اللہ رے۔ پارلیمنٹ میں احساس کی کمی!

 

غضنفر علی خان
کسی جمہوریت کی پارلیمنٹ کو کیا نام دیا جائے جس میں ملک کے عوام کے کسی سانحہ پر دو منٹ کی خاموشی منانے کی بھی فرصت نہیں ہوئی۔ یہ واقعہ کسی اور ملک میں ہوا ہوتا تو اس بے حسی پر ہم افسوس نہیں کرتے۔ اب اس کو کیا کیجئے کہ یہ ہمارے ملک میں ہوا ہے۔ 2014ء سے ہندوستانی باشندے عراق میں روزگار کی تلاش میں گئے تھے جن کی تعداد 39 تھی وہ عراق کی بربریت پسند آئی ایس آئی ایس کے ہاتھوں ہلاک کردیئے گئے۔ ان کی تلاش کا ڈرامہ ایوان میں بھی ہوتا رہا ان کی گمشدگی کا ذکر ہندوستانی میڈیا میں بھی ہوتا رہا لیکن 2017ء تک کچھ پتہ نہ چلا کہ آیا وہ زندہ ہیں یا ظالموں نے انہیں ہلاک کردیا ہے۔ ساری پارلیمنٹ، تمام ارکان، وزیر خارجہ سشما سوراج، وزیراعظم مودی اور مرکزی کابینہ صرف مگرمچھ کے آنسو بہاتی رہی ہے۔ ان افراد خاندان کو جن کے لوگ لاپتہ ہوگئے تھے کوئی خبر نہیں تھی۔ جھوٹی تسلیاں، دلاسے دیئے جاتے رہے کہ ہندوستانی حکومت بالخصوص وزارت خارجہ نے یہ آس برقرار رکھنے کے لیے کہ وہ زندہ ہے کرتب بازی کرتے رہے۔ وزیر اعظم بیرونی ممالک کے دورے کرتے رہے۔ ملک میں کئی چنائو ہوتے رہے۔ کئی ریاستوں کی حکومتیں بدلتی رہیں، لیکن ان گمشدہ ہندوستانی باشندوں کی موت یا زندگی کی فکر کسی کو نہیں تھی۔ بالآخر 20 مارچ 2018ء کو وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا کہ تمام ہندوستانی باشندے جو عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل میں تھے ہلاک کردیئے گئے ان 39 اموات کا رتی برابر بھی افسوس پارلیمنٹ میں نہیں کیا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی پارلیمنٹ میں 39 ہندوستانی باشندوں کی بے دردانہ ہلاکت پر ایک آنسو نہیں ٹپکا۔ یہ اور بات ہے کہ ان مہلوکین کے خاندانوں میں صف ِ ماتم بچھ گئی، بچے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔

کتنے ہی معصوم اچانک یتیم ہوگئے۔ مائوں کی گود اجڑگئی، کئی باپ صرف بلبلاتے رہے کہ کیوں اتنی بڑی خبر کو حکومت نے ان سے چھپائے رکھا۔ لیکن پارلیمنٹ کے ارکان تھے کہ اپنے جزوی مفادات کے لیے صرف احتجاج کرتے رہے۔ نعرے بلند کرتے رہے اسپیکر بار بار اپیل کرتی رہیں کہ اتنی بھیانک خبر پر جس کو اصولاً ’’قومی سانحہ ‘‘ قرار دیا جانا چاہئے، صرف دو منٹ کی خاموشی منانی چاہئے۔ اپوزیشن پارلیمنٹ کے ارکان اپنی بدمستی میں رہے۔ کسی پارٹی کو مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی فکر تھی تو کسی پارٹی کو یہ درد ستائے جارہا تھا کہ دریائے کاویری کے پانی کی تقسیم ایسی ہو کہ ان کی ریاست کو زیادہ پانی ملے۔ کسی کو یہ غم کھائے جارہا تھا کہ ان کی ریاست کو کیوں خصوصی موقف نہیں دیا جارہا ہے تو کوئی اپنی ریاست کے ساتھ بجٹ میں نا انصافی کی شکایت کے ساتھ پارلیمنٹ کے وسط میں پلے کارڈس لیے چیخ چیخ کر نعرے لگارہا تھا۔ غرض ان بیچارے مہلوکین کی بے رحمانہ موت (اور وہ بھی پردیس میں ہوئی موت) کے لیے ان ہنگاموں کے دوران صرف دو منٹ کی روایتی خاموشی منانے کے لیے تیار نہیں تھی۔ راجیہ سبھا اور لوک سبھا کا یہ منظر دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ 20 مارچ 2018ء کا دن ایسا تھا کہ اس دن پارلیمنٹ کی عزت و توقیر پر ایک ایسا سیاہ دھبہ لگ گیا کہ اس کو کبھی دھویا نہیں جاسکتا۔ اس دن پارلیمنٹ میں انسانوں کی موت کا افسوس کرنے کی کسی کو فرصت نہیں تھی۔ اس دن بھی اس قومی سیاست نے اخلاقی گراوٹ کی ایسی آخری حد ہوئی جس کی کوئی مثال آزاد ہندوستان کی سیاست میں نہیں ملتی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ کوئی بے حد اہم مسئلہ زیر بحث تھا۔ لیکن ایک چیز بالکل واضح تھی کہ ہماری پارلیمان اور اس کے ارکان میں ’’احساس کی حد درجہ کمی‘‘ ہوگئی ہے۔

ہوسکتا ہے کہ کچھ ارکان مہلوکین کو خراج عقیدت پیش کرنے پر آمادہ بھی ہوں لیکن مٹھی بھر ارکان کا غلبہ تھا پارلیمنٹ کو ’’یرغمال‘‘ بنایا گیا تھا۔ برہم ارکان جو چاہے کہہ رہے تھے اور جو چاہے کررہے تھے۔ ایوان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا یہ کیفیت صرف 20 مارچ کو ہی نہیں تھی بلکہ پارلیمان کے اجلاس کے روز اوّل سے یہی ہنگامہ آرائی دیکھی گئی۔ ارکان کو اس کا اندازہ ہو کہ نہیں ہو لیکن اس ملک کے عوام خوب جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ایک اجلاس پر ملک کے عوام کے ٹیکسوں سے وصول کردہ کروڑوںروپئے ہر دن خرچ ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی تنخواہیں جو ارکان کو دی جاتی ہیں اس طرح نعرہ بازی کرکے ضائع کرکے پارلیمنٹ نے ایک بار نہیں کئی بار ایسی مثالیں قائم کی ہیں جبکہ ہر باشعور اور غیرت مند ہندوستانی بھلادینا چاہتا ہے اپنی یادداشت سے ایسے سارے نقوش کو مٹادینا چاہتا ہے جو ملک کی نیک نامی کو ذلت آمیز بدنامی میں بدل دیتے ہیں۔ یہ کیا تماشہ ہے کہ ارکان کے پاس صرف دو منٹ کی خاموشی کے لئے بھی وقت نہیں تھا۔ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں تھا کہ ملک کے 39 افراد قتل کردیئے گئے اور انہیں ایک اجتماعی قبر میں دفن کردیا گیا۔ حکومت اور عوام کو اس بات کی خبر تک نہیں ہوئی کہ انہیں کب قتل کیا گیا، کیسے قتل کیا گیا، کیا سب کو گولی ماردی گئی، آج تک بھی مہلوکین کے ورثاء کو کچھ نہیں معلوم کہ کیسے ان کے پیاروں کو ہلاک کیا گیا۔

ہماری وزیر خارجہ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اُن کے پاس یہ اطلاع نہیں ہے کہ تمام افراد کیسے اور کہاں ہلاک کئے گئے اور کیوں ایسی صورتحال پیدا ہوئی۔ وزیر اعظم کی تو خیر بات ہی کرنا مناسب نہیں ہے۔ اُن بیچاروں کو تو بیرونی دوروں سے فرصت نہیں ملتی یا کبھی ملتی بھی ہے تو ساری توانائی ساری طاقت اپنے اور اپنی پارٹی کے اقتدار کو بچانے کے لئے خرچ ہوتی ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ اتنے بڑے ملک کے منتخب وزیر اعظم کو کیا پڑی کہ وہ چند عام ہندوستانیوں کے قتل کیلئے اپنی پیشانی پر بَل لائیں۔ ان کا تعزیتی بیان بھی محض روایتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ غم زدہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

عجیب حکومت ہے اور پارلیمنٹ بھی عجیب تر ہے اس کے پاس عام ہندوستانیوں کی گمشدگی اور بعد میں ان کی غمناک ہلاکت سے اپنے تعلق خاطر کے اظہار کے لئے دو منٹ کی خاموشی منانے کی مہلت نہیں ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ساری قیادت کا دعویٰ کرنے والوں کو عوام کی ہلاکت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر احتجاج کرنے والے ارکان صرف دو منٹ کیلئے اپنی نشستیں سنبھال لینے اور دو منٹ کے لئے خاموش کھڑے ہوجاتے تو اس سے ان کو یا ان کے مقصد کو کوئی نقصان تو ہونے والا نہیں تھا۔ صرف یہ اظہار ہوتا تھا کہ اُن بدقسمت ہندوستانیوں کی ایسی موت پر پارلیمنٹ کے عوامی نمائندوں کو بھی افسوس ہے۔ حالانکہ یہ افسوس بھی ہلاک ہونے والے کسی فرد کی ماں، اس کے بچے، اس کی بہن کا غم کم نہیں کرسکتا تھا صرف اعلیٰ انسانی اقدار کا پاس و لحاظ،انسانی جذبات و احترام بھی ظاہر ہوتا تھا۔ اگر ملک کی پارلیمنٹ کے پاس ملک کے باشندوں کی موت پر دو منٹ کی خاموشی بھی نہیں منائی جاسکتی ہے اتنا وقت بھی ارکان پارلیمنٹ کے پاس نہیں ہے تو پھر ایسے ایوان اور ایسے ارکان دونوں کا وجود کسی گراں قدر مقصد کو پورا نہیں کرسکتا۔بہر حال یہ ایک انتہائی تکلیف دہ اور دل شکن مظاہرہ تھا جسے دیکھ کر یا سن کر دل دہل گیا۔