’’امریکہ ہم سب کا ہے، مذہبی عقیدہ اور حب الوطنی کو خلط ملط نہ کیا جائے‘‘

ہندوستانی نژاد امریکی کانگریس مین راجہ کرشنا مورتی کی ہندو، مسلم، سکھ اور جین مذاہب کے قائدین سے ملاقات

واشنگٹن 27 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستانی نژاد امریکی کانگریس مین راجہ کرشنا مورتی نے آج ہندو، مسلم، سکھ اورجین مذاہب سے تعلق رکھنے والے قائدین سے ملاقات کی اور ملک میں بڑھتے ہوئے نفرت انگیز جرائم کے موضوع پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ خصوصی طور پر اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کو جس طرح امریکہ میں نشانہ بنایا جارہا ہے وہ یقینا تشویشناک ہے۔ اس تبادلہ خیال میں خصوصی موضوع کے علاوہ سی این این کے پروگرام بیلیورس کے ذریعہ ہندوازم کو غلط طریقہ سے پیش کئے جانے پر اعتراضات بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں امیگریشن معاملہ بھی زیربحث آیا جبکہ اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کو ایجنڈہ میں سرفہرست رکھا گیا تھا۔ میڈیا کے مطابق اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں نے اس موقع پر نفرت اور حملہ کئے جانے کے اپنے شخصی تجربات بھی بیان کئے اور بتایا کہ حالات اتنے خراب ہیں کہ انہیں گھر سے نکلنے میں خوف محسوس ہو رہا ہے۔ دریں اثنا 43 سالہ راجہ کرشنا مورتی نے کہا کہ ہندو اور مسلمانوں نے خصوصی طور پر انہیں ان واقعات سے واقف کروایا جہاں انکے ساتھ تلخ کلامی کی گئی تھی۔ لہٰذا ان تمام واقعات کا سخت نوٹ لینے کی ضرورت ہے اور اس موضوع پر گروپ کی شکل میں بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقلیتی فرقہ خود کو محفوظ تصور کرے۔ بہرحال، اس مسئلہ کو راتوں رات حل نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ راجہ کرشنا مورتی نے باپس مندر کا بھی دورہ کیا جہاں انہیں کانگریس کیلئے منتخب ہونے پر تہنیت پیش کی گئی تھی۔ انہوں نے ہندو قائدین سے ملاقات کرکے انہیں درپیش اندیشوں پر تبادلہ خیال کیا۔ علاوہ ازیں وہ مسلم امریکی شہریوں سے بھی ملاقاتیں کررہے ہیں اور حال ہی میں ولا پارک میں واقع اسلامک فاونڈیشن کا دورہ کرکے مسلمانوں سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے ان ملاقاتوں کے بعد مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج ہمیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے اس پر بات چیت کیلئے میں اپنی کمیونٹی کے ارکان سے ملاقات کرکے بیحد مطمئن ہوں۔ کانگریس میں رہتے ہوئے میں روزانہ اپنی کمیونٹی کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتا ہوں جن میں امیگریشن اور مذہبی آزادی بھی شامل ہے۔ ماہ فبروری میں کنساس میں دو ہندوستانی شہریوں کی ہلاکت کے بعد کرشنا مورتی نے اٹارنی جنرل جیف سشینز سے بھی ملاقات کی تھی اور اپیل کی تھی کہ موصوف نفرت انگیز جرائم کی بیخ کنی کیلئے اپنے اختیارات کا استعمال کریں جبکہ کچھ روز قبل انہوں نے ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکوریٹی کے سکریٹری جان کیلی کو مکتوب تحریر کرکے خواہش کی تھی کہ وہ اپنے ڈپارٹمنٹ کے تمام وسائل کا استعمال کرکے امریکہ میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم کا سدباب کریں۔ میں نے جن اقلیتوں سے ملاقات کی تو مجھے یہ انکشاف ہوا کہ وہ تمام انتہائی حب الوطن اور امریکہ کیلئے جان دینے کو بھی تیار ہیں لیکن ساتھ ہی ان کی مذہبی ذمہ داریاں بھی ہیں جن کی تکمیل اور تعمیل ان پر واجب ہے۔ اگر کوئی اپنے مذہب پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے وطن سے محبت نہیں کرتا۔ یہ بات نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک کیلئے کہی جاسکتی ہے۔ ہمارے ملک کی ایک خوبی یہ ہیکہ وہ کسی بھی شہری کو اس کے پسند کا مذہب ترک کردینے کی تلقین نہیں کرتا بلکہ امریکی ثقافت میں اس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ لہٰذا امریکہ ہم سب کا ہے اور ایسی نفرت انگیز طاقتوں کے خلاف ہم متحد ہوجائیں گے جس نے آج دنیا میں امریکہ کو شرمسار کیا ہے۔