امریکہ ۔ چین تجارتی جنگ ایشیائی ممالک کیلئے تباہ کن

امجد خان
امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ ایسا لگتا ہے کہ ایشیائی ممالک کو سب سے زیادہ متاثر کرے گی۔ امریکہ نہ صرف چین بلکہ ہندوستان پر بھی اس کے مخالف تجارتی پالیسیاں اختیار کرنے کا الزام عائد کررہا ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دنیا کی تیزی سے ابھرتی معیشت چین پر غیر منصفانہ تجارتی پالیسیاں اپنانے کا الزام عائد کیا ساتھ ہی انہوں نے چین سے ہونے والی 450 ارب ڈالرس مالیاتی برآمدات پر نئے محاصل عائد کرنے کی دھمکیاں بھی دی ہیں جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اگرچہ ٹرمپ نے چین کو نئے محاصل عائد کرنے کی دھمکیاں دی ہیں لیکن چین نے بھی جوابی کارروائی کا عہد کررکھا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان ’’اینٹ کا جواب پتھر سے‘‘ کے طریقے کو اپنائے جانے سے صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ یہ برآمداتی پاور ہاوس جیسے تائیوان، جنوبی کوریا اور ملائیشیا کے لئے بری خبر ہے۔ یہ ممالک دراصل اپنی اشیا چین کو فروخت کرتے ہیں اور چین ان ملکوں سے خریدے گئے خام مال سے تیار کردہ اشیا امریکہ کو برآمد کرتا ہے۔ ان اشیا میں آٹو موبائیل سے لے کر کنزیومر الیکٹرانکس تک شامل ہیں۔ کنسلٹنٹ بین اینڈ کمپنی شنگھائی کے شراکت دار ریمنڈ سانگ اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں ’’یہ ایسی صنعتیں ہیں جنہیں ٹکنالیوجیز کی ضرورت ہے اور یہ ٹکنالوجیز مختلف سمتوں سے آتی ہے جبکہ سپلائی چین بہت ہی پیچیدہ ہے‘‘۔ ریٹنگ ایجنسی فچ میں ایشیا بحرالکاہل قرض یونٹ کے سربراہ اسٹیفن شوارٹز کا کہنا ہے کہ ایشیا ایک برآمدات پر انحصار کرنے والا علاقہ ہے اور کئی معیشتیں نمو یا ترقی کا انجن ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تجارتی جنگ کے خدشات پائے جاتے ہیں اگر یہ خدشات شدت اختیار کرلیں تو علاقہ پر مادی اثر مرتب ہوگا۔ اس درمیان اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ سے تائیوان کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹکنالوجی کے پرزے جیسے کمپیوٹر چپس ان اشیا میں شامل ہے جو تجارتی جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس کے نتیجہ میں اس جزیرہ نما ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پنہچ جائے گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تائیوان چین کو پرزے سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ تائیوان سے آنے والے پرزوں کو اسمارٹ فونس اور دوسرے الیکٹرانک آلات بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ان اشیا میں سے کئی اشیا کو فروخت کے لئے امریکہ بھیج دیا جاتا ہے۔ بحیثیت مجموعی ان برآمدات میں تائیوان کی قومی مجموعی پیداوار کا تقریباً 2 فیصد حصہ ہوتا ہے۔ یہ بات تحقیقی فرم کیاپٹل اکنامکس نے اپنی ایک رپورٹ میں بتائی۔ ایشیا کے ایک سینئر ماہر اقتصادیات گیارتھ لیڈر کے مطابق تجارتی جنگ میں تائیوان کو سب سے زیادہ نقصان ہوگا کیونکہ چینی ساختہ اسمارٹ فونس کی طلب میں کمی آئے گی تو تائیوانی پرزوں کی طلب میں بھی گراوٹ آئے گی۔ تائیوان کی ایک سرفہرست کمپنی فاکس کان کا شمار دنیا کی چنندہ ٹکنالوجی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ فاکس کان ایپل (AAPL) کی بڑی سپلائر کمپنی ہے۔ گزشتہ ہفتہ اس کمپنی کے عہدہ داروں نے انتباہ دیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ سے اسے ایک بڑے چیالنج کا سامنا ہے۔ مین لینڈ چین میں فاکس کان کی تجارتی سرگرمیاں بہت زیادہ ہیں۔ امریکہ ۔ چین تجارتی جنگ میں صرف اسی کمپنی کے متاثر ہونے کے امکانات نہیں ہیں بلکہ انوسٹمنٹ بینک ANZ کے تجزیہ نگاروں کو توقع ہے کہ سیمی کنڈکٹرس اور ٹکنالوجی کی دیگر اشیا کی تائیوانی برآمدات میں آنے والے مہینوں میں کمی آئے گی جو تجارتی کشیدگی میں اضافے سے مربوط ہوگی۔ دوسری جانب جنوبی کوریا کے بھی اس جنگ سے متاثر ہونے کے خدشات پائے جاتے ہیں۔ جنوبی کوریا کے لئے چین اور امریکہ دو بڑے برآمداتی بازار ہیں۔ وہ ٹکنالوجی کے پرزے چائنا کو فروخت کرتا ہے اور چین ان پرزوں سے الیکٹرانکس تیار کرکے امریکہ روانہ کردیتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی کوریا میں کمپیوٹر چپس بنانے والی دو بڑی کمپنیوں سامسنگ الیکٹرانکس اور ایس کے ہائنکس کے حصص یا شیرس میں زبردست گراوٹ آئی ہے۔ امریکہ ۔ چین تجارتی جنگ سے صرف تائیوان یا جنوبی کوریا ہی متاثر نہیں ہوں بلکہ ملائیشیا اور سنگاپور بھی متاثر ہوں گے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق دونوں ممالک چین کو الیکٹرانک پرزے اور دیگر اشیا برآمد کرنے والے اہم ممالک میں شامل ہیں۔ ان کے پرزوں سے تیار کردہ اشیا چین امریکہ بھیجتا ہے۔ جہاں تک ایشیائی ممالک کے متاثر ہونے کا سوال ہے یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ایشیائی معیشتوں کو ہونے والے نقصان کی سطح کیا ہوگی۔ امریکہ نے تاحال 50 ارب مالیاتی چینی برآمدات پر 25 فیصد محاصل عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر 6 جولائی سے عمل درآمد ہوگا۔ یہ دراصل تجارتی جنگ کا پہلا مرحلہ ہے لیکن عالمی تجارتی تحقیقی فرم پنجیوا کے ایک تجزیہ نگار کرسٹوفور روجرس کا کہنا ہیکہ امریکہ اور چین کے تجارتی جنگ کے محدود اور قلیل مدتی اثرات مرتب ہوں گے لیکن بین کے سانگ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ علاقہ بھر میں تجارت پر اس جنگ کے اثرات لازم مرتب ہوں گے۔ خاص طور پر آٹو موبائیل، مینوفیکچرنگ اور پرسونل الیکٹرانکس سپائی چینس کے منافع میں غیر معمولی رکاوٹ آئے گی۔ اسی دوران تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایشیا میں کام کررہی بعض کمپنیاں علاقہ کے دوسرے حصوں میں منتقل ہونے پر غور کررہی ہیں جیسے تھائی لینڈ اور ویٹنام وغیرہ میں تاکہ چین پر عائد ہونے والے محاصل کے اثرات سے خود کو بچایا جاسکے یا اس کے بالراست اثر کو کم کیا جاسکے ۔