امریکہ ‘دنیا میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کا محرک

٭    نوجوان ’ کینڈی کرش کھیلنے میں اور جنہیں حکمران ’ ڈیموکریسی کرش ‘ میں مصرف
٭    کسی کی نظر پوکے مین گیم پر ملک کے عوام ’ پھیکو مین ‘ پر مرکوز : کنہیا کمار کا خطاب

حیدرآباد۔ 31 جولائی (سیاست نیوز) دنیا بھر میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف چلائی جانے والی نفرت انگیز مہم کا اصل محرک امریکہ ہے جسے سوویت یونین کی تقسیم کے بعد ایک فرضی دشمن کی تلاش تھی۔ امریکہ نے دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کا ماحول پیدا کرنے عراق، شام ، لیبیا اور افغانستان کے علاوہ دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنے کارندوں کے ذریعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس کو عملی شکل دی ۔ اس منصوبہ کا شکار خود ہندوستان بھی بن چکا ہے۔ جارج بش نے جو نظریہ پیش کیا تھا اس کو ہندوستان نے بھی بالواسطہ طور پر قبول کرکے مسلمانوں کو مخالف تصور کرنا شروع کردیا ہے۔ جے این یو طلبا تنظیم کے صدر کنہیا کمار نے آج عظمت رفتہ برائے قومی یکجہتی اور جمہوریت سے خطاب کے دوران یہ بات کہی۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے ذریعہ نفرت کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے۔ اپنی بات کی دلیل میں کنہیا نے جیمس بانڈ کی فلموں کا حوالہ دیا اور کہا کہ سوویت یونین کی تقسیم سے قبل جیمس بانڈ کی فلموں میں منفی کردار روسی عوام کا دکھایا جاتا رہا ہے اور اب روسی کردار کی جگہ مسلمانوں کی شبیہ کو بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس پروپگنڈہ کا شکار نہ ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے کنہیا نے کہا کہ ہندوستان درحقیقت ’کثرت میں وحدت‘ والی مملکت ہے اور متحد رہنے میں ہماری بھلائی ہے۔ کنہیا نے ملک کے نوجوانوں پر بالواسطہ طنز کرتے ہوئے کہا کہ جنہیں انقلاب لانا چاہئے، وہ ’’کینڈی کرش‘‘ میں مصروف ہیں اور جنہیں حکومت چلانا ہے وہ ’ڈیموکریسی کرش‘ میں مصروف نظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ ملک کی تقدیر ہیں وہ ’پوکے مین‘ دیکھ رہے ہیں اور ملک کے عوام حسرت بھری نگاہوں سے ’’پھیکو مین‘‘ پر نظریں جمائے ہیں۔ جے این یو طلبا قائد نے کہا کہ جو لوگ مودی کو شخصیت تصور کررہے ہیں، وہ غلطی پر ہیں کیونکہ مودی ایک شخص نہیں بلکہ نظریہ کا نہیں جس کے پیچھے آر ایس ایس کے نظریات رکھنے والے سرکردہ ذہن ماحول سازی کا کام کررہے ہیں۔ کنہیا نے ان حالات میں ملک کی فرقہ وارانہ یکجہتی اور امن و امان کی برقراری کے ساتھ جمہوریت کے تحفظ کیلئے اقدامات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک ہندوستانی نوجوان متحدہ طور پر نفرت کا پرچار کرنے والوں کے خلاف جدوجہد نہیں کرتا، اس وقت تک اس نظریہ سے نجات حاصل کرنا انتہائی دشوار کن ہے۔      ( متعلقہ خبر صفحہ 2 پر )