اللہ میگھ دے

میرا کالم            سید امتیاز الدین
ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا کالم بہت کم لوگ پڑھتے ہیں یا اگر پڑھتے بھی ہیں تو اُس کے بارے میں کچھ کہنا  ضروری نہیں سمجھتے۔ لے دے کے دوچار احباب ہیں جو بربنائے دوستی کبھی تحسین کے دو چار جملے کہہ دیتے ہیں۔ آج سے دو ہفتے قبل ہمارا ایک کالم چھپا تھا ۔ اُسی دن دوچار ٹیلی فون آئے کہ آپ نے گرمی کی گرما گرمی کے عنوان سے گرمی کی شدت کا تذکرہ چھیڑدیا ہے ۔ گرمی تو ہر سال آتی ہے اور شدید رہتی ہے لیکن اس سال پانی کا جو بحران ہے اُس کا ذکر آپ نے محض ضمناً کیا ہے ۔ ایک صاحب تو فون پر ہانپ رہے تھے اور غصے میں بھی معلوم ہورہے تھے ۔ انہوں نے بتایا کہ تین دن سے اُن کے نل سے پانی کی ایک بوند بھی نہیں ٹپکی اور آنکھوں سے آنسو ٹپکنے کا وقت ہے ۔ اس لئے ہم کو فوراً پانی کی قلت پرکالم لکھنا چاہئے ۔ ہم نے اُن سے کہا ’’قبلہ جب ہمارے کالم کے باوجود گرمی دور نہیں ہوئی تو اب پانی پر خامہ فرسائی کرنے سے پانی کی قلت کیا دور ہوگی ۔ بہرحال یہ بات تو طئے ہے کہ موسم گرما تو ہر سال آتا ہے لیکن پانی کی پریشانی اس سال کچھ زیادہ ہی ہے۔
حیدرآباد میں پانی کی ایسی قلت کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ایک زمانہ تھا جب ہر گھر میں نل نہیں تھے تو بعض لوگوں کا پیشہ ہی یہ تھا کہ معمولی سی اُجرت پر چمڑے کے مشکیزوں میں گھر گھر پانی پہنچاتے تھے ۔ یہ لوگ بہشتی کہلاتے تھے ۔ پتہ نہیں یہ نام کیسے پڑا کیونکہ اس نام کے ساتھ ہی جنتی لوگوں کا تصور ابھرتا ہے جبکہ پانی خریدنے والے بہشتیوں کی ڈانٹ ڈپٹ بہت کرتے تھے کہ میاں تمہارے مشکیزے میں اتنے سواخ ہیں کہ آدھا پانی راستے میں بہہ جاتا ہے ۔ پھر جب ہر گھر میں نل لگ گئے تو پانی اس زورو شور سے آتا تھا کہ نل کھلنے سے پانچ منٹ پہلے زبردست آواز آنے لگتی تھی اور لوگ خبردار ہوجاتے تھے۔

حیدرآباد میں پانی کی ایسی قلت بالکل نئی چیز ہے ۔ آج تو موسیٰ ندی بالکل لیٹی ہوئی ہے اور مچھروں کی افز ائش کا کام بھی ایک زمانے سے ٹھپ پڑا ہوا ہے لیکن ایک زمانے میں سال میں کم سے کم دو مرتبہ اُس میں پانی چھوڑا جاتا تھا ۔ دھوبیوں کو اور اطراف و اکناف کے رہنے والوں کو پہلے سے خبردار کیا جاتا تھا ۔ پانی کا منظر اتنا خوفناک ہوتا تھا کہ موسیٰ ندی کے پلوں پرکھڑے ہوکر تماشہ دیکھنے والے کبھی غش کھاکر گر بھی جاتے تھے ۔ 1908 ء میں موسیٰ ندی میں طغیانی آئی تھی جو ا یک تا ریخی واقعہ بن گئی تھی ۔ لوگ اپنی زندگی کے اہم واقعات اس سانحے سے جوڑکر سناتے تھے ۔ کسی نے بتایا تھا کہ ایک دعوت میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے بیرسٹر اکبر علی خاں صاحب سے اُن کی عمر پوچھی تھی تو بیرسٹر صاحب نے جواب دیا کہ جب طغیانی آئی تھی تو میں چار سال کا تھا۔ نہروجی بہت اچھی اردو جانتے تھے لیکن شاید طغیانی اُن کیلئے نیا لفظ تھا۔ انہوں نے پوچھا ’’یہ طغیانی کیا بلا ہے‘‘۔ تب بیرسٹر ا کبر علی خاں صاحب نے اُن کو 1908 ء کا وہ تاریخی واقعہ سنایا اور بتایا کہ ا کثر قدیم حیدر آبادی اپنی کئی یادیں اس تاریخی واقعہ کے حوالے سے بیان کرتے تھے ۔ خود مشہور صوفی شاعر حضرت امجد حیدرآبادی کے کئی افرادِ خاندان اس طغیانی میں بہہ گئے تھے ۔ بعد میں عثمان ساگر اور حمایت ساگر بنے اور آبرسانی کا بہترین انتظام ہوا جو آج تک کام دے رہا ہے ۔

دراصل ہمارے ملک اور دوسرے ملکوں میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بارش کا ایک مستقل موسم ہوتا ہے جو جون کے مہینے سے شروع ہوتا ہے اور ستمبر کے مہینے تک چلتا ہے ۔ دوسرے ملکوں میں کبھی بھی بارش ہوجاتی ہے ، اس لئے دوسرے ملکوں کے لوگ سال بھر چھتری ساتھ رکھتے ہیں ۔ ہماری برسات بھی ایک مستقل موسم ہونے کے باوجود آزاد اور خود مختار نہیں۔ اس کے لئے مانسون کی ہواؤں اور بادلوں کی ضرورت ہے ۔ مانسون کے بادل بے چارے بھی آزاد اور خود مختار نہیں۔ ان کو بحیرۂ عرب اور خلیج بنگال کے موڈ پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم کو تو کبھی کبھی مانسون کسی سرکاری دفتر کی فائل لگتی ہے جوایک میز سے دوسری میز تک خراماں خراماں چلتی ہے اور اگر کسی میز پر اٹک جائے تو اٹک کر رہ جاتی ہے بلکہ اکثر و بیشر گم بھی ہوجاتی ہے اور اگلے سال تک نظر نہیں آتی۔ پچھلے دو تین سال سے یہی ہورہا ہے اور ہم خشک سالی کا شکار ہیں۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا ۔ ہم کو کیرالا والوں سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی تھی کہ حضور اگر عزیزی میاں مانسون آپ کے ساحل سے ٹکرا چکے ہیں تو اُن کو مزید ٹکرانے کی ضرورت نہیں ۔ سیدھے حیدرآباد بھیج دیجئے ۔ چنانچہ مانسون حیدرآباد سات جون کو ہمارے شہر بلکہ ہماری ریاست میں ہوتا۔ اُس دن کو  مِرگ (مَرگ نہیں) کا دن کہتے ۔ پتہ نہیں مِرگ کے دن کو مچھلی سے کیا تعلق خاطر رہا ہے کیونکہ عین اُسی دن دمہ کے مریض چھوٹی سی زندہ مچھلی کسی نامعلوم دوا کے ساتھ کھاتے اور جن کو دمہ نہیں ہے وہ خاص طور پر مچھلی مارکٹ جاتے ، لمبی قطار میں کھڑے ہوتے ، منہ مانگے دام دے کر مچھلی گھر لاتے۔ سالن پکواتے اور جی بھر کر کھاتے ۔ پچھلے دو تین سال کے موسم ایسا ہوگیا ہے کہ یہ چاو چونچلے تقریباً بند ہیں اور مچھلی کے شوقین فیض کا یہ شعر پڑھ کر چپ ہوجاتے ہیں۔
نہ گُل کھلے ہیں نہ اُن سے ملے نہ مئے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
ہمارے ایک دوست اکثر سائنسی نوعیت کی کتابوں کے مطالعے میں غرق رہتے ہیں اور عجیب عجیب ڈراونی باتیں کرتے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ اور موسمی تغیرات کی وجہ سے آنے والی صدیوں میں ناقابل یقین باتیں دیکھنے میں آئیں گی۔ جہاں اب ریگستان ہیں وہاں خوب برسات ہوگی اور جہاں اب تک بارش ہوئی تھی وہاں ریگستان وجود میں آجائے گا ۔ ہم اُن سے یہ کہہ کر کنارہ کش ہوجاتے تہیں کہ وہ دن دیکھنے کو ہم نہیں رہیں گے۔

اگرچہ کہ ہم ایسے محلے میںرہتے ہیں جہاں پانی کی اتنی قلت بھی نہیں ہے لیکن ہم بھی بالواسطہ پانی کی عدم دستیابی کا شکار ہیں ۔ ہمارا دھوبی شہر کے مضافات میں رہتا ہے اورایک بار جب ہمارے کپڑے لے کر جاتا ہے تو مہینے بھر تک صورت نہیں دکھاتا۔ پرسوں جب وہ دیڑھ مہینے کے بعد آیا تو ہم نے ذرا غصے سے دیر حاضری کی وجہ پوچھی ۔ اُس نے ہم سے زیادہ برہمی دکھائی ۔ کہنے لگا ’’بورویل سوکھ گئے ہیں۔ واٹر ٹینکر منگواکر آپ کے کپڑے دھوئے ہیں ۔ ٹینکر کے پیسے الگ سے دیجئے ۔ ہم نے جب کپڑوں کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ دھلائی میں پانی کا استعمال نہایت کفایت سے کیا گیا ہے ۔ اُس نے میلے کپڑے لے جانے سے بھی انکار کر دیا ۔ بہ ہزار دقت اُسے ایک اور ٹینکر کے پیسے دے کر راضی کرنا پڑا۔
ہمارے محلے میں ایک آدمی دودھ بیچتا تھا ۔ آج کل وہ پانی کا کاروبار کر رہا ہے ۔ ہم نے اُس سے پوچھا کہ میاں تمہارا آبائی پیشہ تو دودھ فروشی رہا ہے ۔ اب یہ پانی سپلائی کرنے کی کیا سوجھی۔ ہنس کر کہنے لگا کہ پانی ہمارا بنیادی پراڈکٹ ہے ۔ پہلے اُس میں دودھ ملاکر بیچتے تھے ۔ اب خالص پانی بیچ ر ہے ہیں اور گاہکوں کو بھی کوئی شکایت نہیں ہے۔
شہر کے بعض محلوں میں پانی کی قلت واقعی بہت زیادہ ہے ۔ ابھی دو دن پہلے ہم اپنے ایک قدیم دوست سے ملنے کے لئے چند اور دوستوں کے ساتھ گئے ۔ ہم کوئی ایک گھنٹے تک  وہاں رہے ۔ ہم کو تعجب ہوا کہ ہمارے دوست نے محض زبانی خلوص سے کام لیا لیکن چائے یا شربت سے تواضع نہیں کی ۔ جب ہم اُٹھنے لگے تو ہمارے دوست کچھ لیمو لے کر آئے اور ہم میں سے ہرا یک کو دو دو لیمو عنایت کئے اور معذرت خواہی کے انداز میں کہا کہ گھر جاکر اس کا شربت بناکر پیو۔ گھر میں پانی کم ہے اس لئے نیبو پانی کا انتظام نہیں کرسکا ۔ چاہو توشکر بھی لے جاؤ۔ ہم نے خوشی سے لیمو قبول کئے اور اُن کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا۔

ابھی کل کی بات ہے ۔ ہم اپنے ایک دوست کے بچے کی سالگرہ کی دعوت میں گئے تھے۔ رات کافی ہوچکی تھی ۔ ہمارے دوست نے کہا کہ بس تھوڑی ہی دیر میں کھانا نکل جائے گا۔ صرف بچے کی نانی کا انتظار ہے ۔بچے کی نانی تھوڑی دیر  میں آگئیں۔ آٹو ڈرائیور نے پانی کے دو پلاسٹک کے بیارل اُتارے جن پر نہایت خوش رنگ پھولدار کاغذ کی سلپ لگی ہوئی تھی اور جلی حروف میں لکھاتھا ’’نانی کی طرف سے پانی کا تحفہ‘‘۔
اُسی پانی سے کھانے کے دوران مہمانوں کی خاطر کی گئی۔
جہاں ابھی کل کے اخبار میں ہم نے پڑھا کہ شہر میں کئی منزلہ عمارتیں ایسی بھی بن گئی ہیں جہاں کئی سو فیٹ کھودنے کے باوجود بورویل سے پانی برآمد نہیں ہوا۔ لاکھوں روپئے کے بنگلے اور وسیع ولاز (Villas) جن لوگوں نے خرید لئے تھے آج پریشان ہیں اور جیالوجسٹ کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ سنا ہے کہ حیدرآباد میں زیر زمین پانی کی سطح اس قدر نیچے چلی گئی ہے کہ اگر تین سال تک مسلسل اچھی بارش ہو تبھی صورتحال بہتر ہوگی ۔ ان حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ آج سڑکیں ہی سڑکیں ہیں۔ کہیں فٹ پاتھ تک دکھائی نہیں دیتے۔ بارش ہو بھی تو پانی بہہ کر نکل جاتا ۔ کہیں جذب نہیں ہونے پاتا۔

ہم کو اس پر بھی تعجب ہے کہ ابھی تک نماز استسقا کا اہتمام کیوں نہیں ہوا ۔ ویسے ہم نے پڑھا تھا کہ امام کعبہ بارش کیلئے دعا کر کے گئے ہیں لیکن جہاں تک ہماری ناقص معلومات کا تعلق ہے پہلے لوگ کھلے میدان میں جمع ہوتے تھے ۔ اپنے ساتھ معصوم بچوں اور جانوروں کو بھی لے جاتے تھے تاکہ اللہ کو معصوم بچوں اور جانوروں پر رحم آئے اور بارش ہو۔
ابھی ہم یہ کالم لکھ ہی رہے تھے کہ مطلع ابرآلود ہوگیا اور بادلوں کی گرج سنائی دینے لگی ۔ گھن گرج بہت ہوئی لیکن بس بوندا باندی ہوکر رہ گئی ۔ اس پر ہمیں انگریزی کے مشہور ادیب اور ڈکشنری کے مرتب ڈاکٹر جانسن کا ایک واقعہ یاد آگیا ۔ جانسن ویسے تو بڑا دبنگ آدمی تھا ۔ سب اُس سے ڈرتے تھے لیکن وہ خود اپنی بیوی سے بہت ڈرتا تھا ۔ ایک بار جانسن کی بیوی اُسے بہت بری طرح ڈانٹ رہی تھی لیکن وہ بالکل خاموش بیٹھا تھا ۔ اُس کی خاموشی پر اُس کی بیوی کو اور غصہ آیا ۔ سامنے ایک گلاس رکھا تھا جس میں تھوڑا سا پانی تھا ۔ جانسن کی بیوی نے وہ پانی جانسن کے سر پر ڈال دیا ۔ جانسن نے بیوی سے کہا
After so much thunder, so little rain!
بہرحال انسان کی فطرت بھی عجیب ہے ۔ آج تو پانی کیلئے پریشان ہیں لیکن اگر آنے والے دنوں میں انشاء اللہ خوب بارش ہو تو لوگ شکایت آمیز لہجے میںکہنے لگیں گے’ بھئی بارش کی وجہ سے کئی کام رکے پڑے ہیں۔ نہ جانے کب سورج نکلے‘۔