار کی سیاست سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہندوستان کی سیاست سے کوئی تعلق ہے ۔ جس طرح نریندر مودی وزیر اعظم رہتے ہوئے رائے دہندوں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرکے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بالواسطہ مسلمانوں کو تحفظات کے مسئلہ کو سیاسی رنگ دے رہے ہیں اسی طرح امیت شاہ نے بھی گجرات کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے بہار کے اسمبلی انتخابات میں پاکستان کو گھسیٹنے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے بی جے پی کی شکست پر پاکستان میں آتشبازی ہونے کا جو ریمارک کیا ہے در اصل وہ رائے دہندوں کو پڑوسی ملک سے خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے اور یہ کوشش حقیقت میں امیت شاہ کے خوف کا نتیجہ ہے ۔ امیت شاہ کو بہار میں تمام تر تگ و دو کے باوجود شکست یقینی نظر آرہی ہے اور لالو ۔ نتیش ۔ کانگریس اتحاد کے امکانات روشن دکھائی دے رہے ہیں ۔ اس صورتحال کو خود مودی اور امیت شاہ ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے امیت شاہ نے گجرات میں اختیار کی گئی حکمت عملی کے عین مطابق بہار میں بھی پاکستان کو گھسیٹنے کی کوشش کی ہے ۔ خود نریندر مودی ایسا لگتا ہے کہ اپنے آپ پر بہار اسمبلی انتخابات کا بھوت سوار کرچکے ہیں اور تقریبا روز ہی بہار کے دورے کرتے ہوئے انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔
ایک سیاسی جماعت کے صدر کی حیثیت سے امیت شاہ کو اپنی پارٹی کے حق میں مہم چلانے اور رائے دہندوں سے ووٹ مانگنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن ملک کے داخلی معاملات اور خاص طور پر ملک کے جمہوری عمل میں کسی پڑوسی ملک کا نام گھسیٹنا حب الوطنی کی مثال نہیں ہوسکتا ۔ ہندوستان فوجی اعتبار سے بھی ایک طاقتور ملک ہے اور کسی بھی پڑوسی ملک کو ہندوستان کی جانب بری نظر سے دیکھنے کی ہمت و جرات نہیں ہوسکتی ۔ بی جے پی کے صدر نے محض بہار میں انتخابی کامیابی حاصل کرنے اور پارٹی کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کرنے رائے دہندوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی یہ کوشش انتہائی قابل مذمت ہے ۔ ہندوستان دنیا کی بڑی جمہوریت ہے اور اس کی جمہوریت کو دنیا بھر میں منفرد مقام حاصل ہے ۔ یہاں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ترقیاتی ایجنڈہ اور منشور کی بنیاد پر رائے دہندوں سے رجوع ہوتی ہیں اور ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ کبھی کسی جماعت کے حق میں عوام ووٹ دیتے ہیں تو کبھی کسی اور جماعت کی تائید کی جاتی ہے ۔ یہی ہندوستانی جمہوریت کا امتیاز ہے ۔ تاہم اس جمہوری عمل میںکسی بیرونی ملک کا نام گھسیٹنا اور عملا ملک کے عوام کو پڑوسی ملک سے خوفزدہ کرنا انتہائی مذموم عمل ہے اور اس کی ماضی میں کہیں نظر نہیں ملتی ۔ یہ نظیر خود نریندر مودی نے قائم کی ہے ۔ جب وہ گجرات کے چیف منسٹر تھے ریاست میں ہر سطح کے انتخابات کی مہم کے دوران وہ پاکستانی حکمرانوں کے نام گھسیٹ کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے ۔
ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اور امیت شاہ نے بہار کے انتخابات کو اپنے لئے وقار کا مسئلہ بنا لیا ہے ۔ سیاسی اعتبار سے اسے وقار کا مسئلہ بنایا بھی جاسکتا ہے لیکن اس کو شخصی سطح پر لینا اور ملک کی روایات سے انحراف کرنا اور رائے دہندوں کو پڑوسی ممالک سے خوفزدہ کرنا قطعی مناسب نہیں ہے ۔ایسا کرنا در اصل ہندوستانی سیاست کے اقدار کی پامالی ہے ۔ یہ سیاست دانوں کے اوچھے ہتھکنڈے ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے یا عوام کی تائید حاصل کرنے اور انہیں رجھانے کیلئے کئی طریقے موجود ہیں لیکن محض ایک ریاست میں کامیابی حاصل کرنے کے مقصد سے ملک کی روایات سے انحراف کرنا اور جمہوری عمل کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے استحصال کرنا قابل مذمت ہے اور بی جے پی قائدین کو اس سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔