امریکی سرمایہ کار نریندر مودی کو وزیراعظم کے طور پر دیکھنے کے متمنی

امریکی سرمایہ کار نریندر مودی کو وزیراعظم کے طور پر دیکھنے کے متمنی
یوپی اے حکومت کی بدعنوانیوں اور اسکامس سے عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہہ متاثر، بی جے پی کو 202 پارلیمانی حلقوں پر کامیابی دلانے پر توجہ
حیدرآباد 19 نومبر (سیاست نیوز) سرمایہ دارانہ نظام کی جانب سے ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو اقتدار دلوانے کی کوششیں عروج پر پہونچ چکی ہیں۔ امریکی سرمایہ کار نریندر مودی کو ہندوستان کے اگلے وزیراعظم کے طور پر دیکھنے کے متمنی ہیں۔ محاورہ مشہور ہے کہ سرمایہ دار کسی کے نہیں ہوتے اُسی کے مصداق بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے یو پی اے کی جانب سے بیرونی راست سرمایہ کاری میں فراہم کردہ مراعات کو نظرانداز کرتے ہوئے اب سرمایہ دارانہ نظام نریندر مودی کو ملک کے اعلیٰ ترین عہدہ پر دیکھنے کا متمنی نظر آرہا ہے۔ سی ایل ایس اے جوکہ بیرونی سرمایہ کاری کی ایک ایسی ایجنسی ہے جو ایشیاء پسیفک ممالک میں راست سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ سی ایل ایس اے کے منیجنگ ڈائرکٹر کرسٹوفر ووڈ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کے دوران اس بات کا انکشاف کیاکہ سرمایہ کار بھارتیہ جنتا پارٹی کو 2014 ء عام انتخابات میں کامیاب اور سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ کرسٹوفر کا کہنا ہے کہ گزشتہ 9 سال کے دوران ہندوستان میں روپئے کی قدر میں آئی بتدریج گراوٹ کے علاوہ سرمایہ کاری کے رجحان میں کمی سے سرمایہ کار ہندوستان کی طرف متوجہ نہیں ہورہے تھے لیکن اب نریندر مودی کو حاصل ہورہی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے امریکی سرمایہ کار اُنھیں وزیراعظم کے طور پر دیکھنے کی خواہش پیدا کرچکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ سرمایہ کاروں کی جانب سے یہ استدلال بھی پیش کیا جارہا ہے کہ یو پی اے حکومت کے بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے واقعات کے بعد ہندوستان کی عالمی سطح پر شبیہہ متاثر ہوئی ہے۔ اِسی کے سبب سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں لیکن نریندر مودی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کئے جانے کے بعد پیدا شدہ صورتحال سے سرمایہ داروں کو توقعات وابستہ ہوئی ہیں۔ کرسٹوفر ووڈ نے اگزٹ پول اور اوپینین پول کے نتائج کو نظرانداز کرتے ہوئے کہاکہ 2014 ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار حاصل کرے گی یا نہیں اِس کا اندازہ 4 ریاستوں میں جاری اسمبلی انتخابات کے نتائج سے ہوجائے گا جن میں دہلی، راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش شامل ہیں۔ گولڈمین ساچس گروپ جوکہ ایک امریکی کمپنی ہے اور سرمایہ کاروں کو مختلف شعبہ حیات میں سرمایہ کے لئے راغب کرواتی ہے، اِس کمپنی کے ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری پر چھائے بادل آئندہ 6 ماہ کے لئے ہی رہیں گے جبکہ اقتدار میں تبدیلی کے ذریعہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کے مواقعوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اُنھوں نے بتایا کہ ہندوستانی معیشت کے کمزور ہونے کی بنیادی وجہ بین نظریاتی شخصیت کا اقتدار میں ہونا ہے جبکہ ایک نظریہ رکھنے والے کو اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں معیشت کے استحکام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ سرمایہ کاروں کے نظریہ کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں انتخابات پر سرمایہ دارانہ نظام کا کنٹرول کھل کر سامنے آئے گا اور سرمایہ دار اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو کامیاب بنانے کی باضابطہ مہم چلائیں گے تاکہ نہ صرف اُن کے مفادات کا تحفظ یقینی ہو بلکہ اُن کی اپنی کمپنیوں کو فروغ حاصل ہوسکے۔ ایگزیکٹیو ڈائرکٹر سی ایل ایس اے مہیش نندورکر نے بتایا کہ عالمی سرمایہ داروں کی جانب سے ہندوستانی سیاست میں دکھائی جانے والی دلچسپی کے سبب اس صورتحال کا سی ایل ایس اے جائزہ لینے کے بعد اِس نتیجہ پر پہونچی ہے کہ کانگریس سرمایہ کاروں کا اعتماد کھوچکی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عوام میں کانگریس کی مقبولیت بتدریج گھٹتی جارہی ہے۔ مسٹر آنند شرما نے بھی اِسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ اُنھوں نے بتایا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار نریندر مودی کے انداز خطابت اور مہم سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ملک کے مستقبل کی باگ ڈور اُن کے ہاتھ میں ہوسکتی ہے۔ اِسی طرح راجیو ملک ماہر معاشیات نے بھی نریندر مودی کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ شہری رائے دہندوں سے زیادہ اہمیت دیہی رائے دہندوں کو حاصل ہوتی ہے اور دیہی رائے دہندے کانگریس کی جانب سے نظرانداز کئے جانے سے کانگریس کو ناپسند کرنے لگے ہیں۔ جبکہ گزشتہ 10 سال کے دوران ہندوستان کی معیشت میں 5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جوکہ انتہائی کمزور معیشت کی علامت ہے۔ امریکی کمپنیوں اور سرمایہ دارانہ نظام کی جانب سے نریندر مودی یا بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فرقہ پرست ذہنیت کے حامل سیاسی جماعتوں و قائدین کو کون مستحکم بنارہا ہے اور اُن کے مقاصد کیا ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی جانب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو 202 پارلیمنٹ کی نشستوں پر کامیاب بنانے کی حکمت عملی کی تیاری میں مصروف دیکھا جارہا ہے۔ جبکہ مختلف ممالک کے سفارتی عہدیدار بالخصوص معاشی و سیاسی قونصل کی جانب سے ملک کے بدلتے سیاسی منظر نامہ پر خصوصی نظر رکھی جارہی ہے۔ ہندوستانی سیاست میں بیرونی ممالک کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاروں کی دلچسپی سے اِس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کا مستقبل تابناک ہے بشرطیکہ ملک کی باگ ڈور محفوظ ہاتھوں میں ہو اور بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کے خاتمہ کو یقینی بنایا جائے۔