اللہ اور پیغمبروںکو نہیں ماننا

سوال : میرا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ میرے خسر نے تقریباً دس افراد کے سامنے یہ بات کہی کہ وہ اللہ تعالیٰ اور پیغمبروں کو نہیں مانتے ہیں (نعوذ باللہ) لہذا میرے خسر کے بارے میں شریعت کی روشنی میں کیا حکم ہے ؟ مجھے معلوم ہے کہ جو شخص اللہ اور رسول کو نہیں مانتا وہ اسلام سے خارج ہے۔ میرا اہم سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں میری بیوی پر کیا حکم بنتا ہے ۔ میرے خسر کے گھر کو جانا آنا کھانا پینا شرعاً درست ہے یا نہیں ؟
عظیم الرحمن،کوٹلہ علیجاہ
جواب : جو شخص اللہ تعالیٰ اور پیغمبران کرام علیھم السلام کا انکار کرے ازروئے شرع وہ اسلام سے خارج ہے ۔ سوال میں ذکر کردہ کلمات کفر یہ ہیں ۔ کوئی مسلمان اپنی زبان سے ایسے کلمات نکالتا ہے تو وہ فی الفور اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ کسی مسلمان سے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی زبان سے ایسے کلمات ادا کرے گا ۔ بسا اوقات بعض مسلمان لڑائی اور اختلافات کی صورت میں گرم مباحثہ کے د وران فریق مخالف کے استدلال کو قبول نہ کرتے ہوئے ایسے کلمات استعمال کردیتے ہیں تو ایسی صورت میں فریق مخالف ایک بات کو پکڑ کر اچھال دیتے ہیں۔ جب تک دونوں پہلو سامنے نہ ہوں اور جو جملہ ادا کیا گیا ہے اس کا سیاق و سباق نہ دیکھا جائے اور جب تک یہ جملہ ادا کرنے والے سے اس کی حقیقت کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے کسی پر کفر کا حکم لگانے میں احتیاط کرنا چاہئے ۔لہدا بہتر صورت یہی ہے کہ متعلقہ شحص مفتی صاحب سے رجوع ہو، پورے تفصیلات کا ذکر کرے، بعدہ مفتی صاحب شریعت کی روشنی میں رہبری فرمائیں گے۔ اگر آپ کے خسر سے مذکورہ السئوال کلمات ادا ہوئے ہیں تو آپ کی بھی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کو اس جملہ کی سنگینی سے واقف کرائیں۔ یہ نہیں کہ آپ ان کو کافر سمجھیں اور ان کے ساتھ کافروں کی طرح معاملہ کریں۔ ولوبالفرض کسی لڑکی کے ماں باپ مسلمان نہ بھی ہوں تو لڑکی اپنے ماں باپ کے پاس جاسکتی ہے ، ملاقات کرسکتی ہے ، ان کے گھر میں حلال و جائز اشیاء کھا پی سکتی ہے۔

کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟
سوال : دارالحرب کی کیا تعیرف ہے ؟ کیا ہندوستان کو دارالحرب کہا جاسکتا ہے جبکہ یہاں کے تمام طبقات و اقوام کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں اہل علم کے نزدیک اختلاف پایا جاتا ہے۔ براہ کرم احکام شرعیہ کی روشنی میں صحیح موقف واضح کریں تو موجب تشکر ہوگا۔
حافظ محمد اکرام الدین قادری، نیو ملے پلی
جواب : دارالحرب ایک فنی اصطلاح ہے، اس کو فقہاء کرام نے وضع نہیں کیا بلکہ شارع علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کو دارالاسلام کے مقابل میں استعمال کیا جیسا کہ ہدایہ ، قدوری کے باب ا لربوا میں منقول حدیثہ ’’لاربوا بین المسلم والحربی فی دارالحرب‘‘ سے مستفاد ہے۔ لفظی اعتبار سے دارالحرب پر جب غور کیا جاتا ہے تو اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے اور بظاہر ہر دارالحرب سے ایسا ملک سمجھا جاتا ہے جس سے حرب یعنی جنگ کرنا درست ہے لیکن یہ بات ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جب کوئی فنی اصطلاح وضع کی جاتی ہے اور کسی لفظ کو مخصوص اصطلاح کیلئے مقرر کیا جاتا ہے تو اس میں لفظی مناسبت کے ساتھ جس اصطلاح کے بالمقابل یہ اصطلاح وضع کی جارہی ہے اس مد مقابل اصطلاح کے معنی و مفہوم کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے جس طرح ’’مادہ‘‘ کو سمجھنے کیلئے ’’نر‘‘ کا تصور ممد و معاون ہوتا ہے، حیوان (بالارادہ حرکت کرنے والا ، حس رکھنے والا) کو سمجھنے کیلئے ’’ جامد‘‘ کا مفہوم آسانی پیدا کرتا ہے۔ ’’ نور‘‘ کو سمجھنے کیلئے اس کی ضد ’’ظلمت‘‘ کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ’’ تعرف الاشیاء باضدادھا اشیاء اپنی ضد سے جانی جاتی ہیں۔ کسی بھی شئی کا ادراک اس کے ضد سے کما حقہ کیا جاسکتا ہے ۔ دارالحرب کے مفہوم کو صحیح طور پر سمجھنے کیلئے اس کے بالمقابل اصطلاح کو سمجھنا ضروری ہے اور دارالحرب کی اصطلاح دارالاسلام کے مقابل میں وضع کی گئی ہے ۔ اس لحاظ سے دنیا میں کسی بھی ملک پر بنیادی طور پر دو ہی لحاظ سے اطلاق ہوگا یا تو وہ اسلامی ملک کہلائے گا یا وہ غیر اسلامی ملک ہوگا ۔ اسلامی ملک کو دارالاسلام اور غیر اسلامی ملک کو دارالحرب کہتے ہیں۔ اب غیر اسلامی ملک کو کئی خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اگر وہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو، ان کے جان و مال کا تحفظ ہو تو اس غیر اسلامی ملک کو ’’ دارالامن‘‘ یا ’’ دارالامان‘‘ کہا جاسکتا ہے اور اگر جان و مال کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے ساتھ دعوت و تبلیغ پر کوئی پابندی نہ ہو تو اس کو دارالدعوۃ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مختلف اعتبارات سے غیر اسلامی ملک کو مختلف نام دیئے جاسکتے ہیں لیکن نام بدلنے سے اس کی بنیادی حیثیت تبدیل نہیں ہوتی۔ ہندوستان کو دارالامن کہیں یا دارالدعوۃ سے موسوم کریں۔ کسی بھی صورت میں وہ غیر اسلامی ملک (دارالحرب) سے خارج نہیں ہوگا کیونکہ اس میں اگرچہ مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو، عیدین و جمعہ قائم کرنے کی اجازت ہو ، مساجد تعمیر کرنے اور آباد کرنے کا حق حاصل ہو۔ حتی کہ غیر مسلمین کو اسلام کی طرف دعوت دینے کا مکمل اختیار ہو اس کے باوجود اس پر اسلامی ملک یعنی دارالاسلام کا اطلاق نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی باشعور شخص اس کو قبول کرے گا۔
حضور پاک علیہ الصلاۃ والسلام کے عہد مبارک میں تین قسم کے ملک تھے۔ (1 مکہ مکرمہ جہاں ابتداء میں عبادات بجا لانا تو کجا اسلام کا اظہار کرنا تکلیف دہ تھا ۔ دارالکفر تھا۔ اس کے مقابل میں ملک حبشہ میں اسلام پر عمل کرنا منع نہیں تھا ۔ مسلمانوں کو وہاں جان و مال کا تحفظ اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی تھی، یہ مسلمانوں کیلئے دارالامن تھا لیکن یہ دونوں ملک غیر اسلامی تھے کیونکہ وہاں بحیثیت مجموعی اقتدار و غلبہ مسلمانوں کو حاصل نہیں تھا، اسلامی قوانین اور حدود نافذ نہیں کئے جاتے تھے۔ ان دونوں کے مقابل میں مدینہ منورہ تیسرا ملک تھا جہاں ابتداء مخلوط حکومت قائم ہوئی جس میں اہل کتاب، مشرک اور مسلمان شریک تھے اور ان سب کے سربراہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ بعد ازاں یہ ملک دارالاسلام میں تبدیل ہوگیا اور اس کے مقابل میں جو بھی ملک تھے اگرچہ اس میں امن ہو یا نہ ہو اس پر دارالحرب کا اطلاق کیا گیا۔
فقہ اسلامی میں دارالاسلام اور دارالحرب کے مابین بعض احکامات میں اختلاف ہے۔ یعنی جو چیز دارالاسلام میں درست نہیں ، وہی چیز دارالحرب میں جائز ہوجاتی ہے ۔ مثال کے طور پر دارالاسلام میں بیوع فاسدہ جائز نہیں اور فقہ حنفی میں دارالحرب میں بیوع فاسدہ جائز ہیں۔ یہ جو اختلاف اور لچک ہے مسلمانوں کے حق میں اور ان کے مفاد میں ہے اور دارالاسلام اور دارالحرب میں اختلاف احکام امت اسلامیہ کے حق میں رحمت ہے ورنہ یہ کہنا کہ حکم شرعی ایک ہی ہوتا ہے۔ خواہ دارالاسلام ہو یا دارالحرب بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا نہایت دشوار ہے۔
پس ہندوستان غیر اسلامی مملکت ہے وہ دارالحرب ہے۔ اگرچہ اس میں مسلمانوں کیلئے امن و تحفظ اور آزادی ہے، اس لحاظ سے اس کو دارالامن یا دارالدعوۃ بھی کہہ سکتے ہیں۔ بہرحال نام کچھ بھی دیدیں وہ غیر اسلامی ملک ہی کہلاتے ہیں۔ اس میں بیوع فاسدہ درست ہیں یعنی گاڑی اور صحت کا انشورنس کرنا اگرچہ فاسد ہے لیکن یہ غیر اسلامی ملک جیسے ہندوستان میں جائز ہے اور امریکہ جیسے ملک میں تو یہ لازم ہے ۔ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ اس لئے اس گنجائش کے پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو آج اربوں مسلمان حرام کے مرتکب قرار پائیں گے ۔

اسلام کو حق سمجھنا کیا مسلمان ہونے کیلئے کافی ہے
سوال : میرا ایک غیر مسلم دوست تھا، ہم دونوں میں کافی محبت و دوستی تھی۔ انہوں نے پولیس ایکشن سے قبل کا مذہبی رواداری والا دور دیکھا تھا، اسلامی تہذیب سے متاثر تھے، عموماً اسلام کی صداقت کو مانتے تھے اور کہتے تھے کہ اسلام میں خدا کا جو تصور ہے وہ سب سے صحیح تصور ہے۔ وہ بت پرستی کو غیر معقول تصور کرتے تھے اور علی الاعلان اس کی مخالفت کرتے تھے۔ حال ہی میں ان کا انتقال ہوا ، ان کے مذہب کے مطابق ہی ان کی آخری رسومات انجام دی گئیں۔
مجھے سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح اسلام کی حقانیت کے اظہار سے کیا وہ دامن اسلام میں داخل نہیں ہوئے۔ اس سلسلہ میں شرعی رہنمائی فرمائیں تو مہربانی ہوگی۔
محمد ساجد خان، نامپلی
جواب : ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے اور کوئی شخص دل سے تصدیق کرے لیکن زبان سے اقرار نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن ہوگا۔ دنیا میں اس پر اسلام کا حکم نہیں ہوگا ۔ البتہ کوئی شخص مذہب اسلام کو صرف حق و سچا مذہب سمجھا ہو تو محض حق سمجھنے کی وجہ سے وہ مسلمان نہیں ہوگا کیونکہ کفار و مشرکین اور اہل کتاب دین اسلام کو حق جانتے تھے لیکن سرکشی عناد اور تکبر کی وجہ سے مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اہل کتاب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی کے طور پر ایسا جانتے تھے جیسا کہ وہ اپنی اولاد کو جانتے تھے یعنی اپنے اولاد کو پہچاننے میں کبھی کسی قسم کی تکلیف و دشواری نہیں ہوتی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے آثار و قرائن سے وہ اس قدر واقف تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت میں انہیں ادنی سے ادنی درجہ کا شک و شبہ نہیں تھا ۔ اس کے با وصف وہ ایمان نہیں لائے اور حق کو چھپادیئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذین آتینا ھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناء ھم وان فریقا منھم لیکتمون الحق وھم یعلومن (سورۃ البقرہ 146/25) پس آپ کے دوست نے صرف دین اسلام کو حق جانا ہے اس کا اعلان نہیں کیا تو ان پر مسلمان ہونے کا حکم نہیں ہوگا۔

مہرمیں متعینہ سونا ‘ چاندی کا
وقت ادائیگی کی قیمت کا اعتبار
سوال : زید اور ذاکرہ کا عقد (10 سال قبل ہوا‘ اور زر مہر نقد رقم مبلغ 15000/- (پندرہ ہزار روپئے سکہ رائج الوقت) اور تین دینار سرخ (یعنی تین تولہ اصلی سونا) مقرر ہوا‘ عقد کے روز رقم سے متعلق سکۂ رائج الوقت کا ذکر ہوا کرتا ہے جبکہ دینار شرعی و دینار سرخ کے تعلق سے رقم کی صراحت نہیں کی جاتی۔ عقد کے دن ایک تولہ سونے کی قیمت خرید مبلغ (4000) چار ہزار روپئے تھی‘ اب اس کی قیمت بڑھ کر مبلغ 30,000/- تیس ہزار روپیہ فی تولہ ہوگئی۔
زید اب زر مہر (نقد رقم) اور دینار سرخ کی قیمت بھی ادا کرنا چاہتا ہے ۔ زید کی اس وقت مالی حالت ا پنی بیوی کی کفالت و نفقہ اور بچوں کی تعلیم و تربیت و پرورش کی حد تک محدود ہے ۔ اس کو کوئی اور حلال آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہیکہ زید اپنی بیوی کو تین دینار سرخ کی رقم یعنی تین تولہ سونے کی رقم جو اسکے عقد کے روز قیمت خرید تھی وہ ادا کرے یعنی 12000/- روپیہ فی تولہ 4000/- روپئے کے حساب سے یا پھر موجودہ قیمت خرید کے حساب سے 90,000/- (نود ہزار روپیہ) ادا کرنا ہوگا ۔ واضح رہے کہ زید اس قدر کثیر رقم 90,000/- روپئے ادا کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔
مزمل حسین، وجئے نگر
جواب : مہر مؤجل (دیر طلب مہر) شوہر کے ذمہ در حقیقت مہر قرض ہے۔ اس کی ادائیگی بہر صورت شوہر پر لازم ہے۔ مہر میں متعینہ رقم مقرر کی گئی تھی اور عرصہ دراز کے بعد اس کو ادا کیا جارہا ہے تو وہی مقررہ رقم ادا کی جائے گی ۔ اسی طرح مہر میں سونا یا چاندی کی متعینہ مقدار مقرر کی گئی تھی تو شوہر کو وہی متعینہ مقدار ادا کرنا لازم ہوگا اور مہر کی ادائیگی کے وقت متعینہ سونا چاندی کی قیمت زیادہ ہوجائے یا کم ہوجائے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بہر صورت وہی متعینہ مقدار دینا ہوگا ۔ متعینہ سونا چاندی کی مقدار کا اعتبار ہے ۔ اس کی قیمت کی زیادتی یا کمی کا اعتبار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وآتوا النساء صدقاتھن نحلۃ فان طبن لکم عن شئی منہ نفسا فکلوہ ھنیئا مریئا (سورۃ النساء 4/4 )
ترجمہ : اور عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے ادا کیا کرو‘ پھر اگر وہ اس (مہر) میں سے کچھ تمہارے لئے اپنی خوشی سے چھوڑدیں تو تب اسے اپنے لئے سازگار اور خوشگوار کھاؤ۔اس آیت شریفہ میں عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے ادا کرنے کی تلقین کی گئی اور وہ عورتیں اپنی خوشدلی سے اپنے مہروں میں کچھ انہیں دیدیں تو اس کو تصرف میں لانا شرعاً درست ہے ۔ پس دریافت شدہ مسئلہ میں زید نے بوقت عقد 3 دینار سرخ (تین اشرفی‘ تین قدیم تولہ سونا مساوی فی تولہ بارہ ماشے) مہر مقرر کیا تھا تو اب بوقت ادائیگی اتنی ہی مقدار سونا ادا کرنا لازم ہوگا ۔ بوقت عقد سونے کی جو قیمت تھی اس کا اعتبار نہیں۔ البتہ بیوی خود اپنی خوشدلی و رضامندی سے مہر معاف کرنا چاہے اس میں کم کرلے تو بیوی کو اختیار ہے اور یہ معاف کرنا‘ کم کرنا ازروئے شرع درست ہے۔ در مختار جلد 3 صفحہ 124 میں ہے : (وصح حطھا) لکلہ أو بعضہ (عنہ) ۔