الیکشن کے سال میں ایک بڑا سوال

پی چدمبرم
اعداد و شمار ایک سے دوسرے مہینے تک بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ماہرین معاشیات اور تجزیہ نگار کسی نتیجہ پر پہونچنے سے پہلے تین ماہ یا پھر چھ ماہ کے رجحانات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ایک اوسط مدت تک ڈاٹا کا جائزہ لینے کے بعد ایسا لگنے لگا ہے کہ ہندوستانی معیشت کی میکرو معاشی استحکام کی بنیادیں کمزور ہونے لگی ہیں۔ یہ رجحان اب بھی بدلا جاسکتا ہے اور ایک فکرمند شہری کے طور پر مجھے امید ہے کہ ایسا ہوگا ۔
پہلے تو ہمیں ان عوامل کا جائزہ لینا چاہئے جن کی وجہ سے بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔ پہلی وجہ خام تیل کی قیمتیں ہیں۔ اس بات میںکوئی شک نہیں ہے کہ ابتدائی برسوں میں حکومت نے تیل کی قیمتوں سے کافی فائدہ حاصل کیا ہے ۔ جون 2014 میںجب این ڈی اے حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا ہندوستان میں تیل ضروریات کے مطابق قیمت 109 ڈالرس فی بیاریل تھی ۔ جولائی کے بعد سے تیل کی قیمتوں میں کمی آنے لگی ۔ یہ قیمتیں جنوری 2015 میں 46.6 ڈالرس فی بیاریل تک گر گئیں۔ جنوری 2015 سے اکٹوبر 2017 تک ( درمیان میں مئی اور جون 2015 کو چھوڑ کر ) تیل کی قیمتیں فی بیاریل 60 ڈالرس سے اوپر نہیں گئیں۔ یہ انتہائی ناقابل یقین کم قیمتیں تھیں۔ صرف اسی عنصر سے میکرو معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں کافی مدد ملی تھی ۔ اگر اس وقت پٹرول ‘ ڈیزل اور پکوان گیس کی قیمتوں کو خام تیل کی قیمتوں کی اساس پر کم کیا جاتا تو صارفین کو اس سے کافی فائدہ ہوتا ۔ حکومت نے اس وقت ایسا کچھ نہیں کیا اور اس نے پٹرولیم اشیا پر ٹیکسیس میںاضافہ کردیا جس سے عام عوام اور تاجروں کو کم قیمتوں کے فائدہ سے محروم کردیا گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کے مالیہ کا صرف تیل پر انحصار ہوگیا ۔ حکومت اب اپنے مالیہ میں کسی طرح کی کٹوتی کرنے کو تیار نہیں ہے اور عوام میں پٹرول ‘ ڈیزل اور پکوان گیس کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ کے نتیجہ میں برہمی پیدا ہوتی جار ہی ہے ۔

خام تیل کی قیمتوں سے مشکلات
میرے اندازہ کے مطابق ( انڈین ایکسپریس 14 جنوری 2016 ) ڈسمبر 2014 سے نومبر 2015 تک جملہ 1,40,000 کروڑ ڑوپئے اخراجات کی بچت اور اضافی مالیہ کی شکل میں موصول ہوئے ہیں۔ اس کے بعد کے دو سالوں یعنی 2016 اور 2017 میں بھی اتنی ہی بچت ہوپاتی ۔ اس کے باوجود حکومت اقتصادی استحکام کی راہ پر آگے نہیں بڑھ سکی ۔ این ڈی اے حکومت کے چار سال میں اقتصادی خسارہ 4.1 , 3.9 , 3.5 اور 3.5 فیصد کا رہا ہے اور سال 2018 – 19 کیلئے 3.3 فیصد کا امکان ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ 3.3 فیصد کا جو اندازہ ہے وہ اس قیاس پر مبنی ہے کہ تیل کی قیمتیں 70 ڈالرس فی بیاریل سے کم ہی رہیں گی ۔ ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا اور جو اوسط قیمت ہے وہ 80 ڈالرس فی بیاریل کے قریب ہے ۔ ایسے میں سب سے زیادہ متاثر اقتصادی خسارہ ہی ہوگا ۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر ماہ ایکسپورٹس کی شرح امپورٹس سے کم ہوتی جا رہی ہے ۔ اس سے تجارتی شعبہ میں خسارہ ہوتا جا رہا ہے لیکن یہ غیر معمولی نہیں ہے ۔ تاہم ایکسپورٹس کی شرح ترقی ‘ امپورٹس کی شرح ترقی سے پیچھے ہی ہے اور اس کا علاج ہوسکتا تھا ۔ اس کا تدارک کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا اور تجارتی ایکسپورٹس چار سال تک 310 بلین ڈالرس سے کم ہی رہے ہیں۔ اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا گیا اور سال 2017 – 18 میں 1.87 فیصد سے یہ 2018 -19 میں 2.5 – 3 فیصد ہوجائیگا ۔ یہ دوسرا قابل فکر نکتہ ہے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اب ابھرتی ہوئی مارکٹیں ختم ہو رہی ہیں اور عالمی سرمایہ کار اپنی ترجیحات میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ چونکہ امریکہ میں شرح سود بڑھ رہا ہے ایسے میںفارن پورٹ فولیو سرمایہ کار فروخت پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہندوستان سے نقدی باہر جا رہی ہے ۔ جاریہ سال آج کی تاریخ تک جو نقدی باہر گئی ہے وہ 47,891 کروڑ کی تھی جن میں حصص ‘ قرضہ جات وغیرہ بھی شامل تھے ۔ حالانکہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن امکان یہی ہے کہ سال 2018 – 19 میں2008 – 09 کے بعد سے ہندوستان سے سب سے زیادہ نقدی بیرون ملک جائیگی ۔

روپئے کی گراوٹ ‘ نقصان میں اضافہ
چوتھی بات یہ ہے کہ درج بالا وجوہات کی بناء پر روپیہ کمزور ہوتا جا رہا ہے ۔ ڈالر کے مقابلہ میں سال 2018 میں روپئے کی قدر میں 12.65 فیصد کی گراوٹ آئی ہے ۔ چار دن قبل حکومت نے ایک بیان دیا کہ حکومت اور ریزرو بینک کی جانب سے اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے کہ روپئے کی قدر غیر واجبی سطح تک نہ گرجائے ۔ اس طرح کے تیقنات ایسا لگتا ہے کہ سرمایہ کاروں اور تجزیہ نگاروں پر کوئی اثر نہیںڈال سکے ہیں کیونکہ یہ لوگ فکسڈ ڈپازٹس ‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ‘ بانڈ کی قیمتوں ‘ سرمایہ کاری پر منافع وغیرہ پر توجہ مرکوز رکھتے ہیںنہ کہ حکومت کے الفاظ پر ۔ یہ کہنے کی بجائے کہ ہر ممکن کوشش کی جائیگی ریزرو بینک ایک ہی کام کرسکتا ہے کہ ڈالرس کو فروخت کرے ۔ تاہم ایسا کرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔
آخری بات یہ کہ گذشتہ ایک سال میں حکومت کے 10 سال کے بانڈز میں نقصان 1.5 فیصد تک بڑھا ہے ۔ جیسا کہ میں نے تحریر کیا ہے کہ یہ نقصان 8.13 فیصد ہوگیا ہے ۔ اس شرح کے اعتبار سے یہ سمجھا جارہا ہے کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنا خطرہ ہے ۔ روپئے کی قدر میں گراوٹ کے ساتھ یہ جو شرح ہے اس سے خیال آتا ہے کہ مارکٹیں ملک میں میکرو معاشی استحکام کے تعلق سے فکرمند ہیں۔

توجہ نہیں بٹنا چاہئے
آخری بات ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے اپنی مالیاتی پالیسی کے بیان میں کہی جاسکتی ہے جو اکٹوبر میںدیا جانا ہے ۔ اگر ریزرو بینک کی جانب سے ریپو شرح میں ایک بار پھر اضافہ کیا جاتا ہے اور ریزرو بینک کے موقف میں تبدیلی آتی ہے تو یہ بھی اسی وجہ سے ہوگا کہ ریزرو بینک بھی میکرو معاشی استحکام کے تعلق سے فکرمند ہی ہے ۔
مذکورہ بالا تمام باتیں نئی نہیں ہیں۔ ہم کو اسی طرح کی صورتحال کا 1997 , 2008 اور 2013 میں سامنا کرنا پڑا ہے تاہم اس کی وجوہات مختلف تھیں۔ اس طرح کی صورتحال میںاگر سنسیکس میںکسی ایکدن اضافہ ہوتا ہے ‘ بانڈ کے نقصانات میں کمی آتی ہے یا پھر آئی آئی پی بہتر ہوتا ہے یا پھر سی پی آئی میں معمولی گراوٹ آتی ہے تو ہمیں خوش نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ اعداد و شمار کا الٹ پھیر ہوگا جو میںنے ابتداء میں بتادیا ہے ۔ اس کی بجائے حکومت کو سرمایہ کاری کو مستحکم کرنے پر توجہ دیناچاہئے ۔ بینک کریڈٹ ( خاص طور پر صنعتوں کو ) میں اضافہ کرنا چاہئے اور اخراجات پر سخت کنٹرول رکھنا چاہئے ۔ کیا یہ بڑا سوال ہے ؟ ۔
pchidambaram.india@gmail.com